Bhalwal Ka Saulat
بھلوال کا صولت
بائیس سالہ صولت آٹزم سپیکٹرم لیول 2 سے متاثرہ ہیں۔ اسکے ساتھ Profound لیول کی پیدائشی سماعت سے محرومی بھی ہے۔ ہماری خوش قسمتی کہ سپیشل افراد کا عالمی دن تین دسمبر مجھے بحثیت سپیشل ایجوکیشن ٹیچر صولت کے ساتھ انکے گھر گزارنے کا موقع ملا۔ میں بمعہ دونوں بچے اور انکی ماما اور ایک سپیشل فیملی جس کو ہم حافظ آباد شہر سے اپنے ساتھ ہی لے کر گئے (انکی تفصیل لکھنے کی انکی طرف سے کچھ وجوہات کی بنا پر اجازت نہیں ملی) صبح 11 بجے صولت میاں کے گھر بھلوال ضلع سرگودھا پہنچے۔ مہمانوں میں ہم چار بڑے لوگ اور چار ہی بچے تھے۔ صولت اپنی چار بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے اور صولت کی امی مجھے میری ماں کی طرح عزیز ہیں۔ اس فیملی سے کوئی تین سال پہلے رابطہ ہوا تھا۔ صولت کی ایک بہن جویریہ ڈیف ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں۔
صولت کی امی اس بچے کی شادی نہیں کرنا چاہتیں کہ وہ ڈیف کے ساتھ آٹسٹک بھی ہے۔ وہ اس بات سے زرا بھی پریشان نہیں ہیں کہ انکے بعد اس بچے کا کیا ہوگا۔ الحمدللہ وہ اس بچے کو اس قابل کر چکی ہیں کہ Survive کر سکے۔ صولت دوکان پر جا کر کوئی سودا سلف بھی لے آتا ہے جو اسے لکھ کر دیا جائے۔ شرط یہ ہے کہ سارے راستے میں یا دوکان دار اسے دیکھ کر Notice نہ کرے۔ وہ سب کو دیکھے اسے کوئی نہ دیکھے اور ایسا سب گلی والوں کو بتا دیا گیا ہوا ہے دکاندار بھی بغیر صولت کو دیکھے بغیر سودا دے دیتا ہے۔ اس گلی کے سب باسی جو صولت سے اتنی محبت کرتے ہیں ان کو میرا سلام ہے۔
صولت کے مسائل کی بات کریں تو انکے گھر کوئی مہمان نہیں جا سکتا۔ اسے مہمان پسند نہیں ہیں۔ کوئی آ بھی جائے تو جب اسکے ابو کسی سے بات کریں گے وہ اسے برداشت نہیں ہے کہ وہ کسی اور کو ایک لمحہ بھی توجہ نہ دیں۔ کوئی انجان شخص صولت کے کمرے میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔ نہ وہ کسی کے سامنے آتا ہے نہ ہی تصویر بنواتا ہے نہ کسی کو اپنا قیمتی بیگ اور الماری دکھاتا ہے۔ کوئی اسکے بیڈ پر بیٹھنے کا تو سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک کمرے میں اسکی پوری دنیا بڑے ہی سلیقے نفاست اور خوبصورتی سے آباد ہے۔ یہی کمرہ اور ایک الماری اسکی کل کائنات ہے۔ الماری ہر وقت لاک رہتی ہے چابی صولت کی جیب میں ہوتی ہے۔
صولت آپے سے باہر صرف تب ہوتا ہے جب اسے کوئی بھی فرد Notice کرے۔ یعنی اسے دیر تک دیکھتا رہے یا بار بار دیکھے۔ یہ چیز اس کے لیے کسی صورت قابل برداشت نہیں ہے۔ اس پر وہ چیخنا چلانا شور مچانا اور غصہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ میں نے سب کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اسے کسی نے ایک نظر غلطی سے دیکھنا بھی نہیں ہے۔ ورنہ آپ کو گھر سے باہر نکال دیا جائے گا۔ صرف ضوریز کو استثناء حاصل تھا۔ خیر صولت میاں ابھی سو رہے تھے۔ ان کو بتایا گیا کہ کوئی ان سے ملنے آیا ہے۔ ایک گھنٹے بعد انہوں نے فریش ہر کر کمرے سے باہر جھانکا۔ کہ آٹسٹک لوگ واش روم میں بہت زیادہ ٹائم لگاتے ہیں۔ الحمدللہ صولت کے والدین قابل تحسین ہیں کہ وہ اتنی مشکل کنڈیشن والے بچے کو سیلف کئیر میں مکمل آزاد کر چکے ہیں۔ صولت نہ صرف خود واش روم چلا جاتا ہے کپڑے جوتے پہن لیتا ہے بلکہ وہ اپنی پرسنل کیئر کرتا ہے اور کھانا بھی خود کھاتا ہے۔
صولت نے اپنی اب تک کی زندگی میں ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ صولت کو میں نے اشاروں کی زبان بتایا کہ میں ٹیچر ہوں۔ وہ بچپن میں اپنی ڈیف آپی جویریہ کے ساتھ حمزہ فاؤنڈیشن اکیڈمی فار ڈیف لاہور جاتا رہا ہے جب اسکے والدین کو آٹزم کا علم نہیں تھا اور وہ انکی نظر میں ایک ڈیف بچہ تھا۔ اسے خوشی ہوئی کہ ایک ٹیچر انکے گھر آیا ہے۔ جو صولت کسی سے ہاتھ نہیں ملاتا وہ خود آگے بڑھ کر مجھے گلے ملا۔ صولت کے ابو نے بتایا کہ صولت کی زندگی میں یہ پہلی Hug ہے جو اس نے کسی انجان کو کی ہو۔ میں نے صولت کو کمرے سے باہر بلایا اور شمامہ (اپنی اہلیہ) کا تعارف کرایا۔ صولت نے مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے اشارہ کیا سلام لے لیں۔ میرے دونوں بچوں کو صولت نے چہرے سے ہی پہچان لیا کہ وہ میرے بچے ہیں۔ دوسری فیملی کا میں نے بتایا کہ شمامہ کی دوست ہیں۔
میں نے کچھ وقت اکیلے میں صولت کے ساتھ گزارنا تھا تو میں نے کمرے میں داخل ہونے کی دست بستہ اجازت مانگی۔ جو خوشی سے مل گئی۔ کمرے کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ صولت نے مجھے اپنی ایک ایک چیز دکھائی کہ کس سلیقے سے ترتیب سے رکھی ہوئی تھی۔ پھر ہم بیڈ پر بیٹھ گئے۔ اور گفتگو شروع ہوئی۔ نہ میں صولت کی طرف دیکھ رہا تھا نہ وہ میری طرف مگر ہم مسلسل باتیں کر رہے تھے۔ صولت نے شکریہ ادا کیا کہ ہم لوگ انکے شہر اور انکے گھر آئے۔ اس نے کہا کھانا ضرور کھا کر جانا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ مہمانوں سے بہت محبت کرتا ہے مگر ان سے جو اسے حیران کن یا ترس و ہمدردی والی نظروں سے نہ دیکھیں۔ جو لوگ اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہیں یا بار بار دیکھتے ہیں تو اس کا دل کرتا ہے بازو سے پکڑ کر ان کو گھر سے باہر نکال دے۔ اس نے کہا کہ لوگ ہم آٹسٹک یا سپیشل بچوں کو ایسے مڑ مڑ کر بار بار ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہیں جیسے ہم ایلین ہوں ہمارے دانت دو فٹ کے ہوں اور ہماری چار ٹانگیں ہوں۔
اس نے کہا کہ تم ایک ٹیچر ہو لوگوں کو بس یہ کام چھوڑ دیں ہم ان سے اور کچھ بھی مانگتے۔ بھاڑ میں جائیں ایسے سب لوگ۔ ہمدردی ترس دلاسے سہارے نہیں چاہیں ایسے لوگوں سے ہی تو چھپ کر کمرے میں بیٹھا ہوا ہوں۔ ورنہ جہاں مرضی باہر جاؤں۔ بازار جاؤں مسجد جاؤں سکول جاؤں کوئی کام سیکھنے جاؤں۔ صولت نے بتایا کہ اسی وجہ سے وہ اپنا ڈس ایبلٹی سرٹیفکیٹ نہیں بنوانے جا رہا کہ ہسپتال میں لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھیں گے اور وہ ان نظروں کا سامنا نہیں کر سکتا۔ اس نے مجھے کہا کہ تم ڈپٹی کمشنر سرگودھا سے ملو اور اسے کہو کہ صولت کو بس اتنی سی سہولت دی جائے کہ اسکا کام سول ہسپتال میں جلدی ہو جائے۔ تو وہ اپنا سرٹیفکیٹ بنوا کر قومی شناختی کارڈ اپ ڈیٹ کرا سکے۔ وہ موجود سینکڑوں مریضوں اور ہسپتال عملے کی نظروں اور ٹکٹکی کو وہ برداشت نہیں کر سکتا۔
پوری دنیا آٹسٹک لوگ بول کر بات نہیں کرتے یا بہت ہی کم بات کرتے ہیں۔ لیول 1 کے بچے بات کرتے ہیں۔ لیول 2 بہت کم اور لیول 3 تو بالکل بھی نہیں۔ ایسا نہیں ہے وہ گونگے ہوتے ہیں بلکہ وہ بولنے میں الفاظ کی ادائیگی میں ایزی محسوس نہیں کرتے۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کی خاموش گفتگو کو دل کے کانوں سے سنا اور سمجھا جائے۔ جب ہم ان کو سمجھتے نہیں ہیں تو وہ ہائپر ہونے لگتے ہیں۔ یہ چیز ہم نے سیکھنی ہے کہ ان سے گفتگو کیسے ہوگی نہ کہ ان کو بولنا سکھانے پر اپنا سب کچھ لگا دینا ہے۔
باہر کے ممالک میں ایسے افراد کے پاس ایک ٹیب ہوتا ہے جس پر وہ لکھتے ہیں اور وہ بول کر اگلے کو بتا دیتا ہے۔ جیسے میں کہوں گا صولت کھانا کھاؤ گے۔ وہ بنا میری طرف دیکھے اپنے خیالوں میں مگن سکرین پر لکھے گا No اور Speak کا بٹن دبائے گا تو مشین صولت کا جواب مجھے سنا دے گی۔ میں پاگل ہی ہوں جو یہ ضد کروں کہ وہ اپنی زبان سے بول کر انکار کرے۔ اس نے مشین کے منہ سے بول تو دیا نو۔ یا جس کام میں اسکی دلچسپی ہی نہیں ہے وہ کام ہم اسے کرنے کے لیے ہزار آواز دے لیں وہ رسپانس نہیں کرے گا۔ جیسے ہی اسکی پسند کا کام آئے گا وہ ایک اشارے پر دوڑا چلا آئے گا۔
ہم نے آٹسٹک بچوں کی دلچسپیاں ہی تو تلاش کرنی ہوتی ہیں۔ ان پر کام کرکے لرننگ ماڈل بنانا ہوتا ہے۔ سیلف کئیر سے ہوتے ہوئے تعلیم و تربیت میں داخل ہوا جاتا ہے مگر اس سب میں ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے کہ یہ بچے ٹیکنالوجی Lover ہوتے ہیں۔ مشکل سے مشکل ایپ یا وڈیو گیم بھی ان کو دیں چلا لیں گے۔ برازیل کے ایک آٹسٹک نوجوان نے ویڈیو گیمنگ کا حال میں ہی ہونے والا ایک عالمی مقابلہ جیتا ہے۔ ان بچوں کا دماغ ہم سے بہت زیادہ تیز اور مختلف پیٹرن پر چلتا ہے۔
اس پیٹرن کو سمجھنا اور اس کے مطابق ان کو رہن سہن اور تعلیم و تربیت فراہم کرنے کا نام سپیشل ایجوکیشن ہے۔ جیسے ایک عاشق اپنے معشوق کے ناز و نعم نہیں اٹھاتا یہاں بھی وہی کام ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ان کو سمجھا جائے اور ان کو انکی دنیا میں رہنے کی اجازت دیتے ہوئے انکے لیے سیکھنے اور دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کی سہولت دی جائے۔