1.  Home/
  2. Blog/
  3. Khateeb Ahmad/
  4. Arif Hussain (1)

Arif Hussain (1)

عارف حسین (1)

عارف ایک سادہ لوح دیہاتی لڑکا ہے۔ جو پچیس سال کی عمر میں تیس سال کا شناختی کارڈ بنوا کر فکر معاش میں دوبئی جاتا ہے۔ عمارہ اسکی پھپھو کی سب سے خوبصورت بیٹی ہے۔ جو اس وقت ایف ایس سی کر رہی تھی۔ عارف تین سال بعد خوب کمائی کرکے واپس لوٹتا ہے گھر والے رشتے کی تلاش میں ہیں، مگر وہ دل ہی دل میں عمارہ کی محبت میں بچپن سے گرفتار ہے جو کسی اور کو نہیں پتا۔ اسے گھر والوں سے معلوم ہوتا ہے، اب عمارہ جامعہ زرعیہ فیصل آباد سے ایم ایس سی سال اول کی طالبہ ہے۔

عارف جان بوجھ کر پھپھو سے ملنے اس دن جاتا ہے۔ جس دن عمارہ جامعہ سے گھر آئی ہوئی ہے۔ عمارہ جو تین سال قبل دبلی پتلی سی عینک لگی لڑکی ہوتی تھی اب تھوڑی صحت مند ہوچکی تھی۔ وہ عارف کے دل میں اتر جاتی ہے۔ عینک لگی عمارہ سادہ لوح عارف کو مزید اچھی لگتی ہے کہ پڑھی لکھی لڑکیاں عینک والی ہی ہوتی ہیں۔ اسکے خیال ان پڑھ یا کم پڑھی ہوئی لڑکیاں کیونکہ دماغ اور نظر کا زیادہ استعمال نہیں کرتیں تو انکی نظر کمزور نہیں ہوتی۔ وہ ایسی جینز پہنی انگریزی و دیسی میمیں دوبئی میں دیکھتا تھا اور دل ہی دل میں سوچتا تھا کاش ایسی لڑکی سے بیاہ ہوجائے تو کیا ہی موجیں ہوں۔ اب عمارہ کسی ودیشی میم سے کسی طرح بھی کم نہ تھی۔

عارف بس کسی طرح عمارہ کو اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا۔ اسنے یہ بھی سوچ لیا، وہ صرف دو بچے پیدا کرے گا، کیونکہ پڑھی لڑکیاں بچوں کی لائنیں نہیں لگاتیں۔ وہ پڑھی لکھی لڑکیوں سے بہت متاثر تھا۔ دوبئی میں وہ جتنی لڑکیوں کو اپنی ٹیکسی میں بٹھاتا پاکستانی و انڈین لڑکیوں سے وہ ضرور پوچھتا آپ کتنا پڑھی ہیں۔ اسکے مطابق پڑھی لکھی لڑکیوں سے خوشبو آتی تھی اور انکا اخلاق بھی بہت اچھا ہوتا تھا وہ اسے بڑی تمیز سے مخاطب کرتی تھیں۔

وہ باتوں ہی باتوں میں پھپھو سے عمارہ کی شادی کے متعلق پوچھتا ہے تو پتا چلتا ہے عمارہ ایم فل سے پہلے اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتی پڑھائی مکمل کرکے لیکچرار بنے گی پھر شادی کروائے گی۔ عارف انتظار کرنے اور اپنی مالی حیثیت مزید بہتر کرنے کا ارادہ کرکے دوبئی واپس لوٹ جاتا ہے۔ وہ چار سال مسلسل دن میں 16 سے 18 گھنٹے ٹیکسی چلاتا ہے اور گاؤں کے لمبڑوں سے 8 ایکڑ زمین پاکستان آکر خرید لیتا ہے۔ پہلے اپنی دو ایکڑ تھی اب 10 ایکڑ ہوگئی۔ وہ اپنے تئیں بہت خوش ہے کہ اب انکا گاؤں میں ایک نام ہے۔

عمارہ ایم فل کا تھیسز کر رہی ہے اور عارف پر ماں کی طرف سے شادی کا پریشر اب بہت بڑھ چکا ہے۔ ماں ایک رات روتے ہوئے کہتی ہے 33 سال کے ہو چکے ہو ماں جب مر گئی تب کراؤ گے شادی کس چیز کے انتظار میں ہو تم۔ تمہارے ابا 20 سال کے تھے۔ جب انکی شادی مجھ سے ہوئی میں 24 سال کی تھی۔ عارف ماں سے دل کی بات کرتا ہے تو وہ نہیں مانتی کہ لڑکی اکیلی شہر رہ کر پڑھی ہے ناجانے کیسی ہوگی لڑکوں سے یاریاں ہونگی اسکی ماں بڑی فضول خرچ بیبی تھی ساری عمر جو کمایا کھا گئی یہ بھی اسکی بیٹی ہے پینٹ شرٹ پہنتی ہے کالر والی مردانہ قمیضیں پہنتی ہے ناک میں کوکا پہن کر پوری کنجری بنی ہوئی ہے، تیری پھپھی کی بیٹی اپنی ماں پر گئی ہے ساری۔ تمہاری بہن بتا رہی تھی اس نے نیٹ (فیس بک) پر اپنی فوٹو لگا رکھی ہے کوئی عزت دار ایسا کرتا ہے بھلا؟

تمہیں تو کسی اچھے کھاتے پیتے گھر بیاہوں گی وہ پکھے ننگے دیں گے کیا بیٹی کو ساری عمر جو کمایا کھا گئے اور سوٹ بوٹ پہن لیے تیری پھپھی کی قبر میں ٹانگیں ہیں، اب بھی بیٹیوں کے ساتھ کپڑے لیتی ہے بڈھی کنجری تیل دا اجاڑہ مجھے تو ایک نظر اچھی نہیں لگتی۔ کچھ بنایا ہی نہیں اسنے بچوں کے لیے تمہارے پھوپھا نے کمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عارف ماں سے کہتا ہے وہ کنجری ہے یا کچھ اور بہو آپکی وہی ہوگی۔ جب بھی ہوئی یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ آپ نے رشتہ نہیں پوچھنا تو میں واپس جا رہا ہوں دوبئی۔ ماں بیٹے کی ضد سے مجبور ہو کر گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کی خاطر عارف کے ابو اور ایک بہن کے ساتھ رشتہ پوچھنے نند کے گھر جاتی ہے۔

وہ لوگ یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں۔ آپکا بہت شکریہ آپ نے اس قابل سمجھا مگر ہم کسی پڑھے لکھے لڑکے سے بیٹی کی شادی کریں گے آپکا عارف پڑھا ہوتا تو گھر کا بچہ تھا ہم ضرور ہاں کرتے۔ عارف کی ماں دل ہی دل میں خوش اور بظاہر روتے دھوتے ہوئے نند کے گھر سے نکلتی ہے اور انہیں راستے میں گالیاں بد دعائیں دیتی واپس آجاتی ہے کہ منہ پر ہی جواب دے دیا وقت بھی مانگا سوچنے کا۔ عارف فیصل آباد جا کر عمارہ سے خود بات کرنے کا ارادہ کرتا ہے۔ اپنی بہن سے اسکا نمبر لیکر اسے کال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اسے ملنا چاہتا ہے وہ کہتی ہے آجاؤ جب مرضی۔

دو دن بعد عارف جامعہ کی ایک لیب میں عمارہ کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے۔ وہ اسکے لیے انار کا فریش جوس کینٹین سے لے کر آتی ہے اور کچھ دیر بعد اسکا کلاس فیلو ندیم دو بریانی کے پیکٹ دے جاتا ہے۔ عارف کھانا کھا کر صاف لفظوں میں عمارہ سے کہتا ہے کہ وہ اسے بچپن سے چاہتا ہے اور شادی کرنا چاہتا ہے۔ عمارہ کہتی ہے دیکھو عارف میں تمہارے جذبات کی بہت قدر کرتی ہوں تم میرے لیے بے حد قابل احترام ہو اچھے لڑکے ہو کہ مجھے بچپن سے پیار کرتے اور دل میں یہ بات رکھی۔ کوئی غلط راہ نہیں اختیار کی برسر روزگار ہو کر شادی کی بات کی وہ بھی بذریعہ والدین۔ مگر ہم ایکدوسرے سے بہت مختلف ہیں یہ اختلاف کبھی بھی کم نہ ہوپائے گا یہ شادی نہیں ہوسکتی۔

عارف پوچھتا ہے کہ آخر کیا ایسے اختلاف ہیں، جو ختم نہیں ہوسکتے؟ عمارہ اسے کہتی ہے کہ کزن میرج سے بچوں میں کوئی معذوری ہونے کے امکانات ہوتے ہیں، بچے ٹھیک بھی ہوں تو انکے ذہن ایورج ہوتے ہیں۔ جبکہ رشتہ داروں سے باہر شادی کرنے پر بچے ہر طرح سے صحت مند و ذہین پیدا ہوتے ہیں کزن میرج سے بچنا ہی چاہیے۔

عمارہ اسکا دل برا نہیں کرنا چاہتی اور ایسی ہی کچھ اور باتیں کرتی ہے، جب وہ کسی بات پر مطمئن نہیں ہوتا تو وہ کہتی ہے اچھا یار اب تم اختلاف گنو۔ پہلے یہ بتاؤ عارف تم نے جو ڈیڑھ کروڑ کی زمین خریدی اس میں سے کچھ پیسے لگا کر اچھا گھر کیوں نہ بنایا؟ گھر تو بنیادی ضرورت ہے اور جس گھر میں تم لوگ رہتے وہ جانوروں کے باڑے سے بھی بدتر ہے اور آج کس کے گھر جوان بیٹوں بیٹیوں کے لیے اکلوتے واش روم کو گندہ سا پردہ لگا ہے ہوا آئے اور اندر بیٹھا بندہ؟ بیس سال سے پردہ لگا دیکھ رہی ہوں میں تمہارے گھر والوں کو اتنی توفیق نہیں ایک دروازہ ہی لگوا دیں اور 8 ایکڑ زمین لے لی۔

تم نے آج تک باٹا سروس کے سوا کہیں سے جوتا لیا؟ یہ تو یار کھوتی برانڈ ہیں دوبئی رہتے ہو اپنا جوتا تو دیکھو اپنے کپڑے دیکھو اپنی پیپا بائیک دیکھو، جس پر آئے تھے، ہمارے گھر۔ میرا اللہ گواہ ہے وہ دلوں کے بھید جانتا میں تمہیں کم تر نہیں سمجھ رہی بلکہ یہ بتا رہی ہوں جو چیزیں تمہاری یا تمہارے گھر والوں کے لیے عام ہیں فضول ہیں وہی ہمارے گھر میں بہت خاص ہیں۔ تم لوگ چھوٹا گوشت سال میں کتنی بار پکاتے ہو؟ عارف بولا عید کی عید اور قربانی جو تم ایک دیتے کیا چار کمانے والوں پر ایک قربانی واجب ہوتی؟ عارف تمہاری امی بہنیں 5 سو سے ایک ہزار کی رینج میں جوتا یا سوٹ لیتی ہیں اتنے میں تو ایک برگر آتا یار اچھا۔ اور ایسا بھی نہیں تم لوگ غریب ہو۔ بتاؤ چاروں بھائی اور ماموں جی کل ملا کر ماہانہ کتنے پیسے کما لیتے ہو؟ یہی کوئی چھ سے آٹھ لاکھ ماہانہ عارف نے جواب دیا۔

اور ہمارے گھر کی کل آمدنی ایک لاکھ ہے۔ ہمارا گھر کھان پین اور رہن سہن پہناوا دیکھو اور اپنا۔ اچھا آخری بار کوئی ڈنر یا ٹی سیٹ کب لیا ہوگا؟ عارف بولا شاید کبھی بھی نہیں ایگزیکٹلی مامی کی شادی کے کپ چائے کے لیے استعمال ہوتے یا کچھ سستی سے کپ پلیٹیں وہ بھڑی شاہ رحمان کے میلے سے لائی تھیں۔ اور کچن تمہارا؟ اس میں میرے جیسی لڑکی کھانا بنا سکتی ہے؟

عارف بولا اچھا گھر نیا بنوا لیں جیسا تم کہو نقشہ بھی تم ہی بنوا دو بلکل ویسا گھر چھ ماہ میں بنوا دونگا تم ہاں کر دو بس پلیز اور جو تم جیسا کہوگی ویسا ہی ہوگا سب کچھ بدل دوں گا میں۔

جاری۔۔

Check Also

Maa Ji

By Naveed Khalid Tarar