Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Kya Aap Mera Sath Denge?

Kya Aap Mera Sath Denge?

کیا آپ میرا ساتھ دیں گے؟

ضلع مظفر گڑھ کے ایک گاؤں میں عنقریب ایک بہت بڑا ظلم ہونے جا رہا ہے۔ ایک پندرہ سالہ ذہنی معذور لڑکے کے ساتھ ایک بلکل ٹھیک لڑکی کا نکاح کر دیا گیا ہے۔ لڑکے کی فیملی دوبئی سیٹل ہے۔ لڑکی والوں کو بہت بڑی رقم آفر ہوئی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ لڑکا اکلوتی اولاد ہے۔ دو بھائی اور تین بہنیں اور بھی ہیں یہ سب سے چھوٹا چھٹے نمبر پر ہے۔ والدین شادی صرف اس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ان کو تنگ بہت کرتا ہے مارتا ہے چیزیں توڑتا ہے۔ تو اسکی بیوی اسے سنبھال لے گی اور کسی پیر نے کہا ہے کہ وہ شادی کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔

وہ ایک جملہ بھی ٹھیک سے نہیں بول سکتا۔ لڑکی والے کوئی بہت غریب بھی نہیں ہیں۔ کیسے بے حس ہیں کہ جو اپنی بیٹی کو روپے پیسے اور دوبئی میں اسے لے جانے کے لالچ پر ایک نیم پاگل لڑکے سے بیاہ رہے ہیں۔ میں یہ لفظ پاگل لکھنے پر آپ سب سے معافی مانگتا ہوں مگر میرے پاس اس کا متبادل کوئی لفظ نہیں ہے۔ کیا ہم سب مل کر ہائے ہائے اور افسوس کرنے کی بجائے ان لوگوں کو جیسے بھی ممکن ہو روک سکتے ہیں؟ گاؤں کا نام بچے کا نام ولدیت سب کچھ مجھے اسی گاؤں سے ایک دوست نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے۔

اس کے بعد میں نے ویری فائی کرایا تو واقعی یہ سب سچ ہے۔ اس لڑکے کو پاکی ناپاکی اور اپنی صفائی تک کا کوئی خیال نہیں ہے۔ کیا عورت ذات اتنی ہی سستی ہے کہ اسے پیسوں سے عمر بھر کے لیے ایک مجذوب کا غلام بنا دیا جائے؟ کیسے گھٹیا و جاہل لوگ ہیں مجھے بہت گندی گالیاں آرہی ہیں ان سب کے لیے جو اس نکاح میں شریک تھے۔ اس مولوی کا علم کہاں چلا گیا جو عقل سے نابلد ایک نابالغ لڑکے کا ہر لحاظ سے ٹھیک لڑکی کا نکاح پڑھا چکا ہے۔ نکاح کے لیے کیا دین اسلام میں عاقل ہونا شرط نہیں ہے؟ عقل کے اندھو اسے کوئی خادمہ وہاں دوبئی میں رکھ دو۔ اسکی شادی جس سے کر رہے ہو وہ اپنی بھی عقل گنوا کر ذہنی توازن کھو بیٹھے گی۔

وہ کسی رات اسکا گلا دبا یا کاٹ دے گا۔ اسکا سر آنکھ ماتھا کسی شے سے پھوڑ دے گا۔ اسکا وہی حال کرے گا جو جج کی بیوی اور ایک سندھی پیر نے گھر میں موجود کمسن خادمہ کا کیا۔ تم لوگ کیا دوبئی اسے بچانے جا سکو گے؟ وہ لوگ دوبئی سے رخصتی کے لیے پاکستان آچکے ہیں۔ اور چند ہی دن میں اس لڑکی کو وہ دوبئی لے جائیں گے۔ کوئی طریقہ ہم اس ظلم کو روک سکیں۔ پولیس یا کوئی اور محکمہ جو اس بیٹی کا وارث بنے اور اسکے لالچ میں اندھے ہوئے والدین کی آنکھیں کھول سکے۔ میری یہ پوسٹ کاش اس بچے کے والدین تک پہنچ جائے۔ میرا ان سے ایک سوال ہے۔ کیا وہ اپنی تین بیٹیوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے بیٹے جیسے پاگل سے بیاہ سکتے ہیں؟

میری یہ فیلڈ ہے۔ روز ایسے بچوں اور انکے والدین سے پالا پڑتا ہے سامنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ انکا بیٹا عقل سے فارغ ہے اور انکا نکاح و شادی پوری دنیا میں نہیں ہوتا۔ انکی بیویاں بعد میں ان جیسی ہو جاتی ہیں یا خود کشیاں کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یا پاگل خانوں میں پہنچ جاتی ہیں۔

اگر وہ لوگ ایسا کر دیں تو خطیب احمد خود انکے بیٹے کا رشتہ کرا دے گا۔ میرا یہی سوال دیگر ایسے ذہنی معذوروں کے والدین سے بھی ہے۔ کہ اپنی بیٹی کو کیا آپ اپنے بیٹے جیسے کے پلے باندھ سکنے کی جرات رکھتے ہیں؟ خدا را یہ ظلم بند کیجئے۔ اور سب سے پہلے ایک بیٹی کو بچانے کے لیے میرا ساتھ دیجئے۔ جس کی شادی کر رہے وہ شادی اور نکاح کا لفظی مطلب بھی نہیں جانتا۔ اس کی منکوحہ کے جذبات کوئی بھی ذی شعور بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اسکے والدین اور لڑکی کے والدین عقل سے پیدل ہیں۔ ان لوگوں کو ان جیسوں کو کیا عدالت میں کیس کرکے یا پولیس کی مدد لے کر روکا جا سکتا ہے؟

اپنے آس پاس ایسے جاہلوں کو ایسا کرنے سے منع کریں۔ ایسی تقریبات میں جانے والے مہمان کیا ذہنی معذور نہیں ہیں؟ کیا یہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا نہیں ہے؟ کیا یہ انکے جذبات اور خوشیوں کا سر عام قتل نہیں ہے؟ یار کوئی بولتا ہی نہیں ہے کوئی ایسا کرنے والوں کو روکتا ہی نہیں ہے۔ اور ایسے لڑکے کی اولاد ہونے کی دعا کی جاتی ہے۔

Check Also

Ayaz Melay Par

By Muhammad Aamir Hussaini