1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khateeb Ahmad/
  4. Arif Hussain (2)

Arif Hussain (2)

عارف حسین (2)

عارف تم بہت اچھے ہو تمہارے گھر والے بھی بہت اچھے ہیں، انہوں نے پیسے جمع کیے کچھ بنا لیا اور ہم نے جو کمایا کھا لیا یا ہم بہن بھائی پڑھ گئے ایک مکان بن گیا۔ مگر ہمارے اور تمہارے گھر کے معاملات و رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے میں تمہیں بدل بھی لوں جو تم کہہ رہے کہ جیسے میں کہوں گی ویسے ہوگا تمہارے سارے گھر والوں کو کیسے ایجوکیٹ کر سکتی ہوں میں؟ یہ ناممکن ہے یار کبھی بھی وہ نہیں بدلیں گے نا میں ان جیسی ہو سکتی ہوں۔

میرا تمہارے گھر رہنا ایک پنجرے میں شیر و بکری کو بند کرنے کے مترادف ہے۔ تم بتاؤ آخری بار تم نے اپنا ٹوتھ برش کب بدلا تھا؟ عارف بولا یاد نہیں۔ کوئی سال دو سال پہلے؟ ہاں اتنی دیر تو ہوگئی اور رات کو برش کرتے ہو؟ نہیں بس صبح کرتا ہوں اور پرفیوم کونسا لگاتے؟ جو مل جائے کوئی خاص نہیں۔ دیکھو عارف میں کسی ایسے لڑکے کے ساتھ رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی جو اپنی کئیر ہی نہ کرتا ہو جو صاف ہی نہ رہتا ہو اور اسکے گھر والے گندا رہنے میں اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہوں۔

میں یہاں ایک اکیڈمی میں پڑھا کر اپنا خرچا چلاتی ہوں بیس ہزار لیتی ہوں مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔ کاش تمہیں اپنے روم میں لیجا سکتی تم میرا ہاسٹل روم دیکھو اور اپنے گھر کے کمرے۔

تم جیسے خود پر پائی نہ لگانے والے اور پیسے جمع کر کرکے زمینیں خریدنے والے لوگوں میں امی کے کہنے پر رشتہ کرواؤ لڑکی کے ساتھ کئی ٹرک جہیز دو چار بھینسیں اور کار بھی دیں گے۔ تمہاری امی بہنوں کو جھمکے وغیرہ بھی ڈالیں گے تاکہ ان سے بعد میں زمین کا حصہ نہ مانگو تم لوگ۔ میں آئی تو دو جوڑوں میں آؤں گی اور ساری عمر جہیز نہ لانے کے طعنے سنوں گی میرے والدین پتا نہیں کیسے میری شادی کریں گے انکے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں ہو سکتا ہے میں جاب کرکے اپنی شادی کے لیے پیسے جمع کروں۔ یہ پیار محبت کچھ نہیں ہوتا یار ایسی زبردستی سمجھوتے کی شادیوں میں شادی کے بعد میاں بیوی میں"شلوار" کا رشتہ ہی بنتا ہے اور کچھ بچے پیدا ہوجاتے۔ کبھی وہ دوست نہیں بن پاتے بس زندگی انکو گزار دیتی ہے، وہ زندگی نہیں گزارتے۔

نہ میں یہ شادی کروں گی میں ابھی ہاں کر بھی دوں۔ میرے ابو اور بھائی کسی صورت نہیں مانیں گے وہ کہتے ہیں ماموں لوگ بہت کنجوس ہیں اور ہے بھی ایسا تم دیکھو تمہاری امی آج بھی بوتل لیز اور سوپر بسکٹ ہر مہمان کو دیتی ہیں کیا یہ حیثیت تم لوگوں کی؟ ابھی تمہیں جو جوس لا کر دیا تین سو کا تھا اور بریانی 2 سو کی۔ تمہیں کوک اور برگر بھی کھلا سکتی تھی مگر میں جو خود کھاتی ہوں وہ ہی دوسرے کو کھلاتی ہوں یہی عادات میرے سارے گھر والوں میں ہیں اور ہمارے پاس کوئی پیسے جمع نہیں ہوتے۔ تمہارے گھر سے بس بوتل جوس اور بسکٹ نمکو ملتی امی سے پوچھنا آخری بار پھپھو یا کسی رشتہ دار کو کھانا کب کھلایا تھا؟ اور گندے بدبودار شوربے والے آلو چکن کے علاوہ کچھ پکایا کبھی؟ چکن بھی تمہارے گھر پتا نہیں کیسا بنتا ہے۔ سکھاؤ یار تم ہی کچھ ان کو الٹی آنے لگی تھی مجھے تو ایک بار ایک نوالہ کھا کر۔

عارف جو ساری باتیں چپ کرکے سن رہا تھا بولا۔ بس کہ کچھ اور بھی؟

عارف برا مت منانا تمہاری امی کسی کی بات نہیں مانتی اور جن گھروں میں عورت کی چلتی ہو وہاں کوئی فیصلہ ٹھیک نہیں ہوتا نہ ان لوگوں کو کوئی عزت کی نگاہ سے دیکھتا کوئی بتائے یا ناں وہ اور بات ہے۔ عورت کی ایک حد ہے۔ جب وہ اس سے آگے بڑھ کر ہر کام میں ٹانگ اڑاتی ہر فیصلہ خود کرتی تو سب کو ذلیل کرکے رکھ دیتی ہے۔ دنیا میں عورتیں ملکوں کی حکومتیں بھی چلا رہی ہیں، مگر وہ ہماری پاکستانی گھریلو عورتوں جیسی نہیں ہیں۔ میں گھر میں مرد کی بالادستی کی قائل ہوں، جو ہمارے گھر میں ہے بھی اور سب کچھ بہت اچھا ہے۔ امی مشورہ دے سکتی ہیں فیصلہ نہیں کر سکتیں کہ اسے بھائی یا ابو بدل نہ سکیں۔ اور تمہارے گھر میں اس سے الٹ ہے جو مامی کہیں گی وہی ہوگا۔ اور سلامی تم لوگ کسی کی شادی پر پتا کتنی دیتے ہو؟ 5 سو یا ہزار۔۔

اور تو اور تمہارے گھر آج بھی روز دال چنے نمک گھی آئیل لینے مامی ماموں دکان پر جاتے وہ بھی ادھار۔ جو چیز ایک دن میں استعمال ہوتی بس وہی تم لوگ لیکر آتے یہ کیا تماشا ہے؟ ایک ہی بار سائیں مارو لا دیا کرو تم ہی سامان انکو کسی اچھے ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے۔ ہمارے گھر میں مہینے بھر کا راشن جس میں چاول آئیل شیمپو صابن دالیں چنے کیچپ ہئیر کلر کولڈ ڈرنکس کے پیٹ بسکٹس کے پیکٹ چائے کا آدھا کلو کا پیکٹ بشمول ہم سب بہنوں کے پیڈ اور جو بھی چیز ضرورت کی ہوتی سبزیاں گوشت چھوڑ کر امی مہینے کے شروع میں ہی لے آتی ہیں۔

یار کس دور میں رہتے ہو؟ لوگ ہستے ہیں تمہارے گھر پر کہ جوڑ جوڑ کے ہی مر جائیں گے نہ خود پر لگائیں گے یا اچھا کھائیں گے کسی کو دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور تمہاری امی یہ کی جو یہ ضد ہے تمہاری باجی کی شادی زمین والے سے ہی کریں گی وہ پینتیس سال کی ہوگئی کیا نکالنا تم لوگوں نے اس میں سے؟ بس ماں ہی کرے جو کرے کیسے مرد ہو تم ایک جاہل ضدی عورت تم لوگوں سے وادھو ہے۔ اسکی شادی کرو یار آدھا سر اسکا سفید ہوچکا مجھے رونا آتا اس بیچاری کو دیکھ کر۔ جن کی زمین نہیں وہ کھاتے نہیں؟ تم لوگوں سے تو ہزار درجہ ہی اچھا کھاتے پہنتے ہونگے۔ آئی ایم سوری یار مامی پر مجھے تپ چڑھتی ہے۔ تمہاری باجی کے معاملے میں۔ تمہاری امی تمہاری بہنوں کے سسرال میں بھی بے جا دخل اندازیاں کرے گی اور انکے گھر اجاڑے گی تم دیکھ لینا اگر مامی کو تم لوگوں نے نہ سمجھایا تو۔

اور آخری بات تم جب چاہو ہمارے گھر آؤ میری شادی ہو جائے میرے سسرال بھی آؤ تمہارا میرا جو رشتہ ہے وہ ہمیشہ قائم رہے گا تمہیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ اگر تمہارے گھر والے یا تم اس رشتے کے انکار کی وجہ سے تعلق ہی توڑ دو گے تو تم خود سوچو اس سے بڑی کوئی جہالت ہوگی؟ نیا رشتہ نہیں جڑا تو نہ سہی پرانا تو ہے ناں اسے ختم کرنے والے لوگوں کو میرا دل کرتا ہے گولی مار دوں۔ یہ جہالت و دقیانوسی تصورات و نظریات کب تک یوں ہی چلیں گے؟ جو باتیں میں نے تمہیں ہمارے درمیان اختلافات کی مد میں گنوائی ہیں ان سے ڈبل ابھی باقی ہیں وہ کرتے رات ہوجانی ہے چھوڑو اب یہ ٹاپک۔ چلو تمہیں لائلپور دکھاتی ہوں بائیک چلا لو گے کلاس فیلو سے لوں؟

پہلے یہ بتاؤ جو میں نے کہا وہ ٹھیک ہے؟ عارف نے جواب دیا ہاں سب ٹھیک کہا تم نے امی سے اب ہم۔ کیا کہیں ابو نے ہی انکو کبھی نہیں روکا۔

عارف نے بے دلی سے کہہ دیا لے لو اور وہ دونوں شام تک لائلپور کی سڑکوں پر گھومتے رہے شام کا کھانا بھی باہر سے کھایا جسکے پیسے زبردستی عارف نے دیے۔ عارف نے عمارہ کی پسند کی کچھ شاپنگ کرنے کی خواہش کی تو عمارہ نے اسے تین سوٹ دو جوڑے برانڈڈ جوتے چپل ایک جوڑا جاگرز جرابیں اور دو پرفیوم ایک اچھی گھڑی لیکر دیے جنکی کل ملا کر قیمت تھی ایک سو بیس ہزار تھی سب برانڈ تھے عارف کا بینک کارڈ ہر جگہ سوائپ ہوا۔ عارف نے بتایا یہی چیزیں وہ خریدتا تو بیس سے پچیس ہزار سے زیادہ نہ لگتے۔ عارف بہت خوش تھا کہ کل سے وہ نئی و مختلف زندگی جینا شروع کرے گا۔

رات کو عمارہ نے عارف کو بوائز ہاسٹل میں اپنے ایک کلاس فیلو کے پاس ٹھہرا دیا۔

صبح نو بجے عمارہ نے عارف کو اپنا ڈیپارٹمنٹ دکھایا اور جامعہ کے باہر والے گیٹ تک چھوڑنے بھی آئی۔ عارف نے مڑنے سے پہلے پانی سے بھری ہوئی آنکھوں سے عمارہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ عمارہ نے بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر قریب ہوتے ہوئے ہاتھ ملا ہی لیا۔ عارف نے تو جیسے اس ایک پل میں عمارہ کے لمس کو اپنی رگ رگ میں اتار لیا۔ عمارہ کا عارف نے شکریہ ادا کیا اتنا سچ بولنے کے لیے اور اسکی آنکھیں کھولنے کے لیے۔ اور پوچھا کہ دوبئی جا کر اسے کیا بھیجے؟

عمارہ نے کہا کچھ بھی نہیں بس رابطے میں رہنا خیر خیریت بتاتے رہنا اپنی۔ اور مجھے معاف کر دینا کچھ برا لگا ہو تو۔ تمہیں اپنا سمجھ کر یہ سب بتایا ہے تم اپنے ٹائپ کے پیسے جوڑنے والے لوگوں میں بہت خوش رہو گے، امی کی مرضی سے شادی کرواؤ یار میں آؤں گی تین دن رہوں گی تمہارے گھر جیسا بھی ہے۔ عارف بولا نہیں اب گھر بنا کر ہی شادی کرواؤں گا اور باجی کا رشتہ تم دیکھو گی ایک ماہ میں طے کر دونگا میں اماں نے جو کرنا تھا آج سے پیچھے پیچھے کر لیا۔ اتنے میں کریم کی کار آگئی اور عارف لاری اڈے کی طرف چل دیا۔ عمارہ وہیں کھڑی جاتی ہوئی کار کو دور تک دیکھتی رہی جب وہ موڑ مڑ گئی تو عمارہ بھی ہاسٹل کی طرف چل دی۔

Check Also

Israel Ka Doobta Hua Bera

By Azam Ali