Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Love Marriage

Love Marriage

لو میرج

اقرا (فرضی نام) کہتی ہیں کہ وہ اپنے ایم ایس سی کے کلاس فیلو سے بہت پیار کرتی تھیں۔ اسکے اور میرے گھر والے نہیں مانے۔ برادری کا ایشو تھا۔ اس نے کہا ہم بھاگ کر شادی کرلیں گے۔ میں نے ماں باپ کی عزت کو رات کی تاریکی میں خاک میں ملا کر گھر سے بھاگ کر اس سے شادی کر لی۔

ہم عدالت بھی نہیں گئے۔ اس کے دو دوست تھے اور ایک مولوی۔ میرے تین بھائی بڑے تھے ایک چھوٹا۔ اکلوتی اور بڑی لاڈلی بہن تھی بھائیوں کی۔ سب نے ہمیشہ ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا۔ ایسی آنکھوں پر پٹی بندھی کہ سب کچھ مٹی میں مل گیا۔ میرے بھائی مجھے ڈھونڈ پر قتل کرنا چاہتے تھے۔ ہم لوگ براستہ ٹرین کراچی چلے گئے۔ موبائل نمبر بدل کر رو پوش ہوگئے۔

وہاں میرے خاوند کو ایک اور لڑکی اچھی لگ گئی۔ جو انکی اردو سپیکنگ کولیگ تھی۔ وہ بظاہر مجھ سے زیادہ خوبصورت اور بااعتماد تھی۔ مگر میں تو انکی بیوی تھی ناں۔ وہ مجھ سے خفا سے رہنے لگے۔ اس سے ساری ساری رات چیٹ کرتے رہتے۔ مجھ سے لڑتے کہ میری وجہ وہ اپنے گھر و شہر سے اتنی دور ذلیل ہو رہے ہیں۔ انکو اچھی جاب نہ ملی گزارہ نہیں ہوتا تھا تو میں نے جاب کرلی۔ وہ مجھ پر شک کرنے لگے۔ حالات اتنے سنگین ہوئے کہ ہم ایک ساتھ نہ رہ سکتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ آزاد ہونا چاہتے ہیں تو ہو جائیں۔ وہ واپس پنجاب آگئے اور اپنے گھر واپس چلے گئے۔ میں کہاں جاتی؟

میں نہیں جانتی کیسے۔ دو ماہ بعد ارسل کراچی میرے پاس پہنچ گیا۔ اور مجھے کہا کہ وہ میرے ساتھ رہےگا۔ اس میں نے سب سچ بتا دیا۔ وہ تھا تو چھوٹا مگر بہت بڑا بن گیا۔ اور مجھے معاف کرکے گلے لگا لیا۔ اپنے ساتھ لاہور لے آیا اور کہا کہ باجی تم اب کبھی شاید گھر تو نہ جا سکو۔ مگر اپنے بھائی کے ساتھ ساری عمر رہ سکتی ہو۔ میری شادی اب کہاں ممکن تھی۔ جو ہوا وہ کب چھپایا جا سکتا تھا۔

ہم تین سال یہاں لاہور رہے۔ پھر دونوں ہی دوبئی چلے گئے۔ کسی کو نہیں پتا کہ میں اور ارسل ساتھ رہتے ہیں۔ میں دوبئی ایکسپو سینٹر میں جاب کرتی ہوں۔ ارسل پیزا ڈیلیوری کرتا ہے۔ وہ جب امی ابو کو وڈیو کال کرتا ہے تو میں سائیڈ سے امی کو دیکھ اور انکی آواز سن لیتی ہوں۔ وہ ہر عید پر سال میں ایک بار بس میرا نام لیتا ہے تو وہ لوگ بہت غصہ ہوتے ہیں کہ اسکا نام نہ لو مرچکی ہے ہمارے لیے۔

ارسل اب بتیس سال کا ہے۔ وہ کہتا ہے وہ کبھی بھی شادی نہیں کرے گا۔ اپنی باجو کے ساتھ ہی رہے گا۔ بڑے بھائیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ ماشاءاللہ سب کے بچے ہیں۔ میری تو جیسے تیسے کٹ ہی جائے گی۔ وہ بس شادی کرلے۔ اس نے مجھے ایک بار بھی نہیں کہا کہ آپا تم شادی کرلو۔ کوئی اتنا اچھا کیسے ہوسکتا ہے جیسے میرا بھائی ہے۔

اور میں ان سب لڑکیوں کو بھی ایک بات کہوں گی۔ کہ لو میرج کرو۔ ضد کرو لڑو مرو مگر جب تک لڑکے کے والدین ساتھ آکر بیاہ کر نہ لے جائیں۔ ایک لڑکے کے ساتھ چوری چھپے شادی نہ کرو۔ اپنی اور والدین کی عزت بھی تاحیات گنوا دو گی۔ اور حاصل بھی کچھ نہیں ہوگا۔ سو میں دو چار ہی ایسے کیسز ہیں جہاں لوگ بعد میں راضی ہوجاتے ہیں۔ نہیں تو لڑکیاں قتل کر دی جاتیں۔ یا انکے لیے میکے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔

ایک انسان کبھی بھی پورے خاندان کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ عاشقی کے زمانے میں یہ باتیں عقل میں نہیں آتیں۔ گھر سے جیسے ہی پیر باہر نکلتا ہے چند دن میں عقل ٹھکانے لگ جاتی ہے۔ اور تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ میرا بھائی میرے پاس نہ کراچی آیا ہوتا۔ میں آج شاید گنگو بائی جیسی فاحشہ ہوتی۔

بھائیوں کے ہاتھوں یا اس سماج کے مردوں کے ہاتھوں مر کھپ چکی ہوتی یا نجانے کہاں زندگی کی سانسیں پوری کرتے ہر روز ذلیل ہو رہی ہوتی۔ اور سب کے بھائی ارسل جیسے نہیں ہوتے۔ ایسے چکروں میں پڑی اپنا وقت اور ذہنی سکون برباد کرتی لڑکیاں ہوش کے ناخن لیں۔

کہانی میں کرداروں کے نام و حالات و واقعات فیملی ممبرز وغیرہ پہچان چھپانے واسطے بدلے گئے ہیں۔

Check Also

Class Mein Khana

By Rauf Klasra