Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Zehni Sehat Ka Aalmi Din Aur Hamari Zimmedarian

Zehni Sehat Ka Aalmi Din Aur Hamari Zimmedarian

ذہنی صحت کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں

دس اکتوبر کو دنیا بھر میں ذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز 1992ء میں ورلڈ فیڈریشن فار مینٹل ہیلتھ نے کیا تھا مگر 1994، سے ہر سال ایک مرکزی موضوع مقرر کیا جانے لگا جو کسی خاص ذہنی صحت کے چیلنج یا نقطہ کو اجاگر کرتا ہے۔ اس دن کا مقصد یہ ہے کہ انسانی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ اپنی دماغی و جذباتی تندرستی کو بھی سمجھنے، سنبھالنے اور بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ مگر افسوس یہ کہ ہمارے موجودہ معاشرئے میں ذہنی بیماری کو اب بھی ایک عیب سمجھا جاتا ہے یا پھر جن بھوت یا آسیب کا سایہ جبکہ بہت سے لوگ اسے جادو ٹونہ یا تعویز کا اثر سمجھتے ہیں۔

ہماری یہی سوچ ہمیں علاج کی بجائے عملیات کی جانب راغب کرتی ہے۔ حالانکہ یہ ایک طبی حقیقت ہے اور قابل علاج ہوتی ہے۔ جس کے لیے علاج تربیت اور توجہ دونوں درکار ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ دن ایک جدید اصطلاح کا نمائندہ ہے مگر ہم غور کریں تو یہ دراصل انسانی روح، عقل اور احساس کے توازن کا دن ہے۔ اسلام جس دین فطرت کی تعلیم دیتا ہے وہ اسی توازن کا نام ہے یعنی جسم، روح اور ذہن کی یکساں نگہداشت کی تربیت دیتا ہے۔ ذہنی صحت صرف بیماری سے نجات ہی نہیں بلکہ اندرونی سکون، جذباتی ہم آہنگی، مثبت سوچ، صبر اور قناعت کا بھی نام ہے۔

اللہ تعالیٰ نے "سورۃ القریش" دنیا کی دو عفریت سے امان دینے کا ذکر فرمایا ہے جن میں بھوک کے بعد سب سے بڑی نعمت "خوف سے پناہ دینا" کا بہت بڑے احسان کا ذکر فرمایا ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ بھوک کے بعد سب سے خطرناک اور خوفناک چیز "خوف" یعنی ڈئپریشن ہوتی ہے۔

آج کے انسان نے مادی ترقی کے زینے تو طے کر لیے ہیں مگر دل کے زخموں کامرہم کہیں کھو دیا ہے۔ سوشل میڈیا کی چمک، دولت کی دوڑ اور موازنوں کے اس پر آشوب دور میں انسان اندر سے ٹوٹتا جارہا ہے۔ آج مہنگائی، بےروزگاری، سماجی دباؤ اور ٹوٹتے رشتے عام ہیں۔ ذہنی دباؤ یعنی (اسڑیس) اور خوف یعنی (ڈئپریشن) ایک خاموش وبا بن چکا ہے ہر دوسرا شخص یا تو خود کسی ذہنی کشمکش کا شکار ہے یا پھر کسی قریبی عزیز کو اس کیفیت میں مبتلا دیکھ رہا ہے۔ جس کی باعث منشیات کا عارضی استعمال کرکے وقتی سکون کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں پینتالیس کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ جس میں سے سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماری ڈئپریشن اور شیزوفرینیا ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں چار میں سے ایک شخص کو کچھ حد تک ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضرورت ہے جبکہ دنیا کا ہر ساتواں کم عمر فرد کسی نہ کای ذہنی مسئلے کا شکار ہے جن میں اعصابی خلل، ذہنی دباو نمائیاں ہیں۔ جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں پچاسی فیصد تک افراد کو دماغی امراض کے کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ وہاں دماغی بیماری کو شرمندگی اور بدنامی سمجھا جاتا ہے۔

ایک عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق یورپ میں طبی عملے کو ذہنی صحت کے بحران کا سامنا ہے جہاں ہر دس میں سے ایک ڈاکٹر یا نرس خودکشی کے خیلالات شکار ہے۔ جس کے اثرات مریضوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ یورپ میں اسی وجہ سے سیکالوجی کے ماہرین کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ اس دن منانے کا مقصد ذہنی بیماریوں کے بارے میں شعور بیدار کرنا اور مثبت طرز فکر کا فروغ بھی ہوتا ہے کہ اپنے پیاروں کی ذہنی صحت کا خیال کیسے رکھیں؟

آج نشے یا لت نے ذہنی صحت کا بہت بڑا بحران پیدا کردیا ہے جو اسٹریس کی بڑی وجہ بن کر سامنے آرہی ہے۔ دنیا بھر میں جنگیں، سیلاب اور وبائی امراض سمیت دیگر آفات کے ساتھ انسان سے جڑی وہ عادتیں جو ان کے لیے نشہ یا لت کی وجہ بن گئی ہیں ذہنی صحت کے لیے اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے یہ عالمی دن ہمیں ہماری ذمہ داریوں کا احساس بھی دلاتا ہے۔

موجودہ سال کا موضوع "آفات اور ہنگامی حالات میں ذہنی صحت، سہولیات اور خدمات تک رسائی" ہے۔ اس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ بحران، جنگ، قدرتی آفات اور وبائی امراض یا دیگر ہنگامی صورتحال میں ذہنی صحت اور نفسیاتی معاونت کی ضرورت کو تسلیم کیا جائے اور اس بات کی نشاندہی ہو کہ جب حالات خراب ہوں تو صرف جسمانی ضروریات ہی نہیں بلکہ ذہنی معاونت بھی ناگزیر ہوتی ہے۔

بنیادی سول یہ ہےکہ ذہنی صحت کا تحفظ آخر کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا صرف حکومت کی ہی تمام تر ذمہ داری ہے؟ تو ہرگز نہیں ذہنی صحت کے تحفظ میں خاندان، تعلیمی ادارے، میڈیا اور مذہبی رہنماوں کے ساتھ ساتھ ہم سب کا انفرادی اور اجتماعی کردار اہم ہوتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ تواس کے لیے ہمیں خاندان میں گفتگو کا دروازہ کھلا رکھنا ہوگا تاکہ اولاد، والدین یا شریک حیات اپنے دل کی بات کہہ سکیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ طلبہ کی کارکردگی سے زیادہ ان کے ذہنی اطمینان کو اہمیت دین ان کی صحبت اور مصروفیات پر نظر رکھیں۔

میڈیا اگر خودکشی یا ذہنی بیماری پر ذمہ دارانہ انداز میں رپورٹنگ کرے تو معاشرے میں ہمدردی اور سمجھ بوجھ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہسپتالوں میں جسمانی ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ ماہر نفسیات اور کونسلنگ سینٹرز کی سہولت عام کرئے تاکہ علاج محج دولت مند طبقے تک محدود نہ رہے بلکہ عام آدمی کو تشخیص اور علاج کی سہولت میسر ہو سکے۔ روحانیت اور مذہب ذہنی سکون کے بنیادی ذرائع ہیں۔ دعا، عبادت، قرآن فہمی، ذکر اور صبر و شکر یہ سب وہ قوتیں ہیں جو انسان کو کو بےیقینی اور مایوسی کے اندھیروں سے نکال سکتی ہیں۔ لیکن مذہب کو علاج کا متبادل نہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک ماہر نفسیات کے پاس جانا ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ شعور کی پختگی ہوتی ہے۔

اپنے اردگر کے افراد کے رویے میں تبدیلی محسوس کریں تو ان سے بات کریں انہیں تنہا ہرگز نہ چھوڑیں۔ روزآنہ تھوڑا وقت خود کے لیے ضرور رکھیں۔ مطالعہ، سیر دعا یا خاموشی کے لمحے روزمرہ معمول میں شامل کریں۔ دوستوں سے گپ شپ اور ہنسی مذاق کے لیے وقت نکالیں۔ بچوں کو سکھائیں کی جذبات دبانے نہیں بلکہ سمجھنے اور بیان کرنے کی چیز ہوتے ہیں۔ بچوں کی مصرفیات، صحبت اور ان کی ہر طرح کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ منشیات اور نشے سے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر مزید سختی ہونی چاہیے۔ خصوصی طور پر تعلیمی اداروں کی نگرانی ضروری ہے۔ موبائل کی بجائے بچوں کو وقت دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت وہ اسکرین سے دوری اختیار کرسکیں۔

ذہنی صحت ایک نعمت ہے جسے نظر انداز کرنا دراصل اپنی روح کو بھلانا ہے۔ اسلام ہمیں صرف عبادت نہیں سکھاتا بلکہ سکون قلب، صبر، ایثار اور محبت کا درس بھی دیتا ہے۔ اگر ہم اپنے گھروں، اداروں اور دلوں میں ہمدردی اور سننے کا حوصلہ پیدا کرلیں تو شاید کوئی مایوس شخص زندگی کی طرف لوٹ آئے۔ یاد رکھیں صحت جسمانی ہو یا ذہنی ایک ایسا چراغ ہے جو بجھتا ہے تو زندگی کے باقی تمام رنگ ماند پڑ جاتے ہیں۔

ہماری ذمہ داری ہےکہ ہم خود بھی اپنی ذہنی حالت کا خیام رکھیں اور دوسروں کے دکھوں کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ کبھی کبھی کسی کے "ٹھیک نہ ہونے" پر سب سے بڑا مرہم صرف ایک جملہ ہوتا ہے کہ تم تنہا اور اکیلے نہیں ہو "تمہارا اللہ تمہارے ساتھ ہے اور میں بھی تمہارے ساتھ ہوں"۔

ذہنی صحت کا عالمی دن منانے کے لیے عام آدمی تک یہ پیغام پہنچنا بے حد ضروری ہے کہ ذہنی صحت کا خیال رکھنا جسمانی صحت کے لیے از حد ضروری ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب ہم خود کو ذہنی صحت کا مریض سمجھنے کو عیب اور برائی محسوس نہ کریں۔ کیونکہ اکثر جسمانی بیماریوں کی وجہ ہماری ذہنی بیماریاں ہی ہوتی ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ اگر کسی میں ذہنی صحت سے متعلق کیفیات دیکھیں یا محسوس کریں تو اس کے فوری علاج کو ممکن بنائیں کیونکہ ایک صحت مند دماغ ہی ایک صحت مند جسم کا مالک ہو سکتا ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari