Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Agar Simt Durust Kar Lein

Agar Simt Durust Kar Lein

اگر سمت درست کر لیں

ایک اسکول ایسا ہونا چاہئیے کو موجودہ لوکل اور عالمی مارکیٹ کی ضروریات اور مطلوبہ اسکلز کے مطابق تعلیم دے۔ اس آئیڈیا کے اوپر ایک اجلاس بلایا جاتا ہے کہ ایک صاحب ایسا سکول اپنے علاقے میں بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ علاقے بھر کے نامور ماہرین تعلیم، پرانے اور قابل ترین سکول ٹیچرز، ہیڈ ماسٹرز، پروفیسرز کو اس اجلاس میں دعوت دی جاتی ہے۔ دعوت نامے کے ساتھ ان سے ضرور آنے کی درخواست کی جاتی ہے کہ اپنے علم و فہم اور تجربے کی بنیاد پر ایسی تجاویز نوٹ کروائیے جن کی روشنی میں اس سکول کی بنیاد رکھی جائے۔

سب سے پہلی بات کوئی ایک بندہ بھی دیے گیے وقت پر وہاں نہیں پہنچتا۔ سب کے سب لیٹ۔ یہ ماہرین تعلیم اور قوم کے معمار تھے یا ابھی ہیں۔

دوسری بات سب کو کہا جاتا ہے لوگ زیادہ ہیں آپ آئے بھی لیٹ ہیں اب وقت زیادہ نہیں تو کوئی بھی پانچ منٹ سے زیادہ نہ بولے۔ کوئی ایک دو کو چھوڑ کر کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے پانچ منٹ والی بات کو بھی مانا ہو۔ اشارے کرکے کچھ لوگوں کو چپ کروایا گیا بھائی بس کرو اب۔

تیسری اور آخرئی بات اور سب کچھ کہا گیا، حکومتوں کو الزام دیے گئے، پرائیویٹ اسکولز کے بزنس ماڈل کو ڈسکس کیا گیا، تعلیم اور دفاع کے بجٹ کا موازنے کیا گیا۔ دنیا جہان کی فلاسفی، جنرل نالج، تعلیمی اصلاحات اور علوم و فنون کے دریا بہائے گیے کہ ہمیں بڑا کچھ معلوم ہے۔

مگر وہ بات کسی ایک بندے نے نہیں کی۔ جو وہاں کرنے کی تھی۔ کہ اسکول بنانا ہے کہاں سے شروع کریں۔ اس کا اسٹرکچر، مضامین اور ٹیچر ٹریننگ میں کیا ہو؟ ویژن اور مشن اسٹیٹمنٹ کیا ہو؟ موجودہ ایکسپائر تعلیمی نصاب کو کیسے کار آمد نصاب سے بدلا جائے؟ جدید اسکولنگ کن خطوط پر اسطوار ہو؟

یہ چیز اور رویہ ہمیں ہماری اجتماعی زندگیوں میں بھی ہر روز نظر آتا ہے۔ جو کام کرنے کے ہیں وہ کرنے نہیں اور فضولیات میں اپنی توانائیاں ضائع کرنی ہیں۔ ایسی گفتگو کرنی ہے ان مسائل کی نشاندہی کرنی ہے جو ہم نے نہ تو پیدا کیے اور نہ ہی ان کو ہم حل کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو بلکل غیر ضروری مسائل میں الجھا کر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے اہل خانہ کی مشکلات کو مزید طول دیتے جا رہے ہیں۔ وہ مشکلات مالی ہوں، فکری ہوں، سماجی تعامل سے متعلق ہوں یا اگلی نسل کی درست آبیاری کے متعلق۔

اگر ہم اپنی خود کی اپنے بہن بھائیوں کی بچوں کی سمت درست کر لیں۔ تو انفرادی مسائل وہ جس بھی نوعیت کے ہوں، بہت جلد ختم ہو جائیں گے اور اگر ایسا ہر کوئی کرنے لگ جائے تو اجتماعی سطح پر بھی شعور اجاگر ہوگا۔ صرف کہتے رہنا ایسا کرو ویسا کرنا چاہئیے، حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرانا کیا ہمارے مسائل کا حل ہو سکتا ہے؟ کب سے ایسا سوچ رہے ہیں؟ کیا فرق پڑا ہے؟ ایسا ہی کرتے رہنے سے کبھی بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam