Khuddari
خودداری
میرے فلیٹ کے راستے میں ایک میرج ہال آتا ہے۔ ایک بارات آئی ہوئی تھی فوجی بینڈ بج رہا تھا اور باراتیوں کی طرف سے پیسے لٹائے جا رہے تھے۔ پیسے لوٹنے والے بچے اور بڑے ایک دوسرے سے سبقت لیجاتے ہوئے ذیادہ سے ذیادہ پیسے پکڑ لینے کی کوشش میں تھے۔ بارات ہال کے اندر چلی گئی پیسے لوٹنے والے بکھرے تو اندر سے سپیشل بچہ بھی نظر آیا جو کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اور زمین پر گھسٹتے ہوئے سڑک کے ایک کنارے پر چلا گیا کہ ٹریفک چل سکے۔ عمر ہوگی کوئی بیس سال۔ چہرے سے بڑا خوش نظر آ رہا تھا۔
میں پیدل ہی تھا تو اسکے پاس جا کر زمین پر بیٹھ گیا۔ سلام دعا کے بعد اسے بتایا میں آپ جیسے سپیشل بچوں کا ہی ٹیچر ہوں۔ اسے پوچھا کہ کتنے پیسے اکٹھے کیے تو اس نے جیب سے نوٹ نکالے۔ گنے تو 720 روپے بنے۔ ایک نوٹ 500 کا بھی اسکے ہاتھ لگا تھا۔ پوچھا سکول کیوں نہیں جاتے تو بولا لکھنا پڑھنا اور بنیادی حساب گھر میں ہی سیکھ لیا تھا۔ اب سیلنگ کا کام سیکھ رہا ہوں۔ بارات آنے کی خبر ہو تو میرا ایک دوست جو میرے ساتھ کام سیکھ رہا ہے یہاں پیسے لوٹنے آتا رہتا ہے تو میں بھی اسکے ساتھ آ جاتا ہوں۔ اس نے ہی مجھے چند ماہ سے یہاں لانا شروع کیا ہے۔ میں نے پوچھا یہاں تم لوگوں کے پاؤں تلے نہیں آ جاتے؟
بولا ایسا تو ہر بار ہوتا ہے۔ مجھے کچل دیا جاتا ہے میرے کپڑے بھی ایک دو بار پھٹے ہیں۔ اس لیے اب ورکشاپ والے ہی سوٹ میں آتا ہوں۔ مگر یہاں آنے کے بعد میں نے زندگی کو ایک مختلف سوچ کے ساتھ جینا سیکھا ہے۔ مجھے مالی فکروں سے آزادی مل گئی ہے۔ ایک ماہ میں ایورج کوئی دس بارہ بار ہم یہاں آتے ہیں اور 500 سے 1 ہزار روپے تک کی دیہاڑی بن جاتی ہے۔ اور میں بہت خوش ہوں۔
میں نے اسے ایک ہزار روپے دینا چاہے تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا۔ کہ ایک بار میں نے خود کو معذور سمجھ کر امداد لے لی تو دوسری بار میرے لیے ایسا کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ میں یہ پیسے نہیں لے سکتا۔ مجھے مٹی میں مٹی ہو جانا قبول ہے مگر جب تک ان ہاتھوں میں حرکت ہے یہ جسم میری کچھ نہ کچھ بات مان لیتا ہے تب تک کسی بھی مد میں کسی سے ایک روپیہ نہ لونگا۔
میں نے پوچھا یہ سبق تم نے کہاں سے سیکھا ہے؟ بولا ان بہروپیے پیشہ ور بھکاریوں سے جنہیں مانگنے کی لت لگ چکی ہوتی اور وہ بھیک مانگتے مانگتے مر جاتے مگر انکی بھوک ختم نہیں ہوتی۔ اور انکے بچے بھی پھر یہی کام شروع کر دیتے۔ میں معذور ہوں مگر بھکاری نہیں ہوں۔ میں اپنے والدین کو بھی منع کرتا ہوں کہ میرے نام پر دیگر کئی سپیشل بچوں کے والدین کی طرح آپ نے جس دن کسی سے کچھ بھی لیا وہ میرا آپکے گھر آخری دن ہوگا۔
میں آپ سے وہی کھانا اور لباس لیتا ہوں جو میرے دوسرے بہن بھائی تو میرے لیے آپ امداد کیوں لیں کسی سے؟ میرا علاج ممکن ہی نہیں تو کیوں شہر شہر جا کر اور مجھے لیجا کر خود کو ہلکان کرتے ہیں؟ کیا میں آپکی اولاد نہیں ہوں؟ مجھے قابل رحم و ترس ہی رہنے دینے کی بجائے اس قابل بنائیں کہ میں اپنا خرچ خود اٹھا سکوں۔ نہ کہ چند ہزار کے عوض اپنی انمول خودداری بیچ کر باقی کی ساری عمر بھکاری بن کر لوگوں اور حکومت کی طرف ہی دیکھوں کہ مجھے کہاں سے امداد ملے گی۔
مجھے زمانے کی ٹھوکریں کھانے کا موقع دیں کہ میں وقار کے ساتھ چلنا سیکھ سکوں۔ مجھے گرنے کہ میں اس مقام سے اوپر اٹھ سکوں۔ میرے خدا کا میری تخلیق کے متعلق کیا منصوبہ ہے اسے پہچان سکوں۔ اور اسکی خدائی میں اپنا متعین کردار نبھا کر اسکے حضور پیش ہو سکوں جہاں میری ٹانگیں میرا وزن اٹھا لیں گی۔ اور اس بظاہر نظر آنے والی مشکل کا اجر وہ مجھے ضرور دے گا۔ کہ اس سے بڑا کوئی منصف نہیں ہے۔ اور مجھے تو اس مالک ارض و سما کا ہر فیصلہ دل سے قبول ہے۔ اسکے عطا کردہ اس جسم پر اسکا ہزار بار شکریہ۔