Zinda Kitab Se Mukalma
زندہ کتاب سے مکالمہ

کہتے ہیں کہ ادب کی محفلیں محض لفظوں کا جادو نہیں ہوتیں یہ اصل میں ان تخلیق کاروں کی زندگی کے وہ اوراق ہوتے ہیں جو قاری کے سامنے کھلتے ہیں، کتابیں اور کالم ہمیں علم دیتے ہیں لیکن ادیب اور کالم نگار اپنی موجودگی سے ان کتابوں اور کالموں زندہ بنا دیتے ہیں۔ گذشتہ روز پنجاب کونسل آف آرٹس بہاولپور کے زیر اہتمام اور بہاولپور آرٹس اینڈ رائٹرزفورم کے تعاون سے "زندہ کتاب" یعنی ادیبوں کے ساتھ ایک شام اور مکالمہ کے نام سے ایک ادبی اور فکری خوشگوار تقریب منعقد کی گئی جس میں مقامی کالم نگاروں، ادیبوں، شاعروں، محققین اور صحافیوں نے شرکت کی اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر پکار سہیل کامران میتلا نے بھی خصوصی شرکت فرمائی۔
اس پہلے ہی پروگرام میں مجھ ناچیز کو یہ سعادت بخشی گئی کہ میں اپنے اور اپنی کالم نگاری کے بارے گفتگو ہو اور میں ان معزز شرکاء کے سوالات کا جواب دے سکوں۔ میں تہہ دل سے اس تنظیم اور پنجاب آرٹس کونسل بہاولپور کے ساتھ ساتھ تمام اہل ادب دوستوں کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اس فورم پر ناصرف مدعو کیا بلکہ مجھے اور میرے کالمز کو پذیرائی اور عزت بخشی۔ یہ بڑا اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کے آغاز کا سہرا راجہ شفقت صاحب کے سر ہے جو خود ایک اچھے کالم نگار، شاعر، صحافی اور بڑے اچھے اینکر بھی ہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں یہ ادبی فورم اپنا علمی وادبی شخصیت سے متعارف کرانے اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا یہ سلسلہ جاری رکھے گا۔ کیونکہ بےشمار زندہ کتابیں ان کی توجہ کی منتظر ہیں۔
ایک شام ایسے ادیبوں کے ساتھ گزارنے کا مطلب سامعین اور قاری کو براہ راست ان ادیبوں اور دانشوروں کے خیالات، تجربات اور ادبی جہان سے روشناس کرانا اور مطالعہ کا ذوق بڑھانا ہوتا ہے۔ ایسی نشست کتابوں اور کالموں کو کاغذ سے نکال کر "زندہ" شکل میں پیش کرنے جیسی ہوتی ہے اور مقصد نئی نسل کو کتاب اور ادیب سے جوڑنا اور ادیبوں کی خدمات کو زندہ کتاب کے طور پر یاد رکھنا ہوتا ہے۔
گذشتہ کی اس تقریب میں اینکر اور شرکا کی جانب سے جہاں میرے کالمز کے اسلوب، موضوعات اور سماجی اثرات پر روشنی ڈالی گئی وہیں ان کی جانب سے مختلف سوالات میں سے دو سوال بڑے اہم تھے پہلا یہ کہ آج کے اس مصروف دور میں آپکے کالم گو بڑے اصلاحی اور سبق آموز ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے پاس پڑھنے کا وقت نہیں ہے۔ اس لیےآپکے اتنے لمبے چوڑے کالم اب کون پڑھتا ہے؟ اور دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ ہر روز ایک نیا کالم کیسے لکھ لیتے ہیں اور ہر روز نیا موضوع کیسے تلاش کر لیتے ہیں؟
پہلے سوال پر مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی ایک کہانی یاد آگئی کہ سمندر کے کنارے ایک شخص چہل قدمی کرنے جاتا تھا۔ ایک دن اس نے وہاں ایک شخص کو دیکھا کہ وه شخص نیچے جھکتا اور کوئی چیز اٹھاتا اور سمندر میں پھینکتا جاتا۔۔ وه شخص اسکے ذرا قریب ہوا تو دیکھا کہ ہزاروں مچھلیاں کنارے پہ پڑی تڑپ رہی ہیں۔ شاید کسی بڑی سی تازه ترین موج یا لہر نے انہیں سمندر سے نکال کر ساحل پر لا پٹخا تھا اور وه شخص ان مچھلیوں کو سمندر میں واپس پھینکنے کی کوشش کر رھا تھا تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔۔ اس شخص کو اس کی بیوقوفی پر ہنسی آرہی تھی اس نے ہنستے ہوے اس شخص سے کہا بھلا تم ان ہزاروں مچھلیوں میں سے کتنی بچا پاو گے؟
وه شخص جھکا اور ایک تڑپتی ہوئی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال کر پھینک دیا اور پھر سکون سے دوسرے شخص سے بولا۔۔ دیکھو اس مچھلی کو فرق پڑا؟ ہماری چھوٹی سی کاوش سے بھلے مجموعی حالات میں تبدیلی نہ آے لیکن وہ کسی ایک کے لئے تو فائده مند ضرور ہوسکتی ہے۔۔ اپنی بساط کے مطابق اچھائی کرتے رہیں اور کبھی اس فکر میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ کے اس عمل سے معاشرے میں کیا تبدیلی آتی ہے؟ ایسے ہی کالم نگار یا کہانی نگار کا کام پیغام دینا ہوتا ہے بلکل ایسے ہی جیسے کسی کھڑے پانی میں پتھر پھینک دیا جائے اور اس سے پھیلنے والی لہروں کے دائرے دور تک پھیل جائیں جوں ہی پانی ساکت ہوتا ہے وہ دوسرا پتھر پھینک دیتا ہے اور پانی کی ہل جل ہوتی رہتی ہے ایسے ہی کالم نگار اور لکھاری معاشرے کے کھڑے پانی میں یہ تحریر کے پتھر پھینکتے رہتے ہیں اگر ایک شخص بھی پڑھ لے یا دیکھ اور سمجھ لے تو اس لکھاری کی طویل محنت کامیاب ہو جاتی ہے۔
کوئی پڑھے یا نہ پڑھے لکھاری اپنا فرض ادا کرتا رہے گا۔ میں کبھی کبھی کپڑے کی دکان پر جاتا ہوں تو وہاں بےشمار رنگوں کے کپڑے سجے ہوتے ہیں اور میں سوچتا ہوں کہ ان سب رنگوں کو پسند کرنے والے موجود ہیں اور یہ بازار میں بک بھی رہا ہے ہر رنگ کی چاہت ہر ذہن اور سوچ کے مطابق ہوتی ہے اس لیے ہر رنگ بکتا ہے۔ ایسے ہی یقیناََ کالم پڑھنے اور لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی موجود ہے جو ناصرف پڑھتے ہیں بلکہ ان کا تبصرہ اور تجزیہ بھی سامنے آتا ہے۔ اگر کبھی میرے کالم میں دیر ہوجاے تو خریت بھی دریافت کرتے ہیں کہ خریت ہے آپ کا کالم نہیں آرہا؟ کچھ قاری یقیناََ اختصاریہ پسند کرتے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کی تشفی تھوڑے لفظوں اور مختصر جملوں کی تحریر سے نہیں ہو پاتی۔
دوسرے سوال پر مجھے ایک بڑے بزرگ وکیل کی بات یاد گئی مجھے ایک مرتبہ کسی کیس کے سلسلے میں ان کے پاس جانا پڑا تو انہوں نے فیس لینے سے انکار کردیا اور کہنے لگے برخوردار میرے پاس بڑی سفارش لے کر آے ہو میں اس کیس کی فیس تو نہیں لونگا لیکن اگر تمہارے کیس نے مزید انڈے بچے دئیے تو ان کی فیس ضرور لونگا۔ میں نے حیرت سے پوچھا انکل یہ کیس انڈے بچے بھی دیتے ہیں؟ تو کہنے لگے جی ہاں، اکثر کیسوں میں سے کئی نئے کیس نکل آتے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا چند دن بعد ان کا فون آیا کہ بھائی آجاو تمہارے کیس نے ایک بچہ دیا ہے یعنی مخالف فریق نے بھی جوابی دعویٰ کردیا ہے اور اب اس کے لیے نیا وکالت نامہ درکار ہے۔
ایسے ہی میرا ہر کالم چھپتے ہی لوگوں کی تنقید، تجویذ اور تبصرہ سامنے آتا ہے اور مجھے ان کے تجزیے سے ہی ایک نیا موضوع مل جاتا ہے۔ ہر نئی خبر، ہر حادثہ، ہر کارنامہ اپنے اندر ایک موضوع رکھتا ہے۔ روزمرہ کا مشاہدہ اور آپکے محسوس کرنے کی صلاحیت بھی آپکو نئے موضوع فراہم کردیتی ہے۔ اس لیے مجھے کبھی موضوع کی قلت محسوس نہیں ہوئی۔ ہر روز ایک نیا چیلنج سامنے ہوتا ہے۔ میں روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑے سماجی اور اخلاقی تناظر میں بیان کر دینا اور کسی تحریر کو محض خبر یا تبصرہ نہیں بلکہ سماج کی اصلاح کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔
ایک قاری نے سوال کیا کہ "کالم نگاری میں سب سے مشکل کیا ہوتا ہے؟" اس پر میں نے جواب دیا کہ "مشکل یہ ہے کہ سچ لکھتے وقت قاری کا دل بھی نہ دکھے اور سماج کا چہرہ بھی آئینے کی طرح صاف نظر آئے؟ یہ نشست دراصل اس بات کا ثبوت تھی کہ ایک اچھا کالم نگار معاشرے کا مبصر نہیں بلکہ اس کا معالج ہوتا ہے اور کالم نگاری ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ لفظ لکھے نہیں جاتے بلکہ جئیے بھی جاتے ہیں۔ یہ خوبصورت، یادگار اور خوشگوارر تقریب بانسری کی مدبھری دھنوں پر اختتام پذیر ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ بہاولپور آرٹس اینڈ رائٹرزفورم اور پنجاب آرٹس کونسل بہاولپور کے زیر اہتمام یہ سلسلہ جاری رہے گا اور پرورش لوح قلم جاری رہے گی۔

