Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Langri

Langri

لنگڑی

پرانی بات ہے مجھے دور کے رشتے داروں میں حافظ آباد سے ایک لڑکے کی منگنی پر بطور فوٹو گرافر شیخوپورہ جانے کا اتفاق ہوا۔ یاشیکا کا ریل والا کیمرہ میرے پاس تھا۔ جو ابو سعودیہ سے لائے تھے۔ ہم کوئی سات آٹھ لوگ تھے بولان کیری ڈبہ پر گئے تھے۔ لڑکی والوں نے ساری گلی نہ صرف صاف کر رکھی تھی بلکہ دونوں کناروں پر رنگ برنگا چونا بھی بکھیر رکھا تھا۔ ہم گھر میں داخل ہوئے تو ہمارے اوپر پھول پھینکے گئے۔ ایسا اہتمام عموماً بارات والے دن کیا جاتا ہے۔ لڑکی والوں نے بھی اپنے کافی رشتہ دار بلا رکھے تھے۔ وہ سب بہت خوش تھے۔ پہلے کھانا کھایا پھر لڑکی کو کرسی پر بٹھایا انگوٹھی پہنائی اور سب لڑکی کو پیسے دینے لگے۔

اسی اثناء میں لڑکے کی ماں رونے لگ گئی۔ اور اپنے ساتھ گئے لوگوں کے کانوں میں کچھ کہنے لگی۔ سب کے رنگ اڑنے لگے اور یہ بات لڑکی والوں نے بھی بھانپ لی۔ ابھی لڑکی کے کپڑے میک اپ وغیرہ کھولنا باقی تھا کہ ہم لوگ ان کے گھر سے بھری محفل چھوڑ کر نکل آئے۔ لڑکی کے باپ نے سو منت کی اپنے سر کی چادر لڑکے کی ماں کے قدموں میں رکھی کہ بات تو بتائیں ہوا کیا ہے۔ مگر وہ چپ چاپ منہ پھولائے غصے سے پھنکارتی ہوئی باہر نکل آئی اور سب اسکے پیچھے۔ لڑکے کی ماں نے دو منٹ پہلے پہنائی گئی انگوٹھی بھی خود ہی لڑکی کے ہاتھ سے اتار لی۔

کیری ڈبے میں بیٹھ کر مجھے معلوم ہوا کہ جس لڑکی کی منگنی ہو رہی تھی وہ چند دن قبل اپنے ایک آشنا کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اسے چند دن بعد کہیں سے برآمد کرکے لائے ہیں۔ سب لڑکی اور اسکے گھر والوں اور رشتہ کرانے والے کو گالیاں اور بد دعائیں دینے لگے۔ لڑکے کی ماں نے بتایا کہ اسے یہ بات وہیں موجود ایک عورت نے بتائی ہے۔ اس عورت نے کہا کہ وہ یہ تو نہیں بتائے گی کہ وہ رشتے میں کیا لگتی ہے۔ مگر اس بات کو آپ لوگ پورے محلے سے کنفرم کر سکتے ہیں۔ کہ یہ گھر سے بھاگی تھی۔ اور ایک ٹانگ سے لنگڑی بھی ہے۔ غور کرنے پر ہی معلوم ہوتا ہے۔

ہم لوگ گھر پہنچے ہی ہونگے کہ لڑکی کا باپ اور لڑکی کے دو چچا ہمارے پیچھے ہی آگئے۔ انہوں نے اللہ کا واسطہ دیا کہ ہمیں بات تو بتائیں ہوا کیا ہے۔ لڑکے کے والد نے بتایا کہ آپ کی بیٹی لنگڑی ہے اور گھر سے بھاگی بھی ہوئی ہے۔ آپ نے ہم سے اتنا بڑا فراڈ کیا۔ لڑکی کے باپ نے کہا کہ میری بیٹی کا پیدائشی ایک پاؤں ٹیڑھا تھا۔ میں ایک ٹیکسی ڈرائیور ہوں کسی کی کار کمیشن پر چلاتا ہوں۔ میں نے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کے پاؤں کے پانچ آپریشن کرائے کہ جب اسکا رشتہ ہوگا تو مشکل پیش آئے گی۔ اب اسکے پاؤں کا خم تو سو فیصد ٹھیک ہو چکا ہے مگر وہ والا پاؤں تھوڑا سا دبا کر رکھتی ہے۔ آپ لوگ تین بار آئے ہیں کوئی بتائے ناں تو معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اگر آپکی بیٹی کا بھی خدا نخواستہ ایسا پاؤں ہوتا تو آپ اسکی شادی نہ کرتے؟

لڑکے کے باپ نے جارہانہ انداز میں کہا کہ وہ بات ٹھیک ہے مگر گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کا پہلے بتانا تو تھا۔ کوئی بغیرت ہی اسے قبول کرتا۔ لڑکی کے باپ نے کہا ہم بیغیرت نہیں ہیں۔ چھ سال سے کوئی ساٹھ کے قریب رشتے آئے۔ لڑکی بی اے بی ایڈ ہے۔ خوبصورت ہے دراز قد ہے گھر کا کام کاج جانتی ہے۔ بس اسکے پاؤں کے نقص کی وجہ سے سب لوگ رد کر جاتے۔ ہم سب کو پہلے ہی سچ بتا دیتے تھے تو کوئی کہتا بچے بھی معذور ہونگے کوئی کہتا لوگ کیا کہیں گے لنگڑی بہو لے آئے۔ ایک اور دو ٹانگوں سے معذور لڑکوں کے رشتے بھی ہم نے دیکھے مگر وہ کچھ کمانے والے ہی نہیں تھے۔

ہم نے بہت گئے گزرے رشتے بھی قبول کرنا چاہے مگر وہ کچھ کماتے تو ہوتے۔ ہماری بیٹی مان لیں معذور ہی سہی مگر وہ مانگنے والوں سے نفرت کرتی ہے۔ بڑی خودار اور اوپر والے ہاتھ کا پسند کرنے والی بچی ہے۔ کہتی ہے سوکھی روٹی کھا لو، پھٹے کپڑے پہن لو، بھوک پیاس سہہ لو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ۔ ایک بار مانگ لیا تو دوسری بار مانگنا مشکل نہیں لگے۔ تیسری بار جھجک ختم ہو جائے گی اور چوتھی بار مانگنا اپنا حق لگے گا۔ اور پھر کچھ کرنے کو دل نہیں مانے گا کہ مانگنا ہی پیشہ بن چکا ہوگا۔ آپ لوگ اس بچی سے چند منٹ بات تو کرکے دیکھیں۔

اب دوسری بات کی طرف آتے ہیں۔ ہماری بیٹی جس پرائیویٹ سکول میں پڑھاتی تھی اسی سکول کے پرنسپل نے اسے کہا کہ تم یہ کیا کر رہی ہو۔ کوئی اتنی بار بھی خود کو رد کرواتا ہے؟ شادی سے خود انکار کر دو کہ تمہیں شادی کرنی ہی نہیں ہے۔ پاکدامن رہو اور زندگی میں کوئی بڑا کام کرو۔ جہاں جاؤ گی وہاں بھی باتیں ہی سننے کو ملیں گی۔ کوئی قبول کر بھی لے تو گھر میں موجود خواتین سے ملنے والے طعنوں سے کبھی جان نہیں چھوٹے گی۔ اس نے آکر ہمیں صاف بتا دیا کہ ابو مجھے ذلیل نہ کریں۔ میں روز روز لوگوں کے سامنے نہیں آسکتی۔

ہمارے رشتہ نہ کرنے سے باز نہ آنے پر اسی پرنسپل نے ہماری بیٹی کو پرپوز کر دیا۔ وہ شادی شدہ تھا۔ ہم نے اسکی پہلی بیوی کا اعتراض کیا کہ ہم رشتہ نہیں کریں گے۔ یہ ہماری جہالت تھی۔ ہمیں کر دینا چاہیے تھا۔ بیٹی نے بھی بہت سمجھایا کہ ابو امی وہ اچھا بندہ ہے۔ میں تین سال سے اسی سکول میں ہوں۔ وہ عزت سے بیاہنا چاہ رہا ہے۔ آپ لوگ کیوں فضول ضد کر رہے ہیں۔ مگر ہم نہ مانے کہ پہلی کو طلاق دے تو ہم رشتہ دیں گے۔ بیٹی نے سمجھایا کہ آپ کیسے ظالم لوگ ہیں۔ اپنی بیٹی کا گھر بسانے کی خاطر کسی کی بیٹی کا گھر اجاڑ رہے ہیں۔ وہ نہ مانے۔ تو بیٹی نے خود ہی کورٹ میرج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کسی طرح ہمارے پاس بھی یہ خبر آگئی۔ وہ لوگ سکول سے ابھی عدالت پہنچے ہی ہونگے کہ ہم بھی چار پانچ لوگ وہاں چلے گئے۔ اور بیٹی کو زبردستی وہاں سے واپس گھر لے آئے۔

ایسی باتیں چھپائے نہیں چھپتی۔ محلے کا ہی سکول تھا۔ سکول سٹاف نے بات بچوں کو بتائی اور یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ یہ سکول کا نام ہے یہ پرنسپل کا نام ہے۔ آپ جب مرضی جا کر حقیقت معلوم کر لیں۔ ہماری غلطی کی سزا ہماری بیٹی کو تو نہ دیں اور ہمیں بتائیں آپ کو یہ بات کس نے بتائی۔ سوٹ کا رنگ اور حلیہ وغیرہ بتایا تو وہ لڑکی کی ممانی نکلی۔ لڑکی کی تائی اور ممانی نے مل کر یہ فساد برپا کرایا تھا۔ وہ لوگ ابھی ہمارے پاس ہی تھے۔ اور کچھ امید نظر آنے لگی تھی کہ رشتہ دوبارہ جڑ جاتا کہ ان کو گھر سے فون آیا لڑکی نے لیٹرین صاف کرنے والا تیزاب پی لیا ہے۔ رشتہ کرانے والے آدمی نے بتایا کہ چار دن ہسپتال رہ کر وہ وفات پا گئی ہے۔

Check Also

Tareekh Se Sabaq Seekhiye?

By Rao Manzar Hayat