Bachon Ko Numbers Ki Dor Mein Na Lagayen
بچوں کو نمبرز کی دوڑ میں نہ لگائیں
سال تھا 2003 اور 425 میں سے میرے نہم جماعت میں 217 نمبر آئے تھے۔ یعنی 51 فیصد اور ہمارے گھر اس دن بہت زیادہ خوشی کا دن تھا کہ خطیب پاس ہو گیا۔ میں کوئی ڈاکٹر، انجینئر، جج، سی ایس پی آفیسر تو نہیں بن سکا۔ مگر جو بنا ہوں آپکے سامنے ہوں اور الحمدللہ مطمئن ہوں۔ بحیثیت ایک سرکاری سکول ٹیچر اپنی جاب سے انتہائی خوش ہوں۔ بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں پلیز نہ لگائیں۔
ذیادہ نمبر ذہانت نہیں بلکہ اچھی یاداشت کی نشانی ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں صرف چار سرکاری ملازمتوں کے لیے اپلائی کیا تھا۔ وہ بھی ایم اے کرنے کے بعد۔ چھوٹی موٹی سرکاری جاب کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ دوست شروع سے ہی ایج میں بڑے اور میچور تھے وہ ہمیشہ بہت اچھا گائیڈ کرتے تھے کہ سرکاری جاب یار سکیل 17 سے کم نہ کرنا۔ نہ مل سکی تو تمہیں اپنے ساتھ کاروبار میں ایڈجسٹ کریں گے۔ وہ بزنس مین تھے۔ آرٹسٹ تھے۔ تاجر تھے۔
انہوں نے بتایا کوئی ایم این اے یا ایم پی اے تمہیں درجہ چہارم یا محمکہ پولیس میں سکیل 5 کا سپاہی لگوانے سے اوپر کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ تب سپاہی کا سکیل 5 ہوتا تھا۔ انکی راہنمائی نے قسم سے بہت ساتھ دیا۔ کسی بھی چوہدری یا سیاسی بندے کے ڈیرے پر جاب کے لیے جانے کا کبھی خیال تک نہ آیا۔ سب سے پہلے ایجوکیٹر سکیل 9 پر این ٹی ایس کے ذریعے اپلائی کیا۔ نمبر آئے 89۔ تحصیل نوشہرہ ورکاں کی 15 سیٹوں پر میرا میرٹ نمبر 4۔ میں نے جائن ہی نہیں کیا تھا۔ ودھاون گاؤں آرڈر ہوئے تھے۔ تب ایم فل کر رہا تھا۔
پھر سپیشل ایجوکیشن ٹیچر سکیل 16 کی 75 سیٹیں پنجاب لیول پر آئی۔ یعنی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے۔ میرا فائنل ریکمنڈیشن لسٹ میں میرٹ تھا 14۔ نہیں جائن کیا۔ پھر 45 سیٹیں آئیں سکیل 17 سینئر سپیشل ایجوکیشن ٹیچر۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے۔ میٹرک ایف میں 50 فیصد نمبر، اور 45 میں سے فائنل ریکمنڈیشن لسٹ میں میرا نمبر تھا 6۔ اسے جائن کر لیا تھا۔ وہی ملازمت کر رہا ہوں۔
چوتھی بار ایجوکیشن یونیورسٹی میں لیکچرار سکیل 18 کے لیے اپلائی کیا۔ الحمدللہ انٹرویو کے لیے شارٹ لسٹ ہوا اور انٹرویو آوٹ کلاس ہوا۔ سلیکشن میں کیونکہ اکیڈیمک ریکارڈ کا ویٹج بہت زیادہ تھا تو دو سیکنڈ ڈویژنوں کی وجہ سے سلیکشن نہ ہو سکی۔
میرے وہ سب کلاس فیلو اور دوست ہوئے جنکی ایم فل تک ایک بھی سیکنڈ ڈویژن نہیں تھی۔ یونیورسٹی اگر تحریری امتحان لیتی تو سلیکشن کرائی ٹیریا کچھ اور ہوتا اور میں کوالی فائی کر جانا تھا۔ ایک رتی بھر بھی افسوس نہیں کہ میں یونیورسٹی کا لیکچرار نہیں بنا۔ قدرت نے جہاں رکھا ہے وہاں ہی دل سے کام کر رہا ہوں۔ ویسے آپس کی بات ہے میری موجودہ سکیل 17 میں تنخواہ بھی میرے ان لیکچرار سکیل 18 والے دوستوں سے زیادہ ہے۔
یار پلیز نکلیں اس نمبروں کی دوڑ سے اور سکول، کلاس، تحصیل، ضلعے، بورڈ کی پہلی، دوسری، تیسری والا چکر اب ختم کریں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ ہی زیادہ نمبر کسی کے ذہین ہونے کی وجہ سمجھے جاتے ہیں۔ نہ ہی نمبروں کی کوئی تشہیر ہوتی ہے۔