CP Bachon Ka Mustaqbil
سی پی بچوں کا مستقبل
![](https://dailyurducolumns.com/Images/Authors/khateeb-ahmad.jpg)
ایک سپیشل بچہ ہمارے پاس پڑھتا تھا۔ بلکہ پانچ سال میری ہی کلاس میں رہا۔ پانچ سال پڑھنے کے بعد اس قابل ہوگیا کہ چھٹی کلاس میں اسکے گاؤں میں ہی جنرل ایجوکیشن سکول میں شفٹ کیا جا سکے۔ جہاں اسکے دیگر بہن بھائی پڑھتے تھے۔ چند دن پہلے وہ بچہ سکول آیا کہ مجھے یونیفارم دیں۔ میں نے کہا کہ یہاں تو ان بچوں کو یونیفارم ملے گا جو یہاں زیر تعلیم ہیں۔ آپ کو پانچ سال تک ملتا رہا اب آپ یہاں نہیں پڑھتے تو خود خرید لیں۔ اس نے بتایا کہ سر امی، ابو کہتے ہیں وہاں سے ہی یونیفارم اور شوز لے آؤ۔
میں نے اسکے گھر کال کی اور ان سے پوچھا کہ آپکے باقی بچوں کو یونیفارم کہاں سے ملتے ہیں۔ بولے بازار سے لیتے ہیں۔ میں نے کہا تو اس بچے کو بھی لیکر دیں اب جب تک یہ پڑھے گا کیا اسے ہم یا کوئی اور ہی سب کچھ لیکر دے گا؟ یہ آپ کی اولاد ہے پلیز اس کی اب ذمہ داری لیں۔ یہ سوچ ختم کریں کہ یہ معذور ہے تو اسے سب کچھ فری ہی ملنا چاہیے۔ اب اسے اس قابل کر دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھے۔ اب آپ امداد اور مراعات کی نفسیات سے نکلیں اور بچے کو خوداری کی زندگی کا راستہ دکھائیں نہ کہ وہ اپنے لیے معمولی چیزیں ہمیشہ اس لیے مانگتا رہے کہ وہ معذور ہے۔
تین سی پی بچوں کو پچھلے سال سائیکل گفٹ کی۔ ایک بچے نے کل کہا کہ میری سائیکل کا ٹائر پھٹ گیا ہے ابو کہہ رہے تھے کہ سر سے کہنا ٹائر ٹیوب کے پیسے دیں۔ میں نے ان کو کال کی اور انہیں کہا کہ یہ ایک تحفہ تھا۔ اب اس سائیکل کی مرمت بھی ہمارے ذمہ تو نہیں ہے۔ آپ نے اپنے باقی دو بچوں کو الگ الگ بائیک لیکر دی ہوئی ہے۔ ان کو تیل کے پیسے بھی دیتے ہیں۔ تو اس بچے کو ایک ٹائر ٹیوب پانچ سو کا کیوں نہیں ڈلوا کر دے رہے؟ بولے ہم تو سمجھے تھے یہ سائیکل گورنمنٹ نے دی ہے۔ اور اسکی مرمت بھی سکول ہی کرائے گا۔
والدین کو اپنے ہی سپیشل بچے کی کلاس تک کا علم نہیں ہوتا۔ وہ جب بھی سکول آئیں یا فون کریں تو ایک ہی بات کریں گے وظیفہ نہیں ملا۔ 800 روپے ماہانہ وظیفہ ہے کوئی بڑی رقم بھی نہیں ہے۔ ایسی ہی اور سینکڑوں مثالیں ہیں جو ہم ان بچوں سے وابستہ لوگ روز دیکھتے۔ ایسے والدین کا اپنی اولاد کے ساتھ ایسا رویہ دیکھ کر دلی افسوس ہوتا ہے۔ کہ ایسی سوچ کے ساتھ والدین اپنے سپیشل بچوں کو کیسا مستقبل دیں گے کہ اپنے باقی بچوں پر سب کچھ خرچ کرنا ہے مگر سپیشل بچے کے لیے حکومت یا مخیر حضرات کی طرف دیکھنا کہ کوئی وہیل چیئر لے دے یا تعلیمی اخراجات کوئی اور ہی برداشت کر لے۔
اس کے برعکس بہت سے والدین دوسری انتہاء پر بھی دیکھے ہیں کہ دیگر بچوں کو اگنور کرکے سپیشل بچے کے علاج پر ہی سب کچھ لٹا دیتے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جب ان کو بتایا جاتا کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے وہ مانتے نہیں ہیں اور جب ان کو یہ بات سمجھ آتی تب سب کچھ ضائع ہو چکا ہوتا اور باقی بچوں کے وسائل پر اس بچے کو ٹھیک کرنے پر ضائع کیے جا چکے ہوتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین کی مسلسل ذہن سازی کی جائے کہ اس بچے کے ساتھ کرنا کیا ہے۔ اسکا فیوچر کیا ہے اور علاج و تعلیم میں کیا آپشنز موجود ہیں۔ حقیقت پسندی سے کام لیا جائے اور بچے کی خوبیوں اور خامیوں دونوں کو قبول کیا جائے۔ والدین کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے آپ نے اپنی سوچ کیسی رکھنی ہے۔ اس چیز کے ساتھ ہم اپنی آنے والی سپیشل بچوں کی نسل کو موجود سے بہت بہتر مستقبل اور زندگی دے سکتے ہیں۔