Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Hum Ne Halaat Badalne Ke Liye Kuch Nahi Kya

Hum Ne Halaat Badalne Ke Liye Kuch Nahi Kya

ہم نے حالات بدلنے کے لئے کچھ نہیں کیا

ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب بنو نضیر اور بنو قریضہ یہودی قبائل کو یثرب شہر موجودہ مدینہ سعودی عرب سے جلا وطن کیا گیا۔ ایسا اس کائنات کے عظیم ترین انسان حضرت محمد ﷺ کے حکم پر تب ہوا تھا جب یہود قبائل نے نہ صرف پیٹھ پیچھے بلکہ منافقین کے ساتھ مل کر کھلے عام اسلام دشمنی اور اپنے اندر کا کوڑھ و بغض نکال کر مسلمانوں کو دن رات نقصان پہنچانے لگے تھے۔ کفار مکہ کے دوست بن گئے تھے۔ آخری نبی ﷺ کی جان کے دشمن بن گئے تھے۔

اس وقت ان کے پاس اس وقت کے سب سے قیمتی کاروبار تھے اور وہ مالی اعتبار سے کافی مضبوط تھے۔ انکے پاس باغات تھے، قیمتی چھوہارے کی درآمد اور برامد انکے پاس تھی، ماہی گیری اور مرغ بانی کے ساتھ ہتھیار بنانے کو وہ لوگ ایک صنعت کی شکل دے رہے تھے۔ یہ اس وقت بھی عہد شکن تھے، اسلام دشمن تھے، منافق تھے مگر غزوہ احد کے بعد ڈنکے کی چوٹ پر اسلام دشمنی پر اتر آئے۔ انہوں نے مدینہ سے چند کلومیٹر دور اپنے لیے اونچے اور محفوظ قلعے بنائے، زیر زمین چھپنے کے لیے گڑھے کھودے۔ کہ ممکنہ جنگ کی صورت میں دفاع کر سکیں۔

ان میں سے کچھ یہودی گھرانے شام اور سرکردہ افراد جیسا کہ ابو الحقیق اور حی بن اخطب خیبر جاکر رہائش پذیر ہوئے اور کچھ اور جگہوں پر چلے گیے۔ جہاں بھی کاروبار کرتے رہے، آپسی رابطے میں رہے، سودی نظام کو جہاں ان کا بس چلتا نافذ کرتے رہے اور اپنے اندر کی آگ اور وہ غصہ کبھی ان لوگوں نے ٹھنڈا نہ ہونے دیا جو ان کو یثرب سے نکالا گیا تھا۔

اسکے بعد ان کا پلان بنا ایک ملک کا حصول۔ جہاں رہ کر یہ اپنی فوج بنا سکیں، خود کو ناقابل تسخیر بنا سکیں۔ عالمی مالیاتی اداروں پر اپنا تسلط قائم کر سکیں۔ اپنی تعداد اور نسل بڑھا سکیں۔ اپنی زمین بڑھا سکیں اور پھر وہیں جا سکیں جہاں سے انکے آباؤ اجداد کو ذلیل و رسوا ہو کر نکلنا پڑا تھا۔

میں نہیں جانتا وہ وقت کب آئے گا۔ ابراہیمی معاہدہ پتا نہیں آپ جانتے ہیں کہ نہیں؟ اسی واپسی کی ایک سیڑھی یا بنیاد محسوس ہوتا ہے۔ بہرحال وہ معاہدہ ایک آغاز ہے۔ چودہ مئی 1948 کو مسلم ممالک کے سینے کے گھونپا گیا ایک زہریلا خنجر اب اپنا کام دکھانا شروع کر چکا ہے۔ بظاہر ایک کروڑ آبادی کی حامل ایک ناجائز ریاست کیسے سر عام دہشت گردی کر رہی اور مسلمانوں کے خون کے پیاسی ہوچکی ہے۔ دنیا کا کوئی اسلامی یا غیر مسلم ملک اسے روکنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ غزہ و فلسطین میں ناقابل بیان ظلم و ستم کی داستان رقم کرکے وہ لوگ اب واحد اسلامی ملک ایران کو سبق سکھا رہے ہیں۔ کہ تم فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کا نام بھی لیتے ہو اور وہاں متحرک گروپس کی اعانت بھی کرتے ہو۔

اس گذشتہ ساڑھے چودہ سو سال کی مسلم تاریخ میں مسلمانوں کی کاروبار اور مالی طاقت ہم سب کے سامنے ہے۔ جب طاقت ملی تو عیاشیوں میں پڑ گئے، حکومت ملی تو اپنی عوام کا خون چوس کر اسی ناجائز ریاست اور اسکے حواریوں کے بنکوں میں قومی سرمائے منتقل کرنا شروع کر دیے۔ اپنے یہود و نصاری آقاؤں کی خوشنودی و غلامی میں اپنی شناخت، اپنا وقار اپنا اسلامی تشخص تک کھو دیا۔ نسل در نسل غلام اسلامی ممالک میں ہمارے لیڈر بادشاہ اور حاکم بننے لگے۔ انکو کرسی تک پہنچانے والے وہی انکے آقا تھے اور آج بھی وہ ہی ہیں۔ ایک عام انسان اپنا کچن چلانے کی فکر سے ہی آزادی نہ حاصل کر پایا۔ وہ ایک ہزار سال مجموعی طور پر خود کو اس قابل بنانے کا وقت تھا جو ہم نے گنوا دیا۔ جنہوں نے اس وقت کی قدر کی اور پلاننگ کرکے ون ورلڈ آرڈر کو نافذ کرنا چاہا وہ اپنے منصوبے کامیابی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ جو ان کو ملا وہ کوئی خیرات نہیں ہے اس کو انہوں نے دس صدیاں لگا کر حاصل کیا ہے۔

ہمیں جو ذلت، بے بسی، غلامی، پچھتاوے اور اپنے اوپر مسلط غلام حکمران نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہم اسی کے حقدار تھے کہ ہم نے یا ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے حالات بدلنے خود کو طاقتور بنانے کے لیے کبھی کچھ نہیں کیا۔ غربت مفلسی کو انبیا و تمام امتوں کے صحابہ سے جوڑ کر ایسا پیش کیا گیا کہ لوگ غربت میں رہتے ہوئے خود کو نبیوں اور صحابہ کے ساتھی سمجھنے لگے اور دولت کا حصول ان کے لیے گناہ بن گیا اور مخالف گروہ کے پاس حضرت داؤد اور سلیمان علیہم السلام کی مثالیں تھیں۔ انہوں نے دنیا پر حکومت کو اپنا مشن بنایا اور اسکے حصول کے پیچھے لگ گئے۔ آج ہمیں قصوروار صرف اسلامی ممالک کے حکمران نظر آتے ہیں۔ ہم نے خود یا ہمارے آباؤاجداد کے کیا ایسا کیا جو ہم ان مسلط حکمرانوں کے تسلط کو ختم کر پاتے یا اتنے بے بس تو نہ ہوتے جتنے آج ہیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam