Khoon Se Likha Love Letter
خون سے لکھا لو لیٹر
یہ 2005 کی بات ہے میں ڈگری کالج حافظ آباد پڑھتا تھا۔ حافظ آباد سے پنڈی بھٹیاں کی طرف والے دوستوں سے قربت ہوئی۔ حافظ آبادی بڑے ہی پیارے اور کھرے لوگ ہیں۔ ان کو ہماری طرف کے لوگ لیہندے والے بھی کہتے ہیں۔ بولی تھوڑی سی بھاری ہے۔ خیر میرا ایک دوست بنا جو عمر میں مجھ سے کوئی 4 سال بڑا تھا۔ مگر میرا کلاس فیلو تھا۔ اسے اپنی اکیڈمی والی ٹیچر سے پیار ہو گیا۔ میں کیونکہ اس کی اکیڈمی نہیں پڑھتا تھا تو اسے کہا کہ یار بھابھی دکھاؤ تو سہی۔
وہ مجھے اکیڈمی لے گیا اور وہ آپی ذرا بھی پیاری نہیں تھیں۔ عمر میں اس سے چند سال بڑی تھیں۔ مگر عشق یہ چیزیں کہاں دیکھتا ہے؟ میرے عاشق دوست نے پلان کیا کہ لو لیٹر اپنے خون سے لکھ کر دے گا۔ نجانے اسے یہ آئیڈیا کہاں سے آیا۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ یار پین سے ہی لکھ لیتے ہیں۔ میں لکھ دیتا ہوں مجھے خط لکھنے اور پڑھنے کا تجربہ ہے تم حوصلہ رکھو انکار نہیں ہو گا۔ میں نے چند عشقیا ڈائریاں بھی پڑھی ہوئی تھیں جو اس دور میں محبوب کو لکھ کر دینے کا رواج تھا۔
ایسے پمپ کریں گے تم خود دیکھ لینا۔ بولا پمپ شمپ تم ہی کرو گے مگر خط خون سے ہی لکھا جائے گا۔ میں نے اسے کہا یار وہ ڈر جائے گی۔ شہری لڑکی ہے کہ بدھو یہ کیا طریقہ ہے؟ تم خوش شکل ہو، معصوم ہو، ٹائم پاس کرنے کا اسکا ارادہ ہوا تو تم اچھی آپشن ہو۔ وہ کسی صورت نہ مانا۔ خیر میں نے اسے سمجھایا کہ خون سے ہی لکھ لیں گے مگر تمہارے خون کی ضرورت نہیں ایک کلیجی لے آتے ہیں۔ اسکا دل کیا مجھے کوئی شے اٹھا کر مار دے۔
میں نے اسے سمجھایا کہ یار اسے کیا معلوم ہو گا کہ خون تمہارا ہے یا کسی بیل کا؟ بولا یہ دھوکا ہے۔ آغاز ہی دھوکے سے ہو گا تو اللہ اسکا دل نرم ہی نہیں کرے گا۔ میری ساری دعائیں غارت ہو جائیں گی۔ سمجھا بجھا کر اسے قائل کر ہی لیا۔ قصائی سے جانور ذبح ہونے کے فوراً بعد ہی بڑی سی کلیجی لائے۔ ہیڈ ساگر کا مقام طے ہوا جہاں بیٹھ کر لیٹر لکھا جائے گا۔ کلیجی سے خون نکلتا رہتا ہے جو اتنی جلدی ختم نہیں ہوتا۔ تو کانے کی ایک ٹک والی قلم بلیڈ سے تیار کی گئی۔
شعر و شاعری سے مزین بڑا خوش خط ون پیجر مضمون لکھا گیا۔ اور اسے اے فور لیٹر کور میں پیک کیا گیا۔ (باڈی سپرے چھڑک کر کہ خون کی سمیل نہ آئے)۔ خط دے دیا گیا۔ جواب مثبت آیا مگر اس بات کے ساتھ کہ آئندہ ایسی چول نہ مارنا۔ مگر اسکے ضمیر پر ایک بوجھ تھا کہ وہ خون میرا نہیں بلکہ ایک بیل کا تھا۔ اور میری محبوبہ نے وہ خط بڑا سنبھال کر عقیدت سے رکھا ہوا ہے۔ وہ اب یہ کہے کہ وہ سچ بتانا چاہتا ہے۔
میں نے سمجھایا کہ بکواس نہ کرو اور بھول جاؤ خط کو۔ وہ نہ مانا اور معشوقہ کو بتا کر ہی دم لیا۔ وہ کئی دن تک ہس ہس کر لوٹ پوٹ ہوتی رہی کہ بڑا سائنسدان دوست ہے تمہارا۔ کالج چھوڑا تو ہمارا کوئی رابط نہ رہا۔ خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ انکی شادی ہو گئی۔ کل پرسوں وہ آپی میری فرینڈ لسٹ میں شامل ہوئی ہیں۔ انہوں نے جب تعارف کرایا کہ میں آپکی بھابھی ہوں جسے اکیڈمی دیکھنے آئے تھے۔ مجھے آپکا نام یاد تھا۔ جب آپکے بھائی سے کنفرم کیا تو بولے ہاں یہ وہی خطیب ہے۔ تو مجھے خط والی بات یاد آ گئی اور انکو بتایا کہ وہ خط میں نے لکھا تھا۔