Chachu Pankha Chala Do
چاچو پنکھا چلا دو
اسی سال مئی کے اختتام پر واپڈا میں میٹر ریڈر ایک دوست نے رابطہ کیا اور کہا کہ انکے گاؤں میں انکے ہی ہمسائے میں ایک سپیشل بچہ ہے۔ آپ آ سکیں اسے دیکھیں تو اس کے لیے شاید آسانی کی کوئی راہ نکل سکے۔ چند دن بعد میں اور میرا دوست انکے گھر گئے۔ دوپہر دو بجے کا وقت تھا۔ بچہ کھلے صحن میں دیوار کے سائے میں چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ ہاتھوں پاؤں اور سارے چہرے پر مکھیاں بیٹھی تھیں۔ اسکی معذوری ایسی تھی کہ پورے جسم میں اسکا کنٹرول اب آنکھوں کو جھپک لینے اور زبان کو ہلا لینے پر ہی تھا۔ وہ بچہ چلتا تھا بھاگتا تھا کھیلتا تھا۔ دن بدن کمزور ہوا اور چارپائی پر آگیا۔ ایک جینیاتی مرض ڈوشین مسکولر ڈسٹرافی نے اسکے جسم کے تمام پٹھوں کو بے جان کر دیا تھا۔ وہ بچہ اپنی انگلی کو بھی ہلکی سی جنبش مشکل سے دے پاتا تھا۔
میں نے اس بچے کے پاس بیٹھ کر اس سے بات کی۔ بلکل نحیف آواز میں بات کر رہا تھا۔ میں نے کہا بتاؤ بیٹا تمہیں کیا چاہئے۔ اس نے کہا کچھ بھی نہیں میں بس دلیا کھاتا ہوں اور پھر بڑی امید بھری آواز میں کہا کہ چاچو پنکھا چلا دیں۔ گویا اسکے لیے پنکھا چلنا اور اسکے جسم سے مکھیوں کا اڑ جانا ہی دنیا و مافیہا کا اسے مل جانا ہو۔ کہ کسی کی اتنی چھوٹی سی بھی خواہش ہو سکتی ہے؟ میں جو اب تک اسکے پاس بیٹھا آنکھوں کے کناروں پر چھلکتا پانی روک کر اسکی ہسٹری اس سے ہی لے رہا تھا۔ ایک دم ہی پھوٹ کر رونے لگا۔ میں اپنے بیٹے کی وفات پر ایسے نہیں رویا تھا جیسے اس بچے کے اس جملے اور بے بسی نے مجھے رلا دیا۔ میری سسکی بندھ گئی۔ ناک اور آنکھوں سے پانی تھا کہ بہا ہی جا رہا تھا۔ میرا دل پتا نہیں کیسا ہے۔ کسی کو کیا دلاسا دینا میں خود ہی رونے لگ جاتا ہوں۔ ایک بار بانجھے کا سر پھٹ گیا۔ اسے اٹھایا ہسپتال گیا۔ اسکے سر میں ٹانکے لگے اور میں یہ دیکھ کر وہیں دھڑام سے گرا اور بے ہوش ہوگیا۔ ڈاکٹر اسے چھوڑ کر میرے اوپر اکٹھے ہوگئے۔
خیر اسکی امی باہر گئی ہوئی تھی جب آئیں میرے دوست نے کہا کہ چچی پنکھا تو نکال کر لگا دیں۔ کم از کم مکھیاں تو اس کے منہ پر نہ بیٹھیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے ماہ پنکھا دن رات چلتا رہا ہے تو گیارہ ہزار بل آیا ہے۔ ہماری اتنی آمدن نہیں ہے کہ ہر وقت پنکھا چلا سکیں۔ میں نے کہا اسکے ابو کیا کرتے ہیں؟ بولیں اس بیٹے کا ہی دکھ دل پر لے گئے اور تین سال پہلے اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ چند سال بعد یہ بچہ فوت ہوجائے گا۔ باپ بیٹے سے پہلے ہی چل بسا کہ یہ دکھ نہ دیکھ سکوں۔ اس بچے سے بڑا ایک اور بھائی تھا اور اسکی بھی ٹانگیں کمزور ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ اسکے جینز میں مسکولر ڈسٹرانی کی ایک اور قسم تھی۔ وہ بچہ ایک الیکٹریشن کے پاس شاگرد تھا اور وہاں سے اسے دن کا سو دو سو مل جاتا تھا بس۔
بچے کی ماں ایک پرائیویٹ سکول میں آیا تھیں اور وہاں کنٹین چلاتی تھیں۔ کل ملا کر ماہانہ آمدن پندرہ بیس ہزار تھی۔ گیارہ ہزار بل ادا کرکے پیچھے کیا بچا؟ خیر اس بچے کا علاج ممکن نہیں تھا۔ ہم لوگ واپس آگئے۔ میرے دوست نے کہا کہ اس بچے کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں۔ میں نے کہا اس بچے کا پنکھا چلا دو یار۔ بولا وہ کیسے؟ میں نے کہا سولر پلیٹ بیٹری، چارجر اور سولر فین کا خرچ معلوم کرو۔ واپڈا کے بغیر چوبیس گھنٹے پنکھا چلتا رہے گا۔ بازار گئے تو یہ سب کچھ اٹھاسی ہزار کا بنا۔ پیسوں کا فورا بندوبست ہوگیا۔ میرے دوست نے تیس ہزار خود ڈالا اور پچاس ہزار بھی اس نے ہی چند منٹ میں کہیں سے ارینج کر لیا۔
میں دوبارہ نہیں گیا۔ مگر میرے دوست نے اسی وقت جاکر پنکھا چلا دیا جو آج تک چوبیس گھنٹے بغیر رکے چل رہا ہے۔ شاید کچھ دیر دوسرا واپڈا والا پنکھا بھی چلا لیتے ہوں۔ سولر پلیٹ سے ہی بیٹری چارج ہو جاتی ہے۔
یہ ایک کہانی ہے۔ ایسی نجانے کتنی کہانیاں ہیں۔ کتنی فون کالز ہیں۔ جو لکھنے لگوں تو لکھتا ہی رہوں۔ بے بسیاں، غربتیں، آگہی کا نہ ہونا، حکومتی سپورٹ کا زیرو ہونا، رشتہ داروں کی بے حسی، اہل محلہ یا اہل دیہہ کا بھی ایسے بچوں سے لا علم رہنا، اور نجانے کتنی ناانصافیاں اور حق تلفیاں حکومت اور سماج دونوں کی طرف سے آخر کب تک ایسے ہی رہے گا؟
میرا دل نہیں کرتا چندے مانگنے کا، نہ ہی ڈونیشن کی یہاں اپیلیں کرنے کا۔ والدین کو مشورہ دیتا ہوں کہ پلیز جیسے بھی ہو اپنی آمدن بڑھائیں، مگر انکے پاس نہ کوئی اسکل ہوتی ہے نا ایسی تعلیم جو چار پیسے کمانے کے لیے درکار ہو۔ نجانےکیسے جوڑ توڑ کرکے لوگ اپنی دال روٹی پوری کر رہے ہوتے ہیں۔ جو ممکن ہو اپنی جیب سے یا قریبی سرکل میں سے مدد لے کر کچھ کر سکوں تو کر لیتا ہوں۔
وہ دن اب ذیادہ دور نہیں ہیں کہ ایوانوں میں ہمارے حکمران بن کر بیٹھے فرعونوں کے تخت و تاج الٹ دیے جائیں گے۔ جنہوں نے ایک یتیم اور بے بس سپیشل بچے کا پنکھا تک بند کر دیا ہے۔ جیسا ظلم یہ لوگ عوام کے نمائندے اور خیر خواہ بن کر عوام پر کر رہے ہیں، جہاں تک لوگوں کو لے کر آگئے ہیں اب انکی بادشاہیاں، وزارتیں، طاقتیں، اثر و رسوخ، دھونس مجھے ذیادہ دیر چلتی نظر نہیں آ رہیں۔ کوئی انقلاب آئے گا یا اللہ کا قہر انکی نسلوں تک کو تباہ کر دے گا۔ عزت ذلت میں بدلے گی اور یہ مٹ جائیں گے۔ اپنی عیاشیوں، کرپشن کے نتیجے میں مہنگائی کرکے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ میں کیا لکھوں اور کیا کہوں۔ کتنے گھروں میں کوئی پنکھے چلا سکتا ہے؟ کتنے بچوں کو کوئی وہیل چئیر دے سکتا ہے؟ چولہا جلانا ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ آخر کب یہ اندھیری رات ختم ہوگی؟ اس سب کے ذمہ دار کیسے اپنا اے سی چلا کر سو پاتے ہونگے؟