Lift Boy
لفٹ بوائے
پچھلے ماہ کے اختتام کی بات ہے میرا بھانجا بیمار تھا اور بہن نے مجھے فون کیا کہ بھائی اسے ہسپتال لیکر جانا ہے۔ آپ جلدی آجائیں۔ مجھے نجانے کیا سوجھی گاڑی چھوڑ کر بائیک پکڑی اور چلا گیا۔ دونوں ماں بیٹے کو لیا اور حافظ آباد شہر چلے گئے۔ ڈاکٹر نے کہا ڈرپ لگے گی اور دو تین گھنٹے یہیں رکنا ہوگا۔ شام ہو رہی تھی اور بادل بھی بہت گھنے تھے۔ ابو نے فون کرکے ڈانٹا کہ گاڑی کیوں نہیں لے کر گئے۔ میں نے وہاں ایک کونا پکڑا نیٹ فلیکس کھولا تو یہ فلم سامنے ٹاپ پر تھی۔ دیکھنی شروع کر دی۔ 1 گھنٹہ اور 46 منٹ کیسے معلوم ہی نہ ہوا۔
اتنی دیر میں ڈرپ بھی ختم ہوگئی اور باہر بارش بھی شروع ہوگئی۔ میں نے بہن کو کہا کہ تم رکو میں باہر سے ٹیکسی پکڑتا ہوں تم اس میں آؤ میں بائیک پر آتا ہوں۔ ان دونوں کو ٹیکسی میں گھر بھیجا اور خود ہیلمٹ ہسپتال کے ایک کونے میں چھوڑ کر گھر کے لیے چل نکلا۔ شام کے کوئی 9 بجنے والے تھے۔ بارش ایک دم سے تیز ہوئی اور ہر طرف جل تھل ہوگئی۔ میں کوئی 30 سے 40 کی سپیڈ پر گھر آرہا تھا۔ میری یاداشت کے مطابق کوئی 12 سال بعد میں بارش میں ایسے بھیگ رہا تھا۔ آخری بار یونیورسٹی میں ایک کلاس فیلو کے ساتھ بھیگا تھا۔ خیر میں اس فلم کے ایک کردار مسز ڈی سوزا میں اس قدر کھویا ہوا تھا کہ ہائی وے پر بائیک چلاتا میں اپنے گاؤں کی جانب مڑنے کی بجائے بہت آگے نوکھر کے قریب چلا گیا اور نہ مجھے بارش کا کوئی احساس ہوا نہ ٹھنڈ لگ رہی تھی۔
اس فلم کے سبھی کردار ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ مگر مسز ڈی سوزا میرے دل کو لگیں۔ ایک بلڈنگ کی مالکن۔ جس میں فلیٹس تھے اور وہ سب سے ٹاپ 6 نمبر فلور پر اکیلی رہتی تھیں۔ ایک سال پہلے انکے خاوند مسٹر کولن ڈی سوزا وفات پا گئے تھے۔ انکی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ ماں بن سکتی۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اور اپنے خاوند کے ساتھ 38 سالہ شادی شدہ زندگی بہت اچھے طریقے سے گزاری۔ وہ پینٹر تھی اور جیسے اکثریت میں بڑے آرٹسٹ ہوتے ہیں ویسے ہی انسان دوست بھی۔ اپنی بلڈنگ میں لگی لفٹ کے آپریٹر کے اکلوتے بیٹے کو پہلے دن سے اچھے سکول میں پڑھانے کا خرچہ دیا اور پھر انجینئرنگ کالج میں بھی پڑھایا۔ ایک بار لفٹ مین بیمار ہوتا ہے اور اسکا وہی بیٹا جو ایک پیپر میں چوتھی بار فیل ہوا ہوتا ہے۔
اسے باپ کی جگہ جاب کرنا پڑتی ہے۔ بطور لفٹ بوائے۔ یہاں سے اس لڑکے کی زندگی کا ایک نیا باب کھلتا ہے۔ مسز ڈی سوزا سے ملتا ہے۔۔ ایک لڑکی پرنسس اسکی دوست بنتی ہے۔ اسکا دوست شان اسے فلم میں دو بار ملتا ہے۔ کمال کا کردار تھا وہ موٹو بھی۔ مسز ڈی سوزا لفٹ بوائے کو فیل ہونے والے پیپر انجینرنگ ڈرائینگ کی تیاری کراتی ہیں۔ اور اسے تیاری کے دنوں میں اپنے گھر رکنے کا کہتی ہیں شام کا کھانا بھی کھلاتی ہیں۔ وہ بغیر کسی نوکرکے رہتی ہیں۔ خود ہی بازار سے رکشہ لیکر سودا سلف لینے جاتی ہیں اور کھانا بھی خود ہی بناتی ہیں۔ ایک بہت ہی باوقار اور سادہ شخصیت۔ راجو کا دوست اسے مشورہ دیتا ہے کہ ساٹھ ہزار روپے پروفیسر کو رشوت دے کر پیپر پاس کرا لیتے ہیں۔ اور راجو کا دوست شان رشوت کے پیسے بھی خود دے گا۔ مسز ڈی سوزا اسے کہتی ہیں کہ میں نہیں چاہتی کہ تم ایسا کرو پھر بھی تم کرنا چاہو تو تمہاری مرضی۔ وہ رشوت دینے سے انکار کرتا ہے۔ جس دن پانچویں بار لفٹ بوائے یعنی راجو پیپر دینے جاتا ہے۔ اسکے پیچھے ہی مسز ڈی سوزا وفات پا جاتی ہیں۔
مگر راجو کو زندگی جینے کا ایک نیا نظریہ دے جاتی ہیں۔ راجو پیپر پاس کرکے انجینئر تو بن جاتا ہے۔ مگر اپنے دوست شان، پرنسس اور اسی بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہنے والے آدمی کے ساتھ ایک ایسا شاندار انگلش میڈیم سکول کھول لیتا ہے۔ جہاں غریبوں کے بچے بلکل فری پڑھیں گے۔ مسز ڈی سوزا نے ایک بچے کو پڑھایا اور وہ آگے اپنی زندگی میں نجانے ایسے کتنے ہی دیے روشن کرے گا۔ آپ یقین کریں گے میں سٹارٹ بائیک پر نجانے کتنی اپنی گلی کے سامنے یہ سوچتا کھڑا رہا کہ اتنے کم بجٹ میں بنی فلم اتنی شاندار بھی ہو سکتی ہے۔ پہرہ دینے والا پٹھان سیٹی بجاتا آیا تو میں ہوش میں آیا اور گھر آگیا۔
اہلیہ میکے تھیں ورنہ ڈانٹ پڑنی تھی کہ بیمار ہونا تھا ایسی تیز بارش میں وہ بھی رات کو بھیگ کر۔ چھوٹی بہن نے دروازہ کھولا اور فلم کو ہی سوچتے چینج کرکے سو گیا۔ آپ یہ فلم ضرور دیکھیے گا۔ آپ اس سے بہت کچھ سیکھیں گے۔ ہم اپنی زندگی میں کوئی ایک کام کر سکیں تو وہ صرف ایک "راجو" تیار کر سکیں۔ مسز ڈی سوزا نے راجو سے چھپا کر اسکی تصویر بنائی تھی جو انکی وفات کے بعد راجو نے انکے سٹوڈیو میں جا کر دیکھی وہ اتنی پیاری تھی کہ مجھے کبھی نہیں بھول سکتی۔