Behri, Goongi, Langri Luhli
بہری، گونگی، لنگڑی لوہلی
"بلندی" نام سے سال 2000 میں بظاہر سپر ہٹ فلم ریلیز ہوئی۔ جس نے سپیشل افراد کی شادیوں کے متعلق زمانہ جاہلیت کے احمقانہ و جاہلانہ رویوں کو مزید تقویت دی اور کوئی آج بھی وہ فلم دیکھتا ہے تو وہ غیر انسانی الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ وہ سوچ سامنے آتی ہے اور ہم آج بھی سپیشل افراد کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔
اس فلم کی کاسٹ میں اس دور کے ٹاپ لیڈنگ اداکار شامل تھے۔ جن میں
رجنی کانت
رنجیت بیدی
ریکھا
انیل کپور
ارونا ایرانی
شکتی کپور
رجنی کانت اپنے بیٹے انیل کپور کے لیے بہو دیکھنے جاتا ہے اور لڑکی کے گھر ایک دربار لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔ جس میں لڑکی ایسے آ کر بیٹھتی ہے جیسے کسی عدالت میں ملزم کو سوال و جواب کے لیے پیش کیا جائے۔ وہاں کوئی بیس پچیس لوگ موجود ہوتے ہیں۔
رجنی کانت اپنی بہن ارونا ایرانی سے کہتا ہے کہ
منو راما لڑکی کیسی لگی؟
رنجیت (منو راما کا خاوند) بولتا ہے۔ بہت ہی سندر ہے۔
منو راما بولتی ہے۔ بھیا پہلے میں اسکی پریکشا (امتحان) لوں گی تب بتاؤں گی۔
رجنی کانت بولتا ہے۔
لو بہن پسند تمہیں کرنی ہے تگڑا امتحان لینا۔
ارونا ایرانی ریکھا کو مخاطب کرتی ہے۔
آں سنو۔
ریکھا اسکی طرف دیکھتی ہے۔
منو راما۔ بھیا کان ٹھیک ہیں۔ بہری نہیں ہے۔
ارونا ریکھا سے
کھڑی ہو جاؤ تو
ذرا ادھر ادھر چل کے دکھانا
ریکھا چلنے لگتی ہے۔
ارونا۔ پاؤں اور چال کو انتہائی غور سے دیکھتی ہے۔
بس بس بس اب بیٹھ جاؤ۔
ارونا
بھیا ہاتھ پاؤں بھی ٹھیک ہیں۔
لنگڑی لوہلی نہیں ہے۔
ارونا ایک بار پھر بولتی ہے کہ ایک ٹیسٹ ابھی باقی ہے۔
لکشمی تمہیں گانا وانا آتا ہے؟
رجنی کانت۔ منو راما یہ سب کرنا کیا ضروری ہے؟
بھیا چپ رہو۔ معلوم تو کرنے دو اگر لڑکی گونگی نکلی تو؟
رجنی کانت کہتا ہے ہاں ہاں ہاں۔
پھر ریکھا گانا گاتی ہے اور امتحان میں پاس ہو جاتی ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا بہری، لنگڑی لوہلی اور گونگی لڑکی کو شادی کرنے کا حق نہیں ہے؟ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟ یہ سب "غیر انسانی" غیر اخلاقی اور انتہائی قابل اعتراض الفاظ بولنے والی ارونا ایرانی اس وقت کوئی چار سو فلموں میں کام کر چکی تھی۔ اب تک پانچ سو سے اوپر فلموں میں کام کر چکی ہے۔ ان ڈائیلاگز کی ادائیگی کے بعد اسکا شعور آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کیسے بیوقوف اور گنوار لوگ ہیں جن سے لوگ ایک منٹ ملنے کو ترستے رہتے ہیں۔
اسکے پاس بیٹھا رجنی کانت بھی اپنے دور کا لیجنڈ ہے۔ رنجیت، ریکھا، شکتی کپور اور انیل کپور کی شہرت بھی اپنے عہد کے عروج پر ہے۔ کوئی بھی ان الفاظ میں چھپی گالیوں پر اعتراض نہیں کرتا جو اس وقت بھی اور آج بھی سماج میں موجود لاکھوں بلکہ کروڑوں سماعت سے محروم یا جسمانی معذور لڑکیوں کو دی جاتی ہیں۔ انہیں انسان تک نہیں سمجھا جاتا کہ اگر وہ ایسی ہوتی تو ہم رشتہ ہی نہیں کرتے۔
اس فلم کو لکھنے والا "آدیش کے ارجن" بھی کوئی معمولی فلم رائٹر نہیں ہے۔ ایک لکھاری سے ایسے گھٹیا ڈائیلاگز کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی کہ یہ لوگ تو حساس دل کے مالک ہوتے ہیں۔ وہی پریکٹس آج بھی اسی شد و مد سے ہماری خواتین اور اکثر مرد حضرات بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس فلم کے 23 سال بعد آج بھی پاک و ہند میں سپیشل لڑکیوں کو شادی کے لیے قبول نہ کرنے اور ایسے نام رکھنے میں سب سے آگے تقریباً ہر گھر میں موجود (بظاہر بڑی دانا اور پڑھی لکھی زمانہ شناس) مگر حقیقت میں ایک جاہل و گنوار اروانا ایرانی بیٹھی ہوئی ہے۔
اسے کوئی اور چیز ان الفاظ کو بولنے سے یا کسی سپیشل بچی کے رشتے پر توبہ استغفار کرنے سے نہیں روک سکتی جب تک اسکی اپنی کوکھ سے پیدا شدہ ایک بیٹی ایسی نہ ہو جائے۔ ورنہ اسے آپ کسی طرح بھی سمجھا نہیں سکتے کہ پولیو افیکٹڈ، یا Club foot سے متاثرہ لڑکی یا کسی اور معذوری کی وجہ سے وہیل چیئر یوزر لڑکی کا رشتہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ مر تو جائے گی مانے گی نہیں۔ کسی طرح مان بھی جائے تو اس لڑکی کو بسنے نہیں دے گی۔
یہ ایسی معذوریاں نہیں ہیں جو بچوں میں جاتی ہیں یا ان کے ساتھ زندگی گزارنا کوئی بہت مشکل ہے۔ یہ وقت کے ساتھ بڑھنے والی کنڈیشنز نہیں ہیں۔ سماعت یا گویائی میں مکمل محرومی تو درکنار جزوی محرومی ہو تو کہا جاتا وہ ہکلی ہے تھتھی یا توتلی ہے بولی (بہری) ہے۔ اب کیا لڑکیاں مر گئی ہوئی ہیں جو ہم ایسی لڑکی کو بہو بنائیں۔
میں نے سینکڑوں لڑکوں کو دیکھا ہے وہ دل سے کسی سپیشل لڑکی کو اپنانا چاہ رہے ہوتے۔ مگر انکی ماں یا بہنیں ایسا نہیں ہونے دیتیں۔ ایسے ڈرامے کرتی ہیں کہ وہ سمجھنے لگتا میں کوئی گناہ کرنے لگا ہوں۔ اور اس پر حاوی ہو کر اسے ایسا کرنے سے توبہ کروا دیتی ہیں۔ کوئی لڑکا اگر کسی طرح ایسا کر لے تو اس لڑکی کو ساس یا نندیں طعنے دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتیں۔ شادیاں تڑوا دیتی ہیں یا خوشی سے تو رہنے نہیں دیتیں۔
ایسا ہر کیس میں نہیں ہے۔ مگر اکثریت میں ایسا ہی ہے کہ کسی سپیشل لڑکی کی شادی کے نہ ہونے یا شادی کے کامیاب نہ ہونے میں ارونا ایرانی جیسی گھٹیا نفسیات ہمارے گھروں میں پائی جاتی ہے۔ جسے اب تو ختم ہو جانا چاہیے اور ایسے الفاظ بولنے والوں کے منہ پر انکو روکنا چاہیے کہ یہ الفاظ آئندہ کبھی نہ بولیے گا۔ جب تک یہ الفاظ ختم نہیں ہونگے سپیشل افراد کی قبولیت یا انکو برابری دینا ایک دیوانے کا خواب ہی ہے۔