Ataxic Cerebral Palsy
اٹاکسک سیری برل پالسی
سیری برل پالسی برین ڈیمج سے ہونے والی ایک دائمی معذوری ہے۔ یہ معذوری ماں کی کوکھ میں، دوران پیدائش، یا پیدائش کے بعد بخار میں جھٹکے لگنے سے ہو جاتی ہے۔ جو کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوتی۔ ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، حکمت، دم درود، ورزشیں اسکا علاج ہر گز نہیں ہیں۔ دیہاتی یا سادہ لوح والدین اس حقیقت کو قبول کرنے تک اپنا سب کچھ علاج پر لگا چکے ہوتے ہیں۔ جہاں امید کی کوئی کرن نظر آتی چلے جاتے۔ پیسوں کے ساتھ اپنا ایمان تک گنواتے لوگوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
سیری برل پالسی کی اس قسم Ataxic میں متاثرہ فرد کے دماغ کا حصہ سیری بلم ڈیمج ہوتا ہے۔ جو ہمارے بیلنس اور جسم کے پوسچر کو قائم رکھنے کا کام کرتا ہے۔ سیری بلم ہماری حرکات و سکنات اور عقل و دانش کا بھی پورشن اپنے اندر رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے تقریباً 40 فیصد سی پی بچے عقل و دانش میں پسماندہ ہوتے ہیں۔ اس کو دوسرے الفاظ میں توازن کی ڈس ابیلٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس قسم میں متاثرہ فرد اپنا توازن قائم نہیں رکھ پاتا اور حرکات و سکنات میں Coordination کا ادراک نہیں رکھ سکتا۔
یہ بچے کھڑے نہیں ہو سکتے۔ اس بچے کی طرح کھڑا ہونے کی کوشش کریں تو لڑکھڑا کر گر جاتے ہیں۔ فوراً کوئی کام نہیں کر سکتے۔ یعنی برین آرڈر تو دیتا ہے مگر مسلز کے ذریعے پیغام رسانی کا عمل سست ہوتا ہے۔ ہاتھوں کی گرفت نہیں ٹھیک ہوتی۔ پورے جسم کے مسلز میں کھچاؤ ہوتا ہے۔ سپیچ بھی اکثریت کیسز میں متاثر ہوتی ہے۔
علاج یا بحالی میں کیا آپشن ہے؟
حال کی گھڑی میں علاج کچھ بھی نہیں ہے۔ کوئی معجزہ نہیں ہونا ہوتا۔ جس کے لا حاصل انتظار میں والدین اپنی ساری خوشیاں تباہ کر دیتے ہیں۔ پوری دنیا گھوم آئیں ان بچوں کو سو فیصد ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ان بچوں کی زندگی میں کوئی آسانی آ سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف ٹیکنالوجی کے استعمال سے۔ انکے لیے کھانے کے برتنوں میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہو رہا ہے۔ سینسرز والی بریسز ہیں جو کھڑے ہونے یا چلنے میں مددگار ہوتی۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس والی وہیل چیئرز ہیں۔ انکے دماغ کو پڑھ کر خیالات کو بول کر بیان کرنے والے ٹیبلیٹ ہیں۔ لکھنے میں مددگار آلات ہیں۔ کپڑوں اور جوتوں میں ہر بچے کے لیے کسٹمائزیشن ہے۔ ہوم سیٹنگز اور سکول سیٹنگز میں تبدیلیاں ہیں۔ جو انکی زیادہ سے زیادہ موبیلٹی یعنی چلنے پھرنے کو ممکن بنائے۔ واش رومز اور کچن انکے لیے قابل رسائی بنائے جاتے ہیں۔ سیڑھیوں کے ساتھ ایک بار لفٹ لگائی جاتی کہ سٹیپ چڑھنا انکے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
پانی سٹرا سے پلایا جاتا اور گلاس بند ہوتا جس سے پانی چھلک کر باہر نہ گرے۔ یعنی ہر ایک چیز کو کسٹمائز کیا جاتا ہے۔ سینسری تھراپی، ہائیڈرو تھراپی (نیم گرم پانی کے حوض میں واک کرانا) بہت کار آمد ہے۔ Conductive Education کو تعلیم میں استعمال کیا جاتا۔ ون ٹو ون ٹیچنگ ہے۔ یہ وہ کچھ کرنے کے کام ہیں جو جدید دنیا میں ان بچوں کی بحالی کے لیے کیے جاتے اور یہاں ہم علاج، ورزش اور سپیچ تھراپی سے ہی آج تک باہر نہ نکل سکے۔
ایک استاد ایسے کسی ایک بچے کو اپنی پوری زندگی دیکر ایک نیا جیون عطا کرتا ہے۔ جس میں وہ بچہ تاریکی سے روشنی کے سفر کا مسافر بن جاتا۔ جہاں ایسے اساتذہ کی کمی ہے وہیں مالی وسائل اور شعور کی بھی از حد کمی ہے۔ ریاست کی سرپرستی کے بغیر ان بچوں کی بحالی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ ایک بچے کو کوالٹی سروسز مہیا کرنے کی سالانہ لاگت 25 سے 30 لاکھ روپے تک ہے۔
یعنی 2 سے اڑھائی لاکھ ماہانہ اور یہ اخراجات 10 سے 15 سال تک مسلسل ہونے ہوتے۔ کون کر سکتا ہے یہ سب؟ نہ ہی اتنے پیسے ہیں اور جنکے پاس ہیں بھی انکے لیے کوئی معیاری ادارہ موجود نہیں ہے۔ ایسے استاد ناپید ہیں جو اپنی زندگی ان بچوں پر لگانے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ یارو ان بچوں کی تعلیم و تربیت یا بحالی اللہ کی قسم کوئی جاب نہیں ہے۔ نہ اسکی کوئی تنخواہ دے سکتا ہے۔
بلکہ یہ تو ایک عشق ہے جس کی بازی میں ان بچوں پر اپنا سب کچھ ہی وار دینا ہے۔ جدید تحقیق سے ہمیشہ جڑے رہنا ہے۔ خود کو ہر روز اپ ڈیٹ کرنا ہے۔ اپنے علم کو جدید دنیا کی پریکٹس سے آراستہ رکھنا ہے۔ اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کو ریورس انجینئرنگ کے ذریعے یہاں لوکلی دستیاب کرنا ہے۔
ایک خواب ہے۔ میری آنکھوں میں۔ جو مجھے رات کے اس پہر دو بجے بھی سونے نہیں دے رہا۔ کہ ان بچوں کو تعلیم و بحالی کی معیاری سہولیات یہاں ملک پاکستان میں میسر ہوں۔ اور اس خواب کی تعبیر ہم سب ملکر انشاءاللہ ضرور کریں گے۔ شکوے کرنے کی نفسیات سے میں کئی سال پہلے نکل چکا ہوا ہوں۔ بس اپنے حصے کا دیا روشن کرنا ہے۔ وہ انشاءاللہ کرتے رہیں گے اور روشنی تو ایک دن ضرور ہو گی۔ بے شک میری زندگی کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ مگر انشاءاللہ ضرور ہو گی۔