Hunar Seekhne Ko Promote Karen
ہنر سیکھنے کو پرموٹ کریں
پاکستان میں اس وقت لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ بے روز گار ہیں یا شدید قسم کی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ کچھ کی تو عمر ایسی ہے اب بہت زیادہ کچھ بدلاؤ کر پانا مشکل ہے مگر وہ دوسری غلطی جو کر رہے ہیں وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو ایک روایتی کالج بھیج رہے ہیں۔ اگر وہ انٹر کے بعد بی ایس کرنے والوں کی بھی مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور ویلیو دیکھ لیں تو شاید اتنا بڑا دھوکہ نہ کھائیں۔ ہاتھ سے کام کرنے کا نجانے ہمارے ہاں کیوں برا سمجھا جاتا ہے۔ یہی سوچ اپنے والدین بہن بھائیوں کو دیکھ کر مجموعی معاشرتی رویوں کو دیکھتے ہوئے ہمارے سپیشل افراد میں بھی آجاتی ہے کہ میں تو جی معذور ہوں مجھے بس آسان سا کام ملے۔
ایک تو یہ ہمارے ڈرامے کا ہر لڑکا آفس جا رہا ہوتا۔ وہ ورکشاپ دکان گیراج میں سالا کیوں نہ جاتا؟ وہ آفس ہی لے کر بیٹھ گیا ہے۔ آفس میں جاکر بے شک چپڑاسی لگ جائیں ٹیبلوں پر ٹاکی پھیرتے رہیں سب کو چائے پانی پلاتے رہیں سارا دن کی بورڈ پر انگلیاں پھیر کر ایک ماہ بعد چالیس پچاس ہزار کما پانا ہی تعلیم کا مقصد بن گیا ہوا ہے۔ سب نے آفس جاتے ہی مینیجر یا باس تو نہیں بن جانا ہوتا؟ مجموعی سوچ کا ایسا بن جانا بلکل مناسب نہیں ہے۔
خدا کے لیے ہنر سیکھنے کو پرموٹ کیجئے اور فری کہیں سے کچھ نہیں سیکھا جاتا جو پیسے کالج یونیورسٹی دینے ہوتے اس سے بہت کم میں اعلی درجے کا شارٹ وقت میں کوئی ہنر سیلھ کر فوراََ اچھی سیلری پر جاب لی جا سکتی ہے۔ سکیل ایک دو کے لیے پاگل لوگوں کو بتا دوں سکیل سولہ تک کی نوکری کرنے والے بندے سے ایک پرائمری پاس کار مکینک یا کار ای ایف آئی الیکٹریشن، سی و ٹو ویلڈنگ مکینک یا خراد مشین کا اپریٹر دو تین سو گنا زیادہ پیسے کما رہا ہوتا ہے۔
جو پلاننگ کے بعد چند ہی سال میں اپنی کوئی ورکشاپ یا گیراج بنا سکتا ہے۔ اپنے کام کا مالک خود بن سکتا ہے۔ اسے ایک جاب سے نکالا جائے تو اسکا ہنر اسے اگلے ہی دن اس سے اچھی جاب دلوا سکتا ہے۔ مگر ایک سرکاری نوکر کو ایک Explanation لیٹر مل جائے تو اسے دندن پڑ جاتی ہے کہ اب کیا ہوگا۔ یعنی اسکل تو پاس ہوتی کوئی نہیں کہ یہ جاب گئی تو اب اور کہاں جاوں گا؟ ملازمت پیشہ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو بھی کہوں گا کہ اپنے بچوں کو اسی چکی میں ہی پیسنے کے لیے تیار نہ کریں جس میں آپ خود پس رہے ہیں۔ ان کو کوئی بھی ہنر یا ایسا کام شروع کرنے کی ٹریننگ دیجئے جو بعد میں بڑھ سکے۔ امتیاز مال پاکستان کے مالک نے ایک کریانے کی دکان سے سفر شروع کیا تھا۔ اب ہر کریانے والا یا سمال جنرل سٹور والا ایسا بڑا سیٹ آپ نہیں بنا سکتا۔ مگر کوئی ارادہ کرلے تو یہ ایسی بھی بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔
گلف میں موجود لولو، دانوب اور آئیکیا کے مالکوں کی کہانی بھی امتیاز مال کے مالک سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ بس ہمیں اپنے بچوں کی ٹریننگ ایسے کرنی ہے کہ وہ ہر روز آگے بڑھیں کچھ نیا سیکھیں۔ کسٹمر سروس کو بہتر کریں اپنا حلیہ بہتر رکھیں اور کتابیں پڑھیں۔ بڑے سیٹ آپ کو سٹڈی کریں یا ان کو جائن کرکے ان کے سسٹم سے آگاہی لیں۔ گلف میں ہزاروں ایسے گاڑیوں کے گیراج ہیں جن کے مالک ایک مکینک نہیں بلکہ ہیلپر کے ویزے پر گلف آئے تھے آج کروڑوں کے بزنس رن کر رہے ہیں۔
اور نان برینڈڈ اچھے پرائیوٹ سکولز کو دنیا بھر میں دیکھیں۔ انکے مالک اس سے پہلے ایک پرائیویٹ سکول کے ٹیچر ہی تو ہوا کرتے تھے۔ بڑے بڑے ہسپتال دیکھ لیں انکے مالک کسی اور کلینک یا ہسپتال میں جاب کیا کرتے تھے۔ مگر یہ لوگ محنت اور اپنی قابلیت کو مسلسل بڑھاتے ہی رہے۔ اسی پچھلے جملے کو ایک بار پھر پڑھیں پلیز اور انہوں نے وہ سب پا لیا جو حالات کا رونا رونے والا، شکوے شکائتوں کی نفسیات میں جینے والا، حکومت اور اپنے برے رشتہ داروں، منافق دوستوں، حاسدوں دشمنوں کو برا بھلا کہنے والا بس ساری عمر سوچتا ہی رہتا ہے۔