Saturday, 21 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Khud Se Mulaqat

Khud Se Mulaqat

خود سے ملاقات

میں جس فلیٹ میں رہتا ہوں ناں۔ یہاں نہ صرف اس بلڈنگ میں کوئی رہتا ہے بلکہ اس عمارت کی چاروں طرف کوئی گھر نہیں ہے۔ نئی آبادی ہے تو گھر تھوڑے دور دور ہیں۔ بڑی مشکل اور تلاش کے بعد ایسا پرسکون فلیٹ ملا ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم تنہائی و خاموشی میں خود سے جو پیاری ملاقات کر سکتے وہ ہجوم میں ممکن نہیں ہے۔ سردی کی کالی راتوں میں جب ہر سو سناٹا چھا جاتا ہے تو میں اکثر اپنی اندھیری چھت پر آ جاتا ہوں۔ ابھی بھی چند گھنٹوں سے چھت پر رکھی ایک کرسی پر گیلری کی شیڈ کے نیچے کچھ جڑی بوٹیاں ملے ہوئے گرم پانی والی بوتل اور ہاتھ میں چند کھجوریں پکڑے بیٹھا ہوں۔ خود سے آج کئی دنوں بعد ملا ہوں تو بہت خوش ہوں۔

آپ آخری بار خود سے کب ملے تھے؟ کیا آپ نے کبھی اپنے ساتھ پیش آنے والے جسمانی یا روحانی حادثوں و سانحوں پر غور کیا ہے؟ کہ یہ ہمارے ساتھ کیوں پیش آئے؟ آخر انکا مقصد کیا تھا؟ بہت سے لوگ تو ان حادثوں میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جو بچ جاتے ان میں سے کچھ تو بس زندگی کے دن کاٹ رہے ہوتے۔ اور کچھ سوچتے کہ یہ کیا تھا اور کیوں تھا اور مجھے اس امتحان میں ڈالا کیوں گیا؟

ان سوالوں کے جواب ہمیں کوئی اور نہیں ہمارا اپنا من دیتا ہے۔ مگر اسکے لیے ہمیں کچھ وقت شور اور ہجوم سے دور گزارنا ہوتا جو ہم گزار ہی نہیں پاتے۔ میرا اکثریت وقت اکیلے ہی گزرتا ہے تو ان سوالوں کے جواب تلاشنے کی کوشش میں لگا رہتا ہوں۔ بہت سے سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں اور بہت سی گھتیاں ابھی سلجھانے کی کوشش میں ہوں۔ مجھے چند سال پہلے ہی سمجھ آئی کہ اس کائنات کا عظیم ترین انسان آبادی سے دور آوازوں اور انسانوں سے دور پہاڑوں میں موجود تاریک غاروں میں کئی دن تک کیوں رہا کرتا تھا۔

ہم اگر خود سے ملنے پر خود کو حقیقی معنوں میں پہچان لیں۔ اور خدا کی اس عظیم ترین مشین کا وہ خاص الخاص فنکشن جان لیں جو اس جیسی 8 ارب فنکشنل مشینوں میں سے کسی بھی دوسری مشین میں اس نے نہیں رکھا تو ہم اس پوری دنیا کو ایک بہتر اور خوبصورت دنیا بنا سکتے ہیں۔ ہم نے صرف اور صرف اپنی انفرادیت کو قبول کر کے وہ رول پلے کرنا ہوتا جو ہمارے من کو خوشی دے۔ نہ کہ تن کو آسائش۔

اور ہم جب اپنے اس رول کا علم ہو جائے تو بغیر ادھر ادھر دیکھے کسی راہ سے بھٹکانے والے کی بات کو سنے، بس اسے ہی یکسوئی سے ادا کرنا ہوتا ہے۔ تو ہم روح کی خوشی تسکین اور سعادت حاصل کر پاتے ہیں۔ فکروں سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ اور روحانی بیماریوں سے ہمیشہ کے لیے شفایاب ہو جاتے ہیں۔ ہمارا وجود سراپا خیر بن جاتا ہے اور ہم کسی سلے، اجر یا ستائش کی آرزو سے ماورا ہو جاتے ہیں۔ مگر خود سے ملنا ہی تو آسان نہیں ہے۔ بس چند ملاقاتوں میں منزل کا تعین کر کے سفر شروع کریں اور اس دنیا کو وہ دیں جو آپ کے سوا دنیا کو بنانے والے کی طرف سے کوئی بھی اور دے کر ہی نہیں بھیجا گیا۔

Check Also

Tareekh Se Sabaq Seekhiye?

By Rao Manzar Hayat