Kahani Aik Aapki Ki Investment Ki
کہانی ایک آپی کی انویسٹمنٹ کی

آپکے کسی دوست یا رشتہ دار کا کوئی کاروبار ہے۔ آپ اسے پانچ سال تک ہر ماہ بیس ہزار روپے بطور انویسٹمنٹ دیتے رہتے ہیں۔ پانچ سال بعد آپ کو کتنے پیسے بمع منافع/نقصان ملنے چاہئیں؟ اس کا جواب پاکستانی کلچر میں ہے۔ زیرو۔ پاکستانی کلچر میں نہ تو کوئی انویسٹمنٹ سسٹم ہے نہ ہی کوئی لیے ہوئے پیسے واپس کرتا ہے۔ اصل رقم ہی واپس لینا جان جوکھوں کا کام ہے کجا منافع بھی حاصل کر پانا۔
کل ایک آپی سے کسی معاملے میں میری بات ہوئی۔ انہوں نے اپنی خود کی ایک بڑی متاثر کن کہانی سنائی کہ انکی شادی فروری میں ہوئی تو انکے اکاؤنٹ میں انکے ذاتی تین ملین پاکستانی روپے تھے۔ جن کو اب وہ کہیں انویسٹ کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک سکول ٹیچر لڑکی کے پاس تین ملین روپے آخر جمع کیسے ہو پائے؟
کہانی شروع ہوتی ہے سال دو ہزار انیس کے شروع سے۔ کرونا سے ایک سال قبل۔ آپی ایک منیاری اور جنرل سٹور ٹائپ دکان پر اپنی ضرورت کی اشیا لینے جاتی ہیں اور سیلز مین کی اپنی فیلڈ میں مہارت انہیں متاثر کرتی ہے۔ وہ ان کو بتاتا ہے کہ ہر لڑکی کو Bra کے ریگولر سائز پرفیکٹ نہیں آتے۔ جو سائز آپ کہہ رہی ہیں وہ آپ کو ڈسٹرب کرے گا۔ فلاں کمپنی کا فلاں سائز تھوڑی سی آلٹریشن کے بعد آپ کو ٹھیک طرح پورا آئے گا۔ لڑکی کو لگا کہ کچھ زیادہ بول گیا ہے۔ پہلے تو اسے سنانے کا سوچا۔ پھر وہی روٹین کا ریگولر سائز پکڑا اور واپس آگئی۔
وہ اس بات کو پہلے ہی جانتی تھی کہ روٹین کا سائز اسے پورا نہیں آتا اور ایسا ہزاروں لاکھوں مرد و خواتین کے ساتھ ہے کہ جوتے کے ریگولر سائز شرٹ یا انڈر گارمنٹس کے ریگولر سائز پرفیکٹ پورے نہیں آتے بس گزارا چل جاتا ہے۔
آپی نے اسکے بتائے ہوئے برانڈ کا وہی سائز ویسے ہی ایڈجسٹ کرکے استعمال کیا جیسے اس نے کھل کر بتایا تھا۔ تو اچھی فیل آئی۔ جو مسئلہ کئی سال سے در پیش تھا وہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ کوئی چھ ماہ بعد دوبارہ اسی دکان پر چکر لگا تو وہ لڑکا وہاں موجود نہیں تھا۔ اسکا حلیہ بتا کر پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس نے فلاں مارکیٹ میں اپنی ایک دکان بنا لی ہے۔ اس کا ایڈریس اور فون نمبر لے کر وہاں کی راہ پکڑی۔
اس سے ضرورت کی اشیا خریدیں اور اسکا شکریہ ادا کیا کہ تم نے اچھا گائیڈ کیا تھا۔ اس نے بتایا وہ ایسی بات ہر کسی کو نہیں بتا سکتا۔ لوگ برا منا جاتے ہیں یا فلرٹ سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی دکان پر ایک فی میل سیلز گرل رکھے گا اور اسے یہ ساری تعلیم دے گا کہ کسٹمر کو گائیڈ کرے۔ باڈی شیپ، عمر، پروفیشن، استعمال کی جگہ اور ظاہر ہے قیمت کو مدد نظر رکھتے ہوئے وہ اپنے گاہک کو بیسٹ آپشن پیش کرے گا۔
آپی نے اسے پوچھا کہ تم نے یہ سب کہاں سے سیکھا؟ بولا میرا کام ہی پچھلے پانچ سال سے یہ ہے تو اس پر پڑھتا اور وڈیوز دیکھتا رہتا ہوں۔ میرے کسٹمر دکان پر آکر میرا ہی پوچھتے ہیں اور مجھے شکل یا لباس دیکھ کر کچھ حد تک اندازہ ہوجاتا ہے گاہک سے کیسی بات کرنی ہے وہ میری بات کا مطلب کیا سمجھے گا۔ آپ کی بھی پرسنیلٹی دیکھ کر سوچا تھا پڑھی لکھی ہیں آپ کا بیگ کپڑے جوتا آپ کے متعلق کسی حد تک بتا رہا تھا کہ شاید ورکنگ ویمن ہیں اور میرے پوائنٹس کو سمجھیں گی۔ آپ نے سمجھ لیا عمل بھی کیا اور آج وہاں سے یہاں خود آگئی ہیں۔
اگلی بار وہاں جانا ہوا تو ایک لڑکی بھی وہاں کھڑی تھی۔ لڑکے نے بتایا میری ہی چھوٹی بہن ہے۔ جتنا بجٹ تھا اس میں کوئی تیز دماغ والی لڑکی نہیں ملی تو کام تھوڑا بہتر ہونے تک بہن کو لے آیا یہ ایک سکول میں سات ہزار ماہوار پر بطور ٹیچر پڑھا رہی تھی۔
گاہک آپی نے بی ایس بزنس ایڈمنسٹریشن کر رکھا ہے اور کاروباری سوچ ہی رکھتی تھیں۔ بس دیکھا دیکھی دو ہزار سترہ میں ایجوکیٹر بھرتی ہوگئی کہ گورنمنٹ جاب اچھی ہوتی ہے۔ اس دکان دار اور اسکی بہن کو اپنے گھر کسی دن دعوت پر مدعو کیا اور ان سے ایک بزنس انویسٹمنٹ پلان شئیر کیا۔
لڑکے کی شاپ میں کوئی دو تین لاکھ کا سامان تھا۔ جس میں سے زیادہ تر کریڈٹ تھا یعنی بیچ کر پیسے دینے تھے۔ آپی نے اسے بتایا کہ اگر ہر ماہ اسے ایک فکس اماؤنٹ لمبے عرصے تک انویسٹمنٹ ملتی رہے تو اور بزنس سے پرافٹ نہیں بس بقدر ضرورت کچھ پیسے ہی نکالے جائیں تو پانچ سال بعد اس دوکان کی ورتھ لگ بھگ اتنی ہو سکتی ہے۔ یہ کتابی فارمولے تھے اخراجات اور پرافٹ مارجن ریشو لڑکے نے بتا دی تو بلیک اینڈ وائٹ پلان بن گیا۔
ایگری منٹ یہ لکھا گیا کہ آپی اگلے پانچ سال تک بیس ہزار روپے ماہانہ انویسٹ کریں گی اور لڑکے کے بتائے گئے سالانہ ستر فیصد پرافٹ مارجن سے تیس فیصد اسے ملے گا چالیس فیصد لڑکے کا ہوگا۔ اگر کہیں نقصان ہوا تو اسے بھی اسی فارمولے سے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ پانچ سال بعد تین ماہ کے وقفے سے پانچ اقساط سے انویسٹ کی گئی رقم واپس کر دی جائے گی۔ اگر دونوں فریقین متفق ہوں تو نیا معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
ماہانہ انویسٹمنٹ کی رقم پانچ دس ہزار کم زیادہ کرنے کی ہر ماہ سہولت ہوگی اور ہر ماہ کی رقم کو کیلولیٹ کرکے سالانہ منافع نکالا جائے گا۔ آپی کی تنخواہ تو بڑھی مگر ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑی اور مشکل سے بیس ہزار جو طے ہوا تھا وہی دینا ممکن ہو سکا۔ کام ماشااللہ بہتر ہوتا چلا گیا کہ پہلے ہی سال دوکان میں موجود سامان کی ورتھ ڈبل ہوگئی کہ دو لاکھ چالیس ہزار روپے دوکان میں آچکے تھے۔ کریڈٹ کم ہونے لگا اور نقد خریداری پر مال سستا ملنے لگا۔
ایسا ہی اگلے بھی چار سال چلا اور پانچ سال پورے ہوگئے۔ انویسٹ کی گئی کل رقم بارہ لاکھ روپے ہوگئی۔ پرافٹ مارجن کسی شے میں پچاس تو کسی میں سو تو کسی میں دو تین سو فیصد بھی رہا۔ اس بات کا اندازہ اس لڑکے کو بھی ان سالوں میں ہوا جب اس نے سارا کچھ خود کیا۔ نقد سامان خریدا بلکہ خود فیکٹری سے بنوایا بھی۔ جو بزنس ایک شاپ سے شروع ہوا تھا اب ساتھ والی جوتوں کی دکان خالی ہونے پر اسے بھی ساتھ ملا کر درمیان کی دیوار نکال دی گئی اور ورائٹی بہت بڑھا دی گئی۔ طے شدہ ایگری منٹ کے مطابق اب ایک بار انویسٹ شدہ رقم بمع منافع / نقصان واپس ہونا تھی۔ کیلولیٹر مارا گیا تو اب تک جمع ہونے والا بارہ لاکھ پچیس لاکھ اکیس ہزار روپے بن چکا تھا۔ دکان دار نے اتفاق کیا کہ بلکل اتنے پیسے وہ دینے کا پابند ہے۔
اور لکھے گئے معاہدے کے مطابق ہر تین ماہ بعد پانچ لاکھ روپے کی قسط اب اسکے اوپر واجب الادا تھی۔ احسن طریقے سے اس نے اگلے پندرہ ماہ میں پانچ پانچ لاکھ روپے کی پانچ قسطیں اپنی انویسٹر کو ادا کر دیں اور معاہدہ ختم ہوگیا۔ اگلا معاہدہ شادی کے بعد کرنے یا نہ کرنے پر اتفاق ہوا۔ شادی میں شرکت پر وہی لڑکا آیا تو پانچ لاکھ روپے بطور تحفہ دیے کہ منافع جو اس نے دیا وہ کمائے گئے منافعے سے کم ہے اور ایک شکریہ بھی ہے یہ پانچ لاکھ کہ آپ نے مجھے ہمیشہ بہت سپورٹ کیا اور میرے اوپر اعتماد کیا۔ اتنے لمبے عرصے تک معاہدے کی پاسداری کی اور مجھے ایک نئی سوچ سے روشناس کروایا۔
اس معاہدے میں گواہان دونوں پارٹیز کی فیملی تھی اور ایک وکیل کے ذریعے ایگری منٹ لکھا گیا تھا۔ انویسٹر پانچ سال سے پہلے اسے ختم کرتا تو منافع نہیں ملنا تھا کہ بزنس کو ایک وقت چاہئیے ہوتا ہے Grow کرنے کے لیے۔ اس سے پہلے منافع نکالنا ہر بزنس میں مختلف ہو سکتا ہے۔ وہی تیس لاکھ اب آپی کے پاس پڑا ہے۔ شاید وہ ایسا ہی کوئی اور انویسٹمنٹ ماڈل کہیں اور بنا لیں کہ اب تو شادی بھی ایک بینکر سے ہوگئی ہے۔ آپی سکول جاب چھوڑ کر کوئی سمال بزنس سیٹ آپ کی طرف اب خود آنا چاہ رہی ہیں اور اسکے لیے وہ اپنی پسند کے بزنس میں ایک سال اس کو سیکھنا بطور ملازم بن کر بھی چاہ رہی ہیں۔ کہ بغیر تجربے کے کیسے کوئی کاروبار ہو سکتا ہے۔
ایک تجویز یہ بھی قابل غور ہے کہ سابقہ انویسٹمنٹ والے بزنس کی ایک برانچ اب اس شہر میں اوپن کی جائے جہاں شادی ہوئی ہے۔ چھوٹے سیٹ آپ کو بتدریج بڑھایا جائے جیسا سابقہ ماڈل تھا بلکہ ویسے ہی اور بھی کچھ پلان زیر غور ہیں۔ آپ جاب ہولڈر ہے، سیلز مین ہیں، دکان دار ہیں، انویسٹمنٹ لینا یا کہیں کرنا چاہ رہے ہیں، اس کہانی میں نجانے کتنے ہی سبق پوشیدہ ہیں۔ اپنی مرضی کا سبق آپ اس کہانی سے نکال سکتے ہیں۔ گو ایسی مثالیں ہمارے معاشرے میں بہت کم ہیں مگر ناپید نہیں ہیں۔ لوگ اعتبار کرتے بھی ہیں اور انکا اعتبار قائم رکھنے والے بھی ہیں۔

