Alvida Dosto
الوداع دوستو
غلطی ہو جانا ایک عام بات ہے۔ کسی کے دل سے اتر جانا اور کسی کی نظروں سے گر جانا، ایک یکسر مختلف بات ہے۔ غلطی کی معافی عموماً ممکن ہوا کرتی ہے۔ مل بھی جاتی ہے۔ نہ بھی ملے تب بھی اپنا دل معافی مانگ کر کسی حد پر سکون ہو جاتا کہ اللہ کبھی دل میں رحم ڈالے تو معافی مل جائے گی۔ دل سے اتر جانے یا نظروں میں گر جانے کا کام غلطی سے نہیں ہوتا۔
ایسا خود جان بوجھ کر سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ کہ کسی کو نیچا دکھائیں گے۔ وہ گرے کہ نہ گرے گرانے والے خود اکثر گر جایا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس عمل کو ریورس نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی جو ایک بار دل سے اتر گیا یا نظروں سے گر گیا وہ دوبارہ کچھ بھی کر لے اپنا پرانا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ جب کسی کی نظروں سے کوئی گرتا ہے یا دل سے اترتا ہے۔
اور اسے اس بات کا بالفرض علم ہو جائے تو وہ خود ہی کنارہ کر لے کہ ایسا اچانک نہیں ہوا۔ اس نے خود کیا ہے۔ اب احساس ہونا کسی کام کا نہیں ہے۔ معافی مل بھی جائے عزت کبھی نہیں ملے گی۔ حسد بغض عناد نفرت کینہ وغیرہ جیسے جذبات ہمیں، ان لوگوں کی نظروں میں ایک تنکے سے بھی ہلکا کر دیتے ہیں۔ جو ہماری راہوں میں اپنی آنکھیں بچھانے والے ہوا کرتے ہیں۔
آپ کے الفاظ اتنے اہم نہیں ہوتے۔ آپ کا لہجہ اور آپکی آنکھیں سب کچھ سچ بتا رہی ہوتی ہیں۔ کہ آپ کسی کی عزت کرتے ہیں یا حسد کی آگ میں جلتے ہوئے منافقت کر رہے ہیں۔ کسی کے بارے میں جو بھی جذبات رکھے جائیں۔ وہ اسے محسوس ہو جاتے ہیں۔ جذبات کی ایک خاص فریکوئنسی ہوتی ہے۔ اور کسی کے پیچھے ہم جو بھی کہتے ہیں ناں۔ یاد رکھیں وہ اس تک ایک دن ضرور جانا ہے۔
اگر تو اسکے بعد اسکا سامنا کر سکتے ہوں تو جو مرضی کہا کریں۔ ورنہ وہی کہیں جو اسکے سامنے بھی کہنا پڑے تو شرمندگی نہ ہو۔ بڑے ہی قریبی چند لوگ حسد و بغض کی آگ میں جل کر ایک ساتھ آج ایک نیچ حرکت کرنے پر دل سے نکلے اور نظروں سے گر گئے ہیں۔ اور مجھے انکے جانے کا بہت دکھ ہے۔ یوں تو لوگ زندگی میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ مگر جن کے ساتھ اچھا وقت گزرا ہو انکو الوداع کرنا مشکل ہوتا ہے۔ الوداع دوستو