Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Maaf Karna Seekhen

Maaf Karna Seekhen

معاف کرنا سیکھیں

ایک نوجوان لڑکی کے ہاتھوں میں ایک نومولود بچہ تھا۔ اور وہ چیختی چلاتی ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخل ہوئی۔ اس سے کوئی بات نہیں ہو رہی تھی بس روئے جا رہی تھی۔ نرسوں نے بچہ پکڑا اور اسکی اکھڑتی سانسوں کو آکسیجن لگا کر بحال کرنے کی کوشش کی۔ اسکی ماں کے ہونٹ کانپ رہے تھے اور وہ اسکی آنکھیں جیسے آج سمندر بہا دیں گی۔ صرف پانچ منٹ لگے اور ننھے مہمان کی روح پرواز کر گئی۔ اس لڑکی کی تین بیٹیوں کے بعد چند دن پہلے یہ بیٹا پیدا ہوا تھا اور اسکے ساتھ ہی بچہ دانی کسی طبی مسئلے کی وجہ سے نکال دی گئی تھی۔ وہ اپنی کوکھ سے اب کبھی بچہ پیدا نہیں کر سکتی تھی اور یہ اسکی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔

فوت ہونے والے بچے کو ایک عام ہسپتال میں جنم دیا گیا تھا جہاں آکسیجن اور بچے کو کسی پیچیدگی کی صورت میں نرسری میں رکھنے کی سہولت نہیں تھی۔ دوران پیدائش ہی کوئی مسئلہ ہوا اور بچے کی حالت غیر ہوگئی۔ جو بعد میں نہیں سنبھل سکی اور بات اسکی جان جانے تک جا پہنچی۔ یہ واقع میری آنکھوں دیکھا ہے۔ بچہ میری آنکھوں کے سامنے وفات پایا تھا۔ اس ترلے لیتی بلکتی آہیں بھرتی ماں کی بے بسی کو میں آج تک بھول نہیں پایا۔

اس بات کو دس سال گزر گئے۔ میں اور میری اہلیہ ہمارے بیٹے ضوریز کو لے کر ایک سرکاری ہسپتال میں حفاظتی انجیکشن لگوانے جاتے ہیں اور نرس بڑی بدتمیزی سے انکار کر دیتی ہے کہ ڈیوٹی ٹائم ختم ہو چکا ہے۔ حالانکہ ابھی اسکی ڈیوٹی آف نہیں ہوئی تھی۔ میں ڈاکٹر کے پاس جاتا ہوں اور اسے کہتا ہوں کہ کسی اور سے کہہ کر انجیکشن لگوا دیں۔ وہ کہتی ہے نہیں جس نے آپ کو انکار کیا وہی لگائے گی اسکی ایسی کی تیسی۔ میں نے کہا اسے جانے دیں پلیز۔ ہم کل آکر لگوا لیں گے۔ ڈاکٹر اٹھ کر خود انجیکشن لگا دیتی ہے۔ اور نرس کے رویے پر معذرت بھی کرتی ہے۔

اب میری اہلیہ مجھے باتیں کر رہی ہے کہ وہ معمولی نرس آپ سے کیسے بات کر رہی تھی؟ آپ نے اس کا منہ کیوں نہیں توڑا؟ آپ اسے سسپنڈ کروا کر اسکے خلاف انکوائری لگوائیں۔ یہ ہم جیسے لوگوں کے ساتھ ایسا جاہلانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے تو سادہ لوح لوگوں کو کیسے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہوگی۔ اسے آپ سبق سکھائیں ورنہ میں آپ سے ناراض ہوں۔ اس طرح کی اور بھی کچھ باتیں اور گالیاں اس نرس کو پڑیں جو اسے میری بیوی کی بجائے کوئی بھی اور مریض ایسے ہی دیتا جیسا اس نے ہمارے ساتھ سلوک کیا تھا۔

مگر مجھے اسکا یہ سلوک رتی بھر بھی برا نہیں لگا۔ اہلیہ کی جلی کٹی سنتا ہوا گھر آگیا اور اس کا غصہ اترنے کا انتظار کیا۔ پھر اسے بتایا کہ مجھے آج بھی اس نرس کا چہرہ یاد ہے اسنے میرے سامنے اپنا جگر گوشہ کھویا تھا۔ اب یہ کسی بیٹے کی نہیں بلکہ تین بیٹیوں کی ماں ہے اور آج تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل پائی۔ وہ اسی لمحے میں قید ہے آج بھی کہ کاش میرا بیٹا نہ مرتا اور اسے پوری دنیا کی لڑکیوں کے بیٹے اچھے نہیں لگتے۔ ہماری بیٹی ہوتی تو وہ ایسا سلوک ہر گز نہ کرتی۔ تم اسکی حالت اور اسکے اوپر گزرے حادثے کو تو دیکھو۔ وہ ابھی تک آگے نہیں بڑھ سکی۔ اسے ہماری محبت اور درگزر کی ضرورت ہے نہ کہ انتقامی کاروائی کی۔ مسز کو بات سمجھ آگئی مگر پھر بھی اسنے اسکے رویے کو معاف کرنے سے انکار کر دیا کہ اسے ہمارے ساتھ ایسے بولنے کا کوئی حق نہیں تھا۔

اس بات کو دو سال بیت گئے۔ اللہ نے ہمیں بیٹی دی۔ میں جان بوجھ کر اسی ہسپتال میں گیا اور اسی نرس سے کہا کہ ہماری بیٹی ہوئی ہے۔ آپ زرا بچی کو چیک کر دیں گیں؟ اسنے انتہائی محبت سے بچی کو پکڑا اور اسے لاڈ کئے اسکا منہ چوما اور فزیکل معائنہ کرکے کہنے لگی بلکل ٹھیک ہے آپکی بیٹی۔ آپ کو بہت مبارک ہو بیٹی کی۔ میں نے اسے پانچ ہزار روپے دیے۔ نہیں لے رہی تھی زبردستی ہاتھ میں پکڑائے۔ رمضان کا آخری عشرہ تھا اور اسے کہا کہ آج شام کی افطاری آپ کے سب گھر والوں کی ان پیسوں سے میری طرف سے۔ آپ میری بہن ہیں اور مجھے بہت عزیز ہیں۔ اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور وہ نم آنکھوں کے ساتھ میرے گلے آلگی۔ شمامہ میری اہلیہ بھی وہیں تھیں۔ بولی یہ آپکی بیوی ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ خود ہی اسکا ماسک منہ سے نیچے کیا اور بولی ماشا اللہ بہت پیاری دلہن ہے بھائی آپکی۔

وہ اس بات سے بالکل بے خبر تھی کہ دس سال پہلے سے میں اسے جانتا ہوں۔ اور وہ اس بات کو بھی بھول چکی تھی کہ ہم لوگ دو سال قبل اسکے پاس گیے تھے۔ ہم لوگ واپس آرہے تھے تو میری اہلیہ اسے بہت دعائیں دے رہی تھی۔ اور کہہ رہی تھی کہ کتنی اچھی لڑکی ہے۔ میں نے کہا دو سال پہلے تو اچھی نہیں تھی؟ بولیں اب بس بھی کریں مجھے تھوڑا پتا تھا کہ اسکی کہانی کیا ہے۔

خیر بات کچھ یوں ہے کہ نرس آپی کی طرح ہم سب کی ایک کہانی ہے۔ جس سے دوسرے لوگ واقف نہیں ہوتے۔ اس کہانی میں پیش آئے واقعات ہماری باقی کی زندگی کو ایک نیا رخ دیتے ہیں۔ پیش آنے والے حادثات یا تو ہمیں نکھار دیتے ہیں یا مار دیتے ہیں اور کبھی تو ہم اس لمحے سے ہی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ معاف کرنا، درگزر کرنا، بدلے کو موخر کرنا سیکھئیے، پلٹ کر وار کرنا، سبق سکھانا، منہ توڑ دینا، اگر بہت آسان ہو، پھر بھی ڈی لے کر دیجئیے کہ آپ اس شخص کی کہانی نہیں جانتے جو آپ کے ساتھ برا پیش آیا ہے۔ جس نے آپ کی عزت اور وقار پر وار کیا ہے۔ جس نے آپ سے منافقت کی ہے۔ جس نے آپ کی آستین میں رہ کر آپ کو ڈسا ہے اور سب سے بڑھ کر آپ کا اعتماد اور یقین توڑا ہے۔ آپ ایسا کرنے والوں کی کہانی معلوم کیجئے آپ ان کو ایسے ہی معاف کر دیں گے جیسے میری اہلیہ نے اس کہانی میں موجود نرس کو دو سال بعد دل سے معاف کر دیا۔

Check Also

Khushaal Zindagi Jeene Ke Asaan Formulae

By Sadiq Anwar Mian