Banjar Zameen Mein Beej Bona
بنجر زمین میں بیج بونا

ہر بات ہر کسی کے لیے نہیں ہوتی۔ خاص بات عام لوگوں کے لیے یا عام سی کوئی بات خاص لوگوں کے لیے بھی نہیں ہوتی۔ یہ سب بیان دو تین سو فیصد سچ اور درست ہیں۔ اس سے پچھلی تحریر کے کمنٹس میں پاکستان میں ملازمت کرنے والے چند ٹیچرز کی فرسٹریشن دیکھیے زرا۔ وہ ایک سادہ سی بات تھی کہ عالمی اداروں میں اساتذہ کا لائف اسٹائل دیکھیں اور آپ کے اندر کچھ ہو تو آپ بھی ان اداروں میں ملازمت کے اتنا ہی اہل ہیں جتنا کوئی اور۔ مگر اس کو سمجھا گیا میں مذاق اڑا رہا ہوں۔ ہمیں کچن چلانے کی فکروں میں نسل در نسل خوار کرکے اب تو سوچنے اور بات کو سمجھنے کی صلاحیت سے ہی محروم کر دیا گیا ہوا ہے۔
میں آپ کو اپنے دل کی بات بتاؤں؟ میں نے عمان شفٹ ہو کر ٹیچنگ یا کوئی اور بھی جاب نہیں کی، کہ جاب میں آکر آؤٹ آف دا باکس سوچنے کی صرف صلاحیت بچتی ہے کچھ کرنے کا وقت اور ہمت نہیں ہوتی۔ لگی بندھی تنخواہ کا میٹھا زہر سوچوں تک کی پرواز کو ناکارہ کر دیتا ہے۔ کچھ وقت جاب کے بغیر رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور الحمدللہ میں اپنے خود کے ہی ایک الگ ورژن سے مل چکا ہوں۔
میرے دل کے بہت قریب تو میری اپنی اساتذہ کی کمیونٹی ہی ہے۔ گذشتہ پندرہ سال استاد رہا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ ان کے لیے کوئی راستہ بنا سکوں۔ جو اپنی لائف میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ عالمی اداروں میں اپنی اسکلز دکھانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے اس کا ان کو معاوضہ بھی اچھا ملتا۔ اب ہر کوئی تو ملک چھوڑ نہیں سکتا، سو مجبوریاں ہیں مسائل ہیں فنانس کے ایشوز وغیرہ ہیں۔ مگر جنکے پاس سب کچھ ہے بس ان کو راہنمائی اور ہیلپنگ ہینڈ چاہئیے۔ مستند انفارمیشن چاہئیے۔ وہ مرد اساتذہ اکرام ہوں یا خواتین۔ تو انکے لیے یہاں عمان میں سیٹنگ بناؤں گا۔ آنا تو انہوں نے اپنے خرچے پر ہی ہے۔ کسی ایک کو بھی میں اگر اسکے خواب سچ کرنے میں مددگار ہو سکوں تو یہ بات میرے اپنے لیے قابل فخر ہوگی۔ مجھے ایسا کرکے اپنی کوئی کمیشن فیس یا کسی بھی طرح کا کوئی فائدہ نہ آج چاہئیے نہ کبھی بھی چاہئیے ہوگا۔ مجھے جتنی محبت اور جتنا وقت میرے پڑھنے والوں نے دے دیا ہوا اسکا ہی خود ہی اللہ کی قسم مقروض سمجھتا ہوں۔ کہ یہ قرض شاید ہی کبھی اتار سکوں۔
اور پھر ایک دم سے عمان نے پاکستانی پاسپورٹ پر عمان انٹری ہی بند کر دی ہے۔
افسوس ہے تو بس سسٹم پر کہ ہماری سوچ اور خوابوں کو ہی کچن کا چولہا چلانے اور دو وقت کی روٹی پورے کرنے تک محدود کر دیا گیا ہوا ہے۔ نہ صرف اساتذہ بلکہ پچانوے فیصد پاکستانی اپنی بنیادی ضروریات ہی پوری کرنے کی بھاگ دوڑ میں سرگرداں ہیں۔ کونسا ٹیلنٹ کونسا ٹائم، کونسے خواب، کونسا معیار زندگی، کونسا فرینڈ شپ سرکل؟
مجھے لگتا ہے میں بنجر زمین میں بیج بونے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب بھی یہ بات کرتا ہوں کہ کچھ بڑا سوچو، بڑا کرو وہ وہاں رہتے ہوئے کرو یا وہاں سے نکل کر جہاں مرضی جہاں دل چاہے جاکر رہو۔ لوگ مجھے برا بھلا کہنے لگتے ہیں کہ تم اپنی اوقات بھول گئے ہو، پیسہ کمانا ہی تمہارا مقصد ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ مجھے ان کی باتیں سن کر ان پر پیار آتا ہے کہ کاش انکی اس سوچ سے ان کو آزادی دے سکوں اور وہ اپنی اس خود ساختہ اذیت پرستی، وطن پرستی، غربت پرستی، مذہب پرستی، ذات قوم پرستی، ہجوم پرستی، صوبہ اور زبان پرستی سے اوپر اٹھ کر اپنا اور اپنے بچوں کا کوئی بہتر مستقبل تلاش کر سکیں۔ کرنا تو سب نے سب کچھ خود ہی ہوتا ہے۔ کچھ بھی اچھا اور آؤٹ دا بالس سوچنے اور کرنے والوں کو روکنے اور ان گرانے والوں انکی ہمت توڑنے والوں پر افسوس کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ پھر سوچتا ہوں کہ ان کو بھی تو ایسا ہی سوچنا سکھایا گیا ہے۔