Europe Jaane Ka Bhoot
یورپ جانے کا بھوت
پچھلے دو سالوں میں میرے اپنے دو چھوٹے بھائی یورپ گئے ہیں۔ ایک تایا زاد اور دوسرا پھپھو زاد۔ ایک تایا زاد بڑا بھائی ہمایوں شہزاد چدھڑ رومانیہ اچھی کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے تو اس نے ہی انکے ویزے کی ترتیب کی اور دونوں براستہ جہاز رومانیہ چلے گئے۔ دونوں لڑکے ماشااللہ جوان اور پڑھے لکھے۔ رومانیہ پہنچ کر ان کو یہ تھا کہ اب ہمیں آگے بھیجیں۔ دونوں کو اٹلی انٹر کروا دیا۔ ایک اٹلی کے کیمپ میں بیٹھ گیا۔ چند ماہ بعد سنجور ملی اور انگوروں کے باغ میں سپرے وغیرہ کرنے کی جاب چھ سو یورو ماہانہ پر مل گئی۔ بہت ٹرائی کی مگر اسکے سوا کوئی ملازمت نہ مل سکی۔
دوسرے نے کہا کہ مجھے اسپین بھیجیں اور اسے پہلے فرانس پھر سپین بھیج دیا۔ وہاں پہلے پینٹ والوں کے ساتھ جاتا رہا، پھر ایک پیزا شاپ کے کچن میں اور اب وہ سائیکل لے کر شاید ڈیلیوری کا کام شروع کر دے۔
لگ بھگ ڈیڑھ روپے ان دو لڑکوں پر لگ چکے ہیں اور ریٹرن کیا ہوا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ جو کماتے ہیں وہاں مہنگائی ہی بہت زیادہ اور اپنا ہی خرچ پورا کر پاتے۔
دونوں بتاتے ہیں کہ بھائی جان یہاں ایم ایس اور ایم فل کیے ہوئے لوگ ہمارے ساتھ فلیٹس میں ڈیلیوری اور ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کرکے آن ایورج ایک ہزار یورو کما رہے ہیں۔ نا تو کسی ایمرجنسی میں واپس آسکتے ہیں کہ غیر قانونی داخلے پر پیپرز ملتے کئی سال لگ جاتے ہیں۔
یہ تو بات تھی ہمارے اپنے گھر کی۔ دونوں کو یورپ جانے کا بڑا شوق تھا۔ مگر یہ بھی ایک عاشقی ہے کیے بغیر سکون نہیں ملتا۔ اب کہہ رہے ہیں کہ آپ ٹھیک منع کرتے تھے ان پیسوں سے گلف میں اچھا بزنس سٹارٹ آپ پلان ہو سکتا تھا۔ اپنے کام کے مالک ہوتے اور وہاں اس سے آدھی بھی محنت کرتے اور جب چائے والدین سے جاکر مل لیتے۔
دوسرا طبقہ اسٹڈی ویزہ پر ایک کروڑ کے لگ بھگ خرچ کرکے یورپ جانے والا ہے۔ انکے کیا حالات ہیں؟ مگر پیچھے سے جانے والوں نے ایجنٹوں کے ماشا اللہ وارے نیارے کر رکھے ہیں۔
تیسرا طبقہ ڈنکی میں اپنی جان گنوانے والا ہے۔ آج شام ایک خبر ملی کہ تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ڈنکی لگاتے ہوئے کہیں ڈوب کے مر گیا۔ چار ایکڑ زمین تھی۔ ڈیڑھ دو کروڑ مالیت کی۔ دو ایکڑ بیچ کر گیا اور جان سے بھی گیا۔
عمان اور سعودیہ میں یا ساؤتھ افریقہ کی کچھ جگہوں پر کروڑ دو کروڑ کی انویسٹمنٹ سے نہ بہت بڑا نہ چھوٹا مگر مناسب سا بزنس سیٹ آپ بنایا جا سکتا ہے۔ پہلے خود وزٹ کریں مارکیٹ دیکھیں، تھوڑا وقت وہاں گزاریں، اور پھر اپنی اسکلز اور تجربے کی بنیاد پر بسم اللہ کرکے کوئی سمال بزنس سیٹ آپ کر لیں وہاں۔ تھوڑا وقت لگے گا آپ ان شا اللہ کامیاب ہو جائیں گے۔ جوانی ہی تو محنت کرنے اور راتیں جاگ کر کام کرنے کی عمر ہوتی ہے اور یہ عمر ہماری جاب کرتے یا خوار ہوتے گزر جاتی اور جب سمجھ آتی کہ کرنا کیا ہے اور زندگی میں اہم کیا ہے۔ تب تک نہ پاس پیسے ہوتے اور نہ ہی کوئی بڑا فیصلہ کرنے کی ہمت بچی ہوتی ہے۔ کئی لوگوں نے تو پچاس ساٹھ لاکھ میں بھی گلف میں اچھے کام شروع کیے ہیں ایک دو دوستوں نے مل کر۔ یہ وہ تھے جن کا پہلے یہاں وقت گزرا تھا اور مارکیٹ کو سمجھ گئے تھے۔