Hamare Rawaiye
ہمارے رویئے
اپنے ہی شہر میں آج دوپہر میرے آگے سڑک پر ایک دوشیزہ پیدل جا رہی تھی۔ خواتین کا ایک بائی ڈیفالٹ مسئلہ ہے روڑ پر جس طرف کو چاہیں مڑ جانا ہے یا پیچھے آتی گاڑی بائیک کو خود پیدل چلتے راستہ نہیں دینا۔ میں نے بڑا صبر کرکے ہارن کا بٹن نہ دبایا کہ ابھی پیچھے ہٹ جاتی ہے سڑک کے درمیان چلنے کی بھی یہ کوئی جگہ ہے۔ میرے پیچھے والے مجھے پاں پاں کر رہے تھے۔ میں نے پھر ہارن بجا ہی دیا۔ اس نقاب پوش نے ایک سرسری سی نظر پیچھے دوڑائی کہ میرے پیچھے تو ایک زمانہ لائن میں لگا ہوا ہے۔ پھر بھی سائیڈ پر ہونے کی بجائے وہیں چلتی رہی۔ اب میں نے تھوڑا غصے سے ہارن دیا کہ ہے بیوقوف سائیڈ پر کیوں نہیں ہو رہی۔ اس نے مجھے نظر بھر کے دیکھا اور اللہ جانے چادر کا نقاب خود گرا یا اس نے گرایا اور مجھے ہاتھ سے اشارہ کیا اب گزر جاؤ۔
اب آگے کون جائے؟ پکی تاپسی پنوں کی کوئی رشتہ دار ہوگی حسین دلربا الٹرا پرو میکس 2TB. ایسی جان لیوا ادا اور خوبصورتی کہ بندہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جائے۔ جیسے نقاب ہی چیلنج کرنے کے لیے ہٹایا ہو لو اب کراس کرکے دکھاؤ۔ بس پھر کیا تھا آپ کا بھائی کیسے آگے جا سکتا تھا؟ ایسے لگا جیسے اس پھول کو کراس کرکے اسکی توہین کی تو گناہ ہوگا۔ میں نے اشارہ کیا آپ جائیں۔ اس نے اشارہ کیا آپ جائیں۔ میں نے کہا نہیں آپ اور وہ ہنس کر چل پڑی۔ میں نے چلنا کیا تھا وہیں بریک لگا لی۔ اب میرے پیچھے والے ہارن میں مجھے جو گالی دے سکتے تھے وہ دے رہے تھے۔ میں نے کہا آج یہاں چوہدری عاصم منیر بھی اپنے لاؤ لشکر لے تو مجھے نہیں ہٹا سکتا تم لوگ تو شے ہی کوئی نہیں ہو۔ جب وہ کافی آگے چلی گئی تو آپ کے بھائی نے گاڑی ٹوری اور اس نے بھی اپنی گلی میں مڑتے ہوئے پیچھے دیکھا اور آنکھوں کے اشارے سے الوداع کیا۔
میرے پاس گاڑی میں واٹر ڈسپنسر پڑا تھا۔ جسے وارنٹی کلیم سنٹر دینا تھا۔ اس دکان کے آگے رش تھا تو گاڑی کی پارکنگ کافی آگے جا کر ملی۔ میں واپس دکان پر آیا کہ کوئی ورکر ساتھ لے جاؤں جو ڈسپنسر اٹھا لے۔ اسے جب کافی دور اتنی گرمی میں میرے ساتھ جانا اور اتنی شدید گرمی میں ڈسپنسر اٹھا کر واپس آنا پڑا تو اسے کچھ اچھا نہ لگا۔ بڑی ناگواری سے بولا سر آپ نے گاڑی اتنی دور کیوں پارک کی؟ میں نے کہا یہاں رش تو پارلنگ تلاش کرتے کافی آگے چلا گیا۔
پھر بولا آپ کیا کام کرتے ہیں۔ میں نے کہا میں ٹیچر ہوں۔ بولا کہا؟ میں نے کہا سپیشل ایجوکیشن سکول میں۔ اسکے چہرے کا رنگ ایک دم بدلا اور بولا میری تو بیٹی وہاں پڑھتی ہے۔ میں نے کہا اسکا نام کیا ہے؟ اسنے بتایا مناہل۔ میں نے کہا وہ میری ہی کلاس میں پڑھتی ہے۔ میں اسکا استاد ہوں۔ اس نے کہا آپ یہاں بیٹھیں اور مجھے بتائے بنا جا کر ٹھنڈی ڈیو لے آیا۔
جب میں واپس گاڑی کی طرف آیا تو جس دکان کے آگے گاڑی کھڑی تھی وہ بندہ بڑا سیخ پا ہو رہا تھا کہ کون یہاں گاڑی پارک کر گیا۔ میں نے جیسے ہی گاڑی کا دروازہ پکڑا تو وہی بندہ بھاگا ہوا آیا اور بولا آپ خطیب بھائی ہیں؟ آپ آج ایسے نہیں جا سکتے۔ زبردستی مجھے بٹھا کر قلفہ کھلایا اور بولا میں برا فیل کر رہا ہوں کہ آپ کی گاڑی کا مجھے معلوم ہوتا تو میں اتنی شدت سے اسکے ڈرائیور کا انتظار نہیں کرتا۔
وہاں سے نکلا تو میرے آگے ایک رکشہ ڈرائیور تھا جو راستہ ہی نہیں دے رہا تھا۔ کافی ہارن دیے۔ مگر بے سود۔ کافی آگے جا کر اسے کراس کیا اور شیشے سے دیکھا تو میرا ہی ایک سابقہ سٹوڈنٹ تھا۔ ڈیف تھا ہارن تو وہ سن ہی نہیں سکتا تھا۔ اسکے آگے گاڑی لگا کر اسے روکا۔ اتر کر گلے ملا اسے بھی بہت خوشی ہوئی کہ ہم کئی سال بعد ملے تھے۔
اس واقعے کے سارے کردار اور ہم سب کیا انجان لوگوں کے بھی اتنے ہی اچھےاور Respectful ہو سکتے ہیں جتنا ہم اپنے جاننے والوں کے لیے ہوتے ہیں؟ رکشے والا میرا سٹوڈنٹ نہ ہوتا تو سچی بات ہے اسے کوئی کڑوی کسیلی سنانے کے لیے میں گاڑی کا شیشہ نیچے کرنے ہی والا تھا۔ اسے دیکھتے ہیں میرا غصہ محبت اور عزت میں بدل گیا۔
جس کی دکان کے سامنے میری گاڑی کھڑی تھی۔ وہ بھائی تو کسی کو اپنی دکان کے سامنے ایک منٹ بائیک بھی کھڑی نہیں کرنے دیتا ہوگا کہ وہاں وہی رکے جو ان کا گاہک ہے۔ میں تو ان کا گاہک بھی نہیں تھا بس وہ بندہ مجھے جانتا تھا اور سب سے پہلے کیس میں اس لڑکی کی جگہ کوئی عمر رسیدہ عورت ہوتی تو میرا یہ رویہ ہوتا؟ اس کہانی میں ہم سب بلکل انجان ہوتے تو کیا ایسے ہی ایک دوسرے سے پیش آتے؟
یار بہت کچھ ہے ہمارے سیکھنے کے لائق ابھی۔