Bhola Shedayi
بھولا شیدائی
عطیہ نامی 30 سالہ خاتون شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد ایک وہم کا شکار ہوگئی کہ اسکا چہرہ اور گردن گندے ہیں۔ کبھی ہاتھ سے کبھی کپڑے سے کبھی پانی سے منہ اور گردن صاف کرتی رہتی۔ اور یہ مسئلہ اتنا بڑھا کہ وہ ہر وقت ایسا کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اسے ابکائیاں آنے لگتیں دل متلانے لگتا اور قے آ جاتی۔ قے کو روکنے کی دوائیاں بھی اپنا اثر چھوڑنے لگیں۔ کھانا پینا بھی چھوٹ گیا اور حالت بہت ہی خراب ہوگئی۔
کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ مسئلہ کیا ہے۔ عطیہ کسی سے کوئی بات نہیں کرتی تھی۔ بات سن لیتی مگر جواب کوئی نہ دیتی۔ آنکھیں پانی سے چھلکتی رہتیں۔ کبھی رو دیتی اور کبھی کسی کونے میں بیٹھی دوپٹے کے پلو سے منہ صاف کرتی رہتی۔ ایک ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ اسے لاہور پاگل خانے لے جائیں۔ یہ پاگل ہو چکی ہے۔ عطیہ کو فاؤنٹین ہاؤس لانے کی تیاری ہوئی۔
فاونٹین ہاؤس لاہور نفسیاتی امراض کی ایک قدیم علاج گاہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل یہ عمارت ہندو بیوہ خواتین کی ایک طرح سے رہائش گاہ و بحالی کا مرکز تھا۔ نفسیاتی امراض کا شکار افراد عموماً ماضی میں پیش آئے کسی ناخوشگوار واقعے یا حادثے میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ماہرین کی مدد کے بغیر اس لمحے سے نکل نہیں پاتے۔
عطیہ کے میکے والے اسے وہاں چھوڑ کر مریض کی اس حالت تک پہنچنے والی نامکمل معلومات دے کر واپس لوٹ گئے۔ بس یہ بتایا کہ شادی کے بعد ایسی ہوئی۔ ماہرین نفسیات نے محبت اور توجہ سے عطیہ کا علاج کیا۔ ایک ماہ بعد وہ کچھ بہتر ہوئی تو اس نے خود اپنی کہانی سنائی۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے ایک کلاس فیلو سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ برادری کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ امی ابو تو مان گئے بھائیوں نے غیرت کا مسئلہ بنا لیا اور مجھے بہت مارا پیٹا۔
ان کو یہ اعتراض تھا کہ پسند کی شادی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ بات نجانے کیسے گھر میں رہنے والے دیگر رشتہ داروں کے ہاتھ لگ گئی۔ انہوں نے یہ پھیلا دیا کہ عطیہ گھر سے بھاگ گئی تھی۔ پکڑ کر واپس لائے ہیں اور حاملہ ہے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ میری ایک چچی نے یہ سب جال بچھایا۔ بات پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ اور مجھے کرنٹ لگا کر قتل کرنے کا پلان بنا لیا گیا۔ ماں نے بھائیوں کے پیروں پر اپنے سر کی چادر رکھ دی اور بھیک مانگی کہ میری بیٹی کو زندہ چھوڑ دو۔ میں اسکا فورا کہیں رشتہ کروا دیتی ہوں۔ یہ کبھی یہاں نہیں آئے گی۔
ایک رشتہ کرانے والی عورت نے بتایا کہ لڑکا تھوڑا سیدھا سادہ ہے۔ زمین ہے گھر ہے تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے۔ امی مان گئیں۔ وہ لوگ مجھے دیکھنے نہیں بلکہ رشتہ لیکر آئے۔ اور مجھے انگوٹھی پہنا کر بیس ہزار کیش اور دو سوٹ دے گئے۔ ہمارے گھر والے بھی گئے اور رسم کر آئے۔ 15 دن بعد شادی طے ہوئی اور میں بیاہ کر سسرال چلی گئی۔ میں نے اپنے منگیتر کی فوٹو تک نہیں دیکھی تھی۔
سسرال کے گھر جا کر معلوم ہوا کہ میرا خاوند ذہنی پسماندہ/معذور ہے۔ اور ہر وقت منہ سے رال بہتی رہتی ہے۔ اسے رال صاف کرنے کا بھی بتانا پڑتا ہے۔ کبھی خود ہی قہقہے لگا کر ہسنے لگتا ہے اور کبھی بچوں کے پیچھے بھاگ کر ان کو مارنے لگتا ہے۔ زندہ رہنے کی یہ قیمت بہت زیادہ لی گئی مجھ سے۔ میری ماں نے مجھے کیوں مرنے نہ دیا۔ میری ساس اور نندوں نے مجھے بتایا کہ ہم لوگ اپنا وارث چاہتے ہیں۔ بھائی کو میاں بیوی کے تعلق کا شعور نہیں ہے۔ اور یہ کہ خاوند کو جنسی عمل کے لیے گائیڈ کرنا میری ذمہ داری ہے۔ اولاد میں ایک "بیٹا" ہو جائے تو وہ لوگ اسے رانی بنا کر رکھیں گے۔ میں ایک زندہ لاش تھی۔ انکی نصیحتیں چپ چاپ سنتی رہی۔
خواتین چلی گئیں۔ میرا شوہر کمرے میں آیا۔ میں لیٹی ہوئی تھی۔ میرے پاس بیٹھ گیا۔ اسکے منہ سے بہنے والی رالیں میرے منہ اور گردن پر گر رہیں تھی۔ وہ کچھ بول رہا تھا۔ مگر اسکی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اسکے بولے کی کسی کو بھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ بس اندازے سے ہی بات کو سمجھ لیا جاتا تھا۔ میرا دل خراب ہوا اور قے آگئی۔
یہی وہ لمحہ تھا۔ جہاں عطیہ قید ہو کر رہ گئی تھی۔ پانچ ماہ لگے اس لمحے سے عطیہ کو نکالنے میں۔ جب وہ ٹھیک ہوئی تو اسے دارلامان بھجوا دیا گیا۔ وہاں سے بھی وہ نجانے کہاں چلی گئی۔ وہ واپس اپنے میکے نہیں جانا چاہتی تھی۔ نہ ہی میکے والوں نے دوبارہ کوئی رابطہ کیا۔ سسرالی ایک دو بار آئے۔ مگر عطیہ نے ان سے ملنے سے انکار کر دیا۔ عطیہ کے خاوند کا نام ندیم تھا۔ مگر گاؤں میں چھوٹے بڑے اسے بھولا شیدائی کے نام سے جانتے تھے۔
میرے اپنے سکول میں موجود ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کے والدین بھی انکی شادی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمیں کہتے ہیں کوئی سماعت سے محروم یا جسمانی نقص والی غریب لڑکی مل جائے۔ بس ہمارے بیٹے کا وہ خیال رکھے اور ایک بچہ ہو جائے۔ ہم ان کو بہت سمجھاتے ہیں کہ ایسا سوچیں بھی مت۔ جس نے پیدا کیا وہ جب تک زندہ رکھے گا کوئی بندوست بھی کر دے گا۔ ان بچوں کی شادی نہیں کرتے۔ ان کی زندگی زیر نگرانی ہی گزرتی ہے۔ کچھ امراض کا علاج نہیں ہوتا۔ آئی کیو کم ہے تو اسے کسی بھی طرح زیادہ نہیں کیا جا سکتا۔
وہ کہتے ہیں ہمارا بیٹا بلکل ٹھیک ہے بس اسکا ذہن بچوں والا ہے۔ شادی ہوگی بچے ہونگے تو شاید ٹھیک ہو جائے۔ وہ ساری عمر کسی معجزے کے انتظار میں ہی رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارے بعد اسکا نام لینے والا اسے سنبھالنے والا تو کوئی ہوگا۔ سکول کے بعد ہم انکے ساتھ نہیں ہوتے۔ نہ ہم کسی کو زبردستی ایسا ظلم کرنے سے روک سکتے ہیں۔ کئی ایسی شادیاں پاکستان میں آئے روز ہوتی ہیں۔ کسی سے سنا ہے بھولے جیسے ہی ہمارے ایک سابقہ سٹوڈنٹ کی کہیں شادی ہوگئی ہے۔ اب کوئی قسمت کی ماری عطیہ اب اپنا ذہنی توازن وہاں بھی کھو دے گی۔۔
بیٹی کے والدین اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا ظلم آخر کیسے کر لیتے ہیں؟ کیا ان کو کوئی روکتا بھی نہیں؟ لڑکے والے تو ہر قیمت پر اپنے بیٹے کو بیاہنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ وہ جنون کی حد تک پاگل دکھائی دیتے ہیں۔ خصوصاً لڑکے کی ماں۔ وہ کسی کی نہیں سنتے۔ لڑکی والوں کو ہی عقل سے کچھ کام لینا چاہیے۔ یا ریاست کوئی قانون وضح کرے کہ ایسی شادیوں کو روکا جا سکے۔ علمائے اکرام اس ضمن میں شعور اجاگر کریں۔ اس فیلڈ سے جڑے ہوئے تمام لوگ و متعلقین اس ٹاپک کو عام ڈسکشن میں لے کر آئیں۔