Aisa Nahi Hota
ایسا نہیں ہوتا
ایسا نہیں ہوتا کہ ہماری زندگی میں ہمیشہ سب اچھا ہی ہو۔ ہر جگہ ہم نے کامیابی ہی سمیٹی ہو۔ کئی ناکامیاں اور ہمارے خود لیے ہوئے غلط فیصلے بھی اس بات کو طے کرنے میں مددگار ہوتے ہیں کہ آج ہم کتنے کامیاب، مضبوط اور طاقتور ہیں۔
کالج کے دور میں انٹر میں میری مطالعہ پاکستان اور ہیلتھ اینڈ فزیکل ایجوکیشن میں سپلی آ گئی تھی۔ سینما جاکر اور گھر رکھے پی تھری ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پر فلمیں دیکھنے کے سوا مجھے کوئی اور کام نہیں ہوتا تھا۔ بی اے میں انگلش میں فیل اور مجموعی نمبر بہت کم تھے۔ انٹر کو تو سپلی منٹری میں پاس کر کیا نمبر 52 فیصد بنے۔ بی اے مکمل رپیٹ کرنا پڑا تھا۔ اب کی بار بی اے میں 72 فیصد نمبر آئے۔
پھر ماسٹرز 80 فیصد اور ایم فل 89 فیصد نمبروں سے ریگولر پڑھ کر پاس کیا۔
گورنمنٹ جاب میں آنے سے پہلے میں ایک نجی کالج میں وائس پرنسپل تھا۔ جیسے ہی پبلک سروس کمیشن کی فائنل لسٹ جاری ہوئی۔ میں نے اس جاب سے ریزائن کر دیا اور میری شادی بھی ہوگئی۔ ان سیٹوں پر عدالت سے اسٹے آگیا اور چودہ پندرہ ماہ تک ہماری پوسٹنگ رکی رہی۔ چند ماہ گھر رہنے کے بعد مجھے یو ایم ٹی ایک پارٹ ٹائم جاب کرکے اپنی پاکٹ منی چلانا پڑی کہ اس سے بہت عرصہ پہلے ابو جی سے خرچ لینا چھوڑ چکا تھا۔ میرے سابقہ سسرال نے کہنا شروع کر دیا کہ اسکی جاب ہوئی ہی نہیں ہمارے ساتھ جاب کا جھوٹ بولا گیا۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ میری پہلی شادی بھی ناکام ہوگئی اور تھانہ کچہری شروع ہوگیا اور چند ماہ پہلے سکیل سترہ ملنے کے بعد شادی کرنے والے ایک پراعتماد ایم فل ڈگری ہولڈر نوجوان کی طلاق ہوچکی تھی۔ کہ اسکی جاب رسک میں تھی معلوم نہیں ملتی بھی ہے یا نہیں۔
اس ملازمت کو اس سال میں نے خود الوداع کہہ دیا اور وہ شادی تو تب ہی ختم ہوگئی تھی۔ زندگی تو چلتی ہی رہتی ہے کوئی بھی ناکامی اور نقصان مستقل نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی آج کی کامیابیوں کے ساتھ اپنی ماضی میں ملی ناکامیوں کا بھی وارث بننا چاہئیے اور شکوے شکائیتیں چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہئیے۔ ہمیں کسی خاص لمحے یا حادثے میں خود کو قید کرکے کسی بھی جگہ کبھی بھی رکنا نہیں چاہئیے۔ سفر جاری رہے تو رائیگانی کا احساس وقت کے ساتھ کم ہوکر کبھی کبھار بلکل ختم ہوجاتا ہے۔ مسئلہ وہاں خراب ہوتا ہے جہاں ہم مستقل رک جاتے ہیں اور خود ہی ہار مان لیتے ہیں۔