Hori Nu Hori Di, Te Annhay Nu Dangori Di
ہوری نوں ہوری دی، تے انھے نوں ڈنگوری دی

اس عید پر اپنی قربانی میں سے اپنے گلی محلے میں موجود یاد سے سپیشل بچوں والے گھر بھی گوشت بھیجیے گا۔ ان بچوں کی نگہداشت اور علاج پر اتنے اخراجات آتے ہیں کہ بے شمار والدین قربانی کا فریضہ استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے انجام نہیں دے پاتے اور بے شمار سپیشل بچے سارا سال مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی غذائی قلت کا شکار بھی رہتے ہیں۔
عید الالضحی کے بغیر اپنے بچوں کو مٹن بیف کھلانا ان والدین کے لیے کسی طور بھی ممکن نہیں رہا۔ خط غربت سے نیچے کروڑوں لوگوں کے گھروں میں گوشت نہ پکنے کی وجہ سے پچھلی تین چار دہائیوں میں ہمارے ملک میں مجموعی اوسط قد میں بھی کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ جتنے کمانے والے یا صاحب نصاب افراد ہیں وہ سب اپنی اپنی الگ قربانی کریں۔ یہ جہالت کہیے یا کنجوسی اور بخل کہ چار کمانے والے صاحب نصاب ہیں ایک قربانی کر رہے وہ بھی ابا جی کے نام کی جو کماتے نہیں ہیں شاید صاحب نصاب بھی نہ ہوں اور قربانی ان پر واجب بھی نہیں ہو۔
یا لوگ اپنی قربانی کرنے کی بجائے مرحوم والدین کے نام پر قربانی کر رہے ہوتے۔ بھائی آپ کمانے والے یا صاحب نصاب ہیں تو سب سے پہلی آپ کی قربانی ہوگی اسکے بعد کوئی اور۔ استطاعت ہے تو اپنے والدین بیوی اور نہ کمانے والے بہن بھائیوں کے نام کی بھی قربانی کریں اور گوشت زیادہ سے زیادہ تقسیم کریں۔
قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان، مرد اور عورت پر واجب ہے جو عید الاضحٰی کے ایام میں نصاب کا مالک ہے، (یعنی ساڑھے سات تولہ سونا (87.4875گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (612.4125گرام) یا اس کی قیمت کے برابر رقم اس کی ملکیت میں موجود ہو)، یا اس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد اتنا سامان ہے، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، یا رہائش کے مکان سے زائد مکان یا جائیداد وغیرہ ہو، یا استعمال سے زائد گھریلو سامان ہو، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا مالِ تجارت، شیئرز وغیرہ ہوں، تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہے۔ (سامان خواہ کوئی بھی چیز ہو، تجارتی ہو یا تجارت کے علاوہ، اگر وہ استعمال میں نہ ہو تو اسے بھی نصاب میں شامل کیا جائے گا، لہٰذا اگر مذکورہ سب چیزیں ملاکر یا بعض ملاکر مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس کے مالک پر بھی قربانی واجب ہوگی۔)
نیز قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم، یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں، ذوالحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مالک ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہے، چنانچہ اگر قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن (12ذی الحجہ) کو بھی کسی صورت سے نصاب کے برابر مال یا ضرورت واستعمال سے زائد سامان کا مالک ہوجائے تب بھی اس پر قربانی واجب ہے۔ ہاں عید الاضحٰی کے دنوں تک جو قرض یا اخراجات واجب الادا ہیں، اتنی مقدار منہا کرکے نصاب کا حساب کیا جائے گا۔
بنا بریں جس کے پاس رہائشی مکان کے علاوہ زائد مکانات موجود ہیں، ضروری مکان کے لیے پلاٹ کے علاوہ دیگر پلاٹ ہیں، ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں، خواہ یہ سب تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو، بہر حال ایسا شخص قربانی کے حق میں صاحبِ نصاب ہے اور اس پر قربانی کرنا شرعاً واجب ہے۔
نیزواضح رہے کہ ایسا شخص گھر میں ایک ہو یا ایک سے زائد، درج بالا شرائط کی موجودگی کی وجہ سے اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب لوگ پائے جاتے ہوں تو سب پر علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے اور ایسی صورت میں از روئے شرع ایک ہی قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی۔

