Jungle Ka Qanoon Hai
جنگل کا قانون ہے

سڑک پر کوئی ٹریفک کا حادثہ ہو۔ ہونا تو یہ چاہئیے جو کراچی سے صرف ایک گھنٹہ کی فلائیٹ پر مسقط شہر میں ہوتا ہے کہ ایکسڈنٹ ہونے پر کوئی وہاں سے بھاگ نہیں سکتا۔ گاڑی سے اتر کر ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی جاتی ہے اور اگر غلطی کرنے والا اپنی غلطی خوش اسلوبی سے مان لے اور کہے کہ میں کیش میں یا انشورنس میں یا ویسے گیراج سے گاڑی ٹھیک کروا دیتا ہوں میرے ساتھ آئیے۔ تو ہنسی خوشی معاملہ حل ہو جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو اور عموماً لوگ اسکی کوشش بھی نہیں پولیس کو کال کرتے ہیں وہ پانچ منٹ سے بھی قبل وہاں پہنچ کر انصاف کر دیتے ہیں۔ قصور وار کا ڈیٹا لے کر اسے کہا جاتا ہے بریک ڈاؤن بھی تم ہی منگواؤ۔ گاڑی کو ٹوچن ڈالنا وہاں ممنوع ہے بریک ڈاؤن ہی گاڑی اٹھا کر لے جائے گی چاہے پانچ سو میٹر دور ہی گیراج کیوں نہ ہو اور جس کا نقصان ہوا ہوگا۔ اسکی گاڑی رپئیر کر دی جائے گی۔ غلطی کرنے والے کی سزا ہے جو اسے ضرور ملنی چاہئیے کہ مخالف فریق کی گاڑی بھی تم ٹھیک کراو گے۔ اپنی تو کروانی ہی ہے۔
یہاں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔ جنگل کا قانون ہے۔ بڑی پرانی بات ہے لاہور بھیکے وال چوک میں میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ گاڑی والے نے رانگ سائیڈ سے آکر ہٹ کیا۔ ساری بائیک کباڑہ ہوگئی۔ ہمیں بھی بہت چوٹیں آئیں۔ جوانی تھی درد برداشت کر لیا اور گاڑی کو روک لیا۔ میں نے پولیس کو کال کی۔ وہ بڑے اوازار سے ہو کر آدھے گھنٹے بعد وہاں آئے اور دونوں فریقین کو وحدت کالونی تھانے لے گئے۔ اس بندے کی کوئی اپروچ تھی وہ اسی لیے وہاں پولیس کا انتظار کرتے پرسکون بیٹھا تھا۔ اس نے ساز باز کرکے کسی بھی رپورٹ لکھے جانے سے قبل ہی ہم دونوں کو ہی حوالات میں بند کروا دیا۔ جنہوں نے مدد بلائی تھی۔ ایک حرام خور اے ایس آئی ہمیں کہنے لگا کہ بھٹو کو پھانسی بھی ایک اے ایس آئی کی رپورٹ کی بنا پر ہوئی تھی۔ صلح کر لو ورنہ ایسا پرچہ کاٹوں گا سڑتے رہنا جیل میں پڑے۔
ہماری قسمت اچھی تھی کہ تھانے پہنچنے سے پہلے ہی ہاسٹل کال کر چکے تھے۔ ورنہ وہاں تو جاتے ہی ہمارے پرس اور موبائل چھین لیے گیے۔ جمیعت طلبہ اسلام کے دوست اور انکے ساتھ دس پندرہ اور ہاسٹل فیلو آئے اور انہوں نے نہ صرف ہمیں حوالات سے باہر نکلوایا بلکہ ہاسٹل ناظم صاحب نے نہ صرف اس بے غیرت اے ایس آئی بلکہ ایس ایچ او کو بھی وہاں بے عزت کیا کہ جو انصاف مانگے اس کے ساتھ ایسا کرتے ہو تم لوگ۔ موقع پر جا کر دیکھا یہ بے قصور ہیں۔ پھر بھی دھمکانے کی خاطر انکو بے وارث جان کر اندر ڈال دیا اور وہ زخمی بھی ہیں۔ یہ لڑکے دوبارہ کبھی پولیس پر اعتماد کر پائیں گے؟ تم لوگوں کی وجہ سے ایماندار لوگوں سے بھی نفرت کریں گے اور تھانوں کو یہی سمجھیں گے جو تم لوگوں نے ان کے ساتھ کیا۔ وہ ساری رات ہم ہیلتھ سنٹر ایڈمٹ رہے اور اس نظام پر ان پولیس والوں پر لعنتیں بھیجتے رہے۔
یہاں جس کی گاڑی کا نقصان ہوتا ہے۔ اسے بھی پتا ہوتا ہے یہاں میرا کچھ نہیں بننا اور اگر قصور ہی گاڑی والے کا ہے تو موٹر بائیک والے کا شاید کچھ نہ بنے۔ ان پر تو پہلے ہی الزام ہے وہ محفوظ ڈرائیونگ نہیں کرتے۔ یعنی کوئی سسٹم نہیں ہے جو رسپانس کرے اور حقدار کو اسکا حق دلائے۔ غلطی غریب کی ہو یا امیر کی ان کو اپنی غلطی سے ہوئے مخالف فریق کے نقصان کو بھرنا پڑے اور پولیس اس عمل کو یقینی بنائے۔
تو شاید کراچی میں ایک نواجوان پر تشدد کرنے والے ایک صاحب کی طرح سڑکوں پر آئے روز ایسی مار کٹائی اور ہاتھا پائی رک سکے۔ ظالم کا ہاتھ رکے اور مظلوم کو انصاف ملے۔ جس نے بھی غلطی کی ہو اسکی اسے جائز سزا ملے نہ کہ ایسے کوئی طاقتور بیچ سڑک کے اپنی عدالت لگا کر کمزور پر کوڑے برسانا شروع کر دے۔ ساری عمر اب لعنتیں ہی کمائے گا خدا نے اسے رسوا کرنا تھا وہ لڑائی شاید ایک بہانہ تھی۔
مگر ابھی یہاں وطن عزیز میں ایسا ہوتے دور دور تک نظر نہیں آتا۔ یہاں گھر سے باہر نکلیں تو دعا مانگ کر نکلیں سب خیریت رہے۔ کوئی وردی والا یا چور ڈاکو یا کسی حادثے کی صورت میں کوئی بگڑا ہوا امیر زادہ آپ کو پکڑ کر چپیڑیں مار دے آپکا گریبان پھاڑ دے آپ کو ناحق بے عزت کر دے۔ ساتھ آپ کے بیوی بچے ہوں والدین ہوں بہن بھائی ہوں۔ اس بے بسی بھری ذلت کی بھرپائی دوبارہ کہاں سے اور کیسے ہو پائے گی؟ اور آپ کو مارنے والے کو بعد میں قتل ہی کیوں نہ کر دیا جائے جو اس نے آپ کے ساتھ کر دیا وہ واپس نہیں آنا۔ حساس لوگوں کا یہاں رہنا مشکل سے مشکل ترین بنتا جا رہا ہے۔ اللہ رب العزت سب کے لیے آسانی والا معاملہ فرمائے آمین۔

