Iddat Ke Foran Baad Nikah
عدت کے فوراً بعد نکاح
میں جامعہ پنجاب سے دوران ایم فل سپیشل ایجوکیشن 2013 میں ای ایم ای سوسائٹی لاہور ایک 5 سالہ ڈاؤن سنڈروم بچے کی ہوم ٹیوشن لینے جایا کرتا تھا۔ مجھے اسکی پری سکولنگ پر کام کرنا تھا اور سیلف ہیلپ اسکلز سکھانا تھی 6 ماہ کا آئی ای پی Individualized Education plan تھا۔ مجھے جاتے ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ اس بچے کی پھپھو کی شادی آ گئی اور شادی میں تینوں دن شرکت کا دعوت نامہ مل گیا۔
وہ کافی امیر اور حد سے زیادہ اچھے اور سلجھے ہوئے لوگ تھے۔ جو مجھے آج سے دس سال قبل ایک بچے کو گھر آ کر پڑھانے کا ماہانہ 20 ہزار روپے دیتے تھے۔ بچے کو کھانا کھلانا سکھانا بھی میرے گولز میں سے تھا تو ہم سب گھر والوں کے ساتھ ملکر ڈنر کرتے تھے۔ میں گویا اس گھر میں ایک فیملی ممبر ہی شمار ہوتا تھا۔ جو بچے کے ساتھ گھر میں کہیں بھی جا سکتا تھا۔
شادی کی تیاریاں زور شور پر تھیں۔ کہ مجھے اس بچے کی والدہ نے بتایا کہ یہ زین کی پھپھو کی یہ دوسری شادی ہے۔ پہلی شادی چار ماہ پہلے ہی ختم ہوئی جو بس 2 ماہ چلی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میری نند بہت ہی اچھی لڑکی ہے یو کے سے پڑھی ہے۔ رشتہ داروں میں شادی ہوئی اور کچھ اختلافات کی وجہ سے دو ماہ میں ہی علیحدگی ہو گئی۔ اسکے ایک کلاس فیلو نے اپروچ کیا ہم نے فیملی دیکھی اچھے لوگ تھے، تو طلاق کی عدت ختم ہونے کے 15 دن بعد کی تاریخ طے ہو گئی۔
شادی میں لڑکی سمیت سب لوگ بہت خوش تھے۔ لڑکی کو جہیز میں ایک گاڑی ملنا تھی مگر اس نے انہی پیسوں سے 25 لاکھ روپے کی ایک نایاب پینٹنگ خرید لی۔ کہ اسکے سسرال میں پہلے ہی گاڑیاں موجود تھیں۔ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا کہ یہ دوسری شادی ہے اور یہ ایک طلاق شدہ لڑکی ہے۔ شادی ہوئی وہ لڑکی بعد میں بھی میکے آتی جاتی رہی ماشاء اللہ بہت خوش تھی میں نے 6 ماہ کام کیا اور بچے کو فائنلی ایک مین سٹریم سکول داخل کرا دیا گیا۔
میری عمر اس وقت 24 سال تھی۔ اب اس بات کو 10 سال بیت چکے تھے۔ میں تب چیزوں کو اتنی گہرائی میں دیکھنے کا شعور نہیں رکھتا تھا۔ اب طلاق شدہ لڑکیوں کو دیکھتا ہوں تو وہ لڑکی فوراً آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے کہ عدت کے فوراً بعد دوسرا نکاح کرنا اسکا اور اسکی فیملی کا کتنا اچھا فیصلہ تھا۔
جب کہ یہاں ہم مڈل کلاسیوں میں اول تو طلاق ہی ایسے ہوتی کہ مار دھاڑ، لڑائی جھگڑے، تھانہ کچہری، جھوٹے کیس اور نجانے کیا کچھ تماشے ہوتے۔ اور پھر کئی سال سامان جہیز کی واپسی یا بچوں کے نان و نفقہ کے کیس چلتے اور دونوں پارٹیاں عدالتوں کے چکر لگاتے ہی اپنی عزت و وقار اور زندگی کے قیمتی ترین سال برباد کر دیتے۔ طلاق کے بعد لڑکی کے ابتدائی چار پانچ سال سابقہ شوہر یا سسرال کو بددعائیں اور گالی گلوچ کرنا خود ہمدردیاں ترس و رحم سمیٹنا تو ایک رواج بن چکا ہے۔
تب تک لڑکی کی جوانی ڈھل چکی ہوتی۔ دس سے زائد چشم دید کیسز دیکھے ہیں لڑکی کو 25 میں طلاق ہوئی تو دوسری شادی کی طرف والدین 30 کے بعد آئے اور جس کی 30 میں ہوئی 35 سے 40 کے درمیان آ کر دوسری شادی کی طرف جایا جاتا۔ اور ان سالوں میں اس لڑکی کی ذہنی و جسمانی صحت کیسی ہوتی وہ آپ اپنے آس پاس طلاق شدہ لڑکیوں کی دیکھتے ہیں۔ کہیں لڑکیاں خود دوسری شادی پر دوبارہ جلدی نہیں مانتیں اور کہیں والدین تاخیر کر رہے ہوتے تو کہیں اللہ کی طرف سے ہی تاخیر ہو رہی ہوتی۔
نتیجتاً لاکھوں طلاق شدہ لڑکیاں ایسی ہیں جو 35 سے 45 کے درمیان موجود ہیں جو دوسری شادی کرنا چاہتی ہیں مگر کوئی رشتہ نہیں مل رہا۔ اصل میں انکی طرف سے اس کام میں غیر ضروری تاخیر ہی بہت زیادہ ہو چکی ہوتی جسکا انہیں اندازہ تب ہوتا جب وہ طلاق کے کئی سال بعد رشتہ دیکھنا شروع کرتے۔ کہ لڑکی کی اب تو شادی کی عمر گزر چکی ہے۔ ان کو قبول کرتا کوئی دوسری شادی کے لیے اور وہ بھی پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے اسے بتائے بغیر اور جب اسے معلوم ہوتا تو طلاق ہو جاتی۔
ایسے کیسز میں 99 فیصد دوسری بیوی ہی چھوڑی جاتی ہے یا ان کو قبول کرتے وہ لوگ جن کی بیوی بچے چھوڑ کر جا چکی ہوتی، یا فوت ہو چکی ہوتی۔ اب اگر تو انکا اپنا بھی ایک دو بچہ ہو تو وہ بندہ اکثریت کیسز میں یہ نہیں چاہ رہا ہوتا کہ لڑکی بھی اپنے بچے ساتھ لائے۔ اور لڑکی سوچتی کہ بچوں کو کہاں چھوڑوں تو دوسری شادی اور تاخیر کا شکار ہو جاتی۔ اکثریت میں تو بچوں کے نان و نفقہ کے کیس چل رہے ہوتے۔ کسی کا سابقہ شوہر خرچ نہ دینے پر جیل میں ہوتا اور کوئی دے رہا ہوتا اور کوئی باہر کے ملک بھاگ گیا ہوتا بس انہی گھمن گھیریوں میں وہ لڑکی اپنی جوانی اور ذہنی صحت مکمل تباہ کر دیتی۔
میری عمر کوئی بہت زیادہ تو نہیں ہے۔ میں نے ان مسائل کے چند حل سوچے ہیں۔ اگر مناسب لگیں تو قبول کریں یا اپنے تجربے کے مطابق کمنٹس میں ضرور لوگوں کی راہنمائی کریں۔
جب نظر آ رہا ہو نبھاہ نہیں ممکن تو بغیر کسی تماشے کے باہمی رضا مندی سے جدا ہونے کا فیصلہ کر لیں۔ ایک پارٹی تماشا کرنا چاہ رہی ہوتی دوسری اگر پیچھے ہٹ جائے تو تماشا نہیں ہو گا۔ یعنی لڑکا طلاق ہی نہیں دینا چاہتا۔ عدالت سے تنسیخ نکاح کرا لیں۔ سامان جہیز نہیں دے رہے کیس کر کے اٹھوا لیں۔ بچوں کو کوشش کریں کہ والد کے پاس ہی چھوڑیں۔ کوئی بھی اور انکا باپ نہیں بنے گا۔
سپیشل بچوں کی ماؤں سے خصوصی کہوں گا بچوں کو طلاق کی صورت میں ان کے والد کے پاس ہی چھوڑا کریں۔ اور خود فوراً دوسری شادی کی طرف جائیں۔ اس بات کا احساس تب ہوتا ہے جب ذہن سے نفرت و بدلے کے جذبات ختم ہوتے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی۔ لڑکا اگر سمجھتا ہے کہ لڑکی سے نبھاہ نہیں ممکن، اسے اچھی طرح رخصت کرے۔ دونوں فریقین ایک دوسرے کی عزت و کردار کا سرعام تماشا نہ لگائیں نہ ہی بہتان باندھیں کہ یہاں پنجاب میں طلاق کے وقت یہی کرنے کا رواج ہے۔
طلاق کے بعد باقاعدہ دشمنی بنا لی جاتی اور لڑکی کے بھائی یا والدین بدلے کی نفسیات میں آ کر لڑائی جھگڑے اور جھوٹے پرچے دیکر اپنی اور دوسرے خاندان کی عزت مٹی میں ملا دیتے۔ کہ اسکی جرات کیسے ہوئی ہماری بہن کو طلاق دے اس کو سبق سکھائیں گے۔ جب کہ اس سے طلاق واپس کوئی نہیں ہونی ہوتی بس اپنی ہی جگ ہسائی ہوتی ہے مگر تب سمجھتے نہیں ہیں۔ اگر قسمت اچھی طلاق نہیں ہوتی اور صلح ہو جاتی ہے تو بعد میں تعلق تو رہ جاتا ہے دل وہ نہیں رہتے۔ بس زندگی کے باقی دن ایک چھت کے نیچے کاٹنے ہوتے ہیں۔
جو قصہ شروع میں بیان کیا۔ ان لوگوں کو جہیز کے متعلق کہا گیا کہ واپس نہیں کریں گے۔ تنسیخ نکاح بھی عدالت سے ہوا۔ انہوں نے کہا نہ کریں واپس اور سامان جہیز کی واپسی کی انہوں نے کیس بھی نہیں کیا کہ یہ کیس بہت لمبا چلتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم بیٹی کو عدالتوں میں رسوا نہیں کریں گے نہ ہی یہ نئی سالہا سال پر مبنی سر درد پال لیں گے کہ آج پیشی ہے، آج یہ ہوا، آگے یہ ہو گا۔ نیا جہیز بنوا لیں گے۔ جب اسکی شادی ہو گئی تو انہوں نے جہیز خود ہی بھیج دیا۔ جو کسی غریب لڑکی کو تحفہ کر دیا گیا تھا۔
طلاق شدہ لڑکیاں ایسے مردوں سے بالکل بھی شادی نہ کریں جو اپنی بیوی سے چھپا کر شادی کر رہے ہوتے۔ انکی بیوی کو جب ہی پتا لگنا آپکو پھر طلاق مل جانی اور طلاق کے فوراً بعد دوسری شادی کی طرف بڑھیں نہ کہ اپنی جوانی عدالتوں کے فضول چکر کاٹتے ہی گزار دیں۔ اور مرد جنکی طلاق ہو چکی یا بیوی فوت ہو چکی وہ ایک دو بچوں والی طلاق شدہ لڑکی کو بچوں سمیت قبول کریں۔ اس طرح آپکے بچوں کو ماں اور ان بچوں کو والد کی محبت نصیب ہوگی۔
کئی ایسے کیس دیکھے ہیں جہاں ایسے بچے سگے بھائی بہنوں کی طرح رہ رہے تھے۔ وہ اگر طلاق کے فوراً بعد جوانی میں ہی دوسری شادی کی طرف آئیں گی تو دوسرے شوہر سے بھی اولاد ہو گی اور تعلق یقیناً مضبوط ہو گا۔ ایک آخری بات کہ دوسری شادی لڑکی کی ہو یا لڑکے کی اگر دونوں میں سے کسی کے بھی بچے یا ایک بچہ ہے تو کسی ایک میجر چیز پر کمپرومائز کر کے ہی ہوتی ہے۔ وہ جتنی جلدی کر لیا جائے اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔
آج کے لیے بس اتنا ہی۔