Tijarti Diyanat Dari Aur Hamari Maeeshat
تجارتی دیانت داری اور ہماری معیشت
یہ تجارتی قافلہ جو مکہ سے روانہ ہوا تھا ابھی مطلوبہ شہر سے تھوڑا پیچھے تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ بہت سے اونٹوں پر لدا ہوا سامان تجارت جو کہ کھجوروں اور اناج پر مشتمل تھا بھیگنے لگا۔ بارش سے محفوظ جگہ پر پہنچتے پہنچتے آدھا مال بھیگ چکا تھا۔ تجارتی منڈی میں پہنچ کر تاجروں نے مال اتارنا شروع کیا ان تاجروں میں ایک بہت معصوم چہرے والا انتہائی خوش شکل نوجوان تاجر بھی موجود تھا۔ اس نوجوان تاجر نے جب اپنا مال اتارا تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
اس میں سے خشک کھجوریں اور خشک اناج ایک طرف رکھ دیا اور بھیگی کھجوریں اور اناج دوسری جانب علیحدہ کرکے رکھ دیا۔ جب خرید و فروخت شروع ہوئی تو نوجوان تاجر کے پاس جو خریدار آتا وہ اسے بھیگے مال کا بھاؤ کم بتاتے جب کہ خشک مال کا بھاؤ پورا بتاتے گاہک پوچھتا کہ ایک جیسے مال کا الگ الگ بھاؤ کیوں ہے؟ تو وہ بتاتے کہ مال بھیگنے سے اس کا وزن زیادہ ہوگیا ہے خشک ہونے کے بعد وزن کم ہوجائے گا یہ بددیانتی ہے لوگوں کیلئے یہ نئی بات تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں پوری منڈی میں ان کی دیانتداری کا چرچا ہوگیا عرب میں ایسی مثال کسی نے نہ دیکھی تھی لوگ جوق در جوق معصوم صورت والے تاجر کے گرد جمع ہونے لگے۔ ان کے اخلاق اور دیانت داری کے گرویدہ ہوگئے۔ جی ہاں! وہ معصوم اور خوش شکل نوجوان اور دیانت دار تاجر "ہمارے نبی کریم محمد ﷺ" تھے، سبحان اللہ! اور آپ کا یہ واقعہ اعلان نبوت سے پہلے کا ہے طلوع اسلام کے بعد بھی آپ تجارت فرماتے رہے جو ثابت کرتا ہے کہ تجارت رزق کے حصول کے ساتھ ساتھ ہمارے نبی پاک کی سنت بھی ہے جو بے روزگاری کو دور کرکے لوگوں میں خوشحالی لانے کا باعث بنتی ہے لیکن بنیادی شرط اسلامی اصولوں کے مطابق تجارتی ایمانداری اور دیانت داری ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو پر اسکی رہنمائی کرتا ہے تجارت کے لیے اسلامی اصول نہ صرف بتاے ہیں بلکہ حضور کریم ﷺ کی ذات مبارک نے اس کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا بھی ہے یہی وجہ تھی کہ آپ اعلان نبوت سے قبل ہی صادق اور امین کہلاتے تھے۔ آج جو کوئی بھی کامیاب اور اچھا تاجر بننا چا ہے حضور ﷺ کے بتائے اور کئے گئے اصولوں پر کاربند ہو کر دنیا و آخرت کی تمام تر برکات سے مستفید ہو سکتا ہے۔
اسلام کے فرض بنیادی ارکان کے بعد رزق حلال کی طلب کرنا دوسرا بڑا فرض ہے انسان اپنی روٹی کپڑا اور مکان جیسی بےشمار بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے حصول رزق کی کوشش کرتا ہے۔ جس میں تجارت سب سے اعلیٰ و افضل طریقہ ہے کیونکہ یہ ہمارے پیارے رسول ﷺ اور صحابہ کرام نے اپنایا۔ اسلام تجارت کے لیے کسی خاص ذریعہ معاش اپنانے کا پابند نہیں کرتا لیکن اس بات پر خاص زوردیتا ہے کہ جو بھی پیشہ ہو وہ جائز اور حلال ہو۔ اس لیے حلال روزی کمانے کو اسلام عبادت قرار دیتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ "فرائض (توحید، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج) کے بعد حلال رزق کا حصول بھی ایک فریضہ اور عبادت کی حیثیت رکھتا ہے" آپ ﷺ نے فرمایا کہ "دیانت دارانہ تجارت میں اللہ کی مدد ہے"۔
تجارت کا مقصد صرف منافع کمانا یا رزق کا حصول ہی نہیں ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو رزق کے لیے رزق حاصل کرنے کا ذریعہ بننا بھی ہے اور یہ معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے جہاں انسان اپنے اخلاق، محبت اور خنداں پیشانی سے دوسروں کے دل جیت لیتا ہے۔ اور اسلام کی خوبیوں کو دوسروں تک پہنچا کر تبلیغ دین کا فرض بھی ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایماندارانہ اور دیانتدارانہ طریقے سے تجارت کرنے پر بے حساب رزق دینے کا وعدہ فرمایا ہے اور نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ "سچا اور دیانتدار تاجر (جنت میں) انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا"۔ آپ ﷺ کی قولی وعملی سیرت کی روشنی میں کامیاب تجارت کے پانچ راز ہیں"امانت، صداقت، مہارت، سخاوت، اور ایفاء عہد" اس بنیاد پر تجارت کے بنیادی اوصاف سچ بولنا، امانت ودیانت داری، دھوکہ نہ دینا، جھوٹ نہ بولنا، مال کا عیب نہ چھپانا، ناپ تول میں کمی نہ کرنا، ذخیرہ اندوزی نہ کرنا، ناجائز منافع خوری سے پرہیز، نرمی اور آسانی کا پہلو ملحو ظ رکھنا، جھوٹی قسمیں نہ اٹھانا، شامل ہیں۔
حضرت امام غزالیؒ نے مسلم تاجر کے لیے سات اصول بیان فرمائے ہیں پہلا اصول تجارت کی ابتدا میں حسنِ نیت اور حسنِ عقیدہ ہو۔ پس تاجر تجارت شروع کرنے کے وقت سوال سے بچنے، لوگوں سے حرص وطمع سے رکنے، رزق حلال کے ذریعہ لوگوں سے استغناء، کمائے گئے مال کے ذریعہ دین پر استعانت اور اپنے اہل وعیال کی کفایت وکفالت کے قیام کی نیت کرے۔
دوسرا اصول تاجر اپنی صنعت اور تجارت میں فروضِ کفایہ میں سے ایک فرض کفایہ کے ادا کرنے کی نیت کرے۔ اس لیے کہ صنعتیں اور تجارتیں اگر بالکلیہ چھوڑ دی جائیں تو معیشتیں باطل ا ور تباہ ہوجائیں گی اور اکثر لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔ یعنی تجارت کرنا فرض کفایہ ہے، لہٰذا قوم میں ایک طبقہ ایسا ہونا ضروری ہے، جو تجارت میں لگا رہے، اس لیے کہ اگر سارے ہی لوگ صنعت وتجارت چھوڑ دیں گے تو اکثر لوگ ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جائیں گے، اس لیے اپنی تجارت کی شروعات میں یہ نیت کرے کہ میں ایک فرض کفایہ کو ادا کررہا ہوں۔ اس طرح وہ اجر وثواب کا بھی مستحق ہوجائے گا۔
تیسرا اصول تاجر کو دنیا کا بازار آخرت کے بازار سے نہ روک دے، اور آخرت کے بازار مساجد ہیں اس لیے مناسب ہے کہ دن کے اول حصہ کو بازار میں داخل ہونے کے وقت تک اپنی آخرت کے لیے صرف کرے، اور اس وقت کومسجد میں گزارے اور اوراد و وظائف کو لازم پکڑے۔
چوتھا اصول اور اسی پر اکتفاء نہ کرے، بلکہ بازار میں بھی اللہ سبحانہ وتعالی کے ذکر کو لازم پکڑے اور تسبیح و تہلیل میں مشغول رہے۔ اس لیے کہ بازار میں غافلوں کے درمیان اللہ کا ذکر کرنا افضل ہے۔
پانچواں اصول تاجر بازار اور تجارت پر بہت زیادہ حریص نہ ہو حریص کی علامت یہ ہے کہ سب سے پہلے بازار جائے اور سب سے اخیر میں وہاں سے لوٹے۔ یہ کاروبار میں بہت زیادہ حریص ہونے کی دلیل ہے۔
چھٹا اصول تاجر کے لیے حرام چیزوں کی تجارت سے بچنا لازم اور ضروری ہے لیکن صرف حرام سے اجتناب پر اکتفاء نہ کرے بلکہ مواقعِ شبہات اور شک و تہمت کے مقام سے بھی احتراز کرے اوربچے۔
ساتوں اور آخری اصول تاجر کو چاہیے کہ وہ جن لوگوں سے معاملات کر رہا ہے، ان کے بارے میں ہر وقت یہ خیال رکھے اور فکر مند رہے کہ ان میں سے ہر صاحبِ معاملہ اس سے حساب لے گا کہ خرید وفروخت میں اس نے کسی کا حق مار تو نہیں لیا، لہٰذا تاجر کو اپنے ہر قول اور عمل کے بارے میں حساب و عقاب کے دن (روز محشر) کے لیے جواب تیار رکھناچاہیے۔
اس سے ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص نے ہزاروں آدمیوں سے خرید وفروخت کیا ہے تو ان ہزاروں آدمیوں کا حق اس سے وابستہ ہے، اگر اس نے کسی کے حق میں بھی کچھ کوتاہی اور گڑبڑی کی ہے تو وہ صاحبِ حق اس کی وصولی کے لیے قیامت کے دن اس تاجر خائن کے پاس حاضر ہوجائے گا اور اس سے اپنا حق وصول کرے گا، اس لیے ہر تاجر اپنی تجارت میں اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کو قیامت کے دن ہر حساب لینے والے کا حساب دینا ہوگا۔ (احیاء العلوم)
امام غزالی نے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔ دوسری جانب شیخ سعدیؒ نے فرمایا ہے کہ "تین چیزوں کو بقا نہیں ہے مال کو تجارت کے بغیر علم کو بحث کے بغیر اور ملک کو تدبیر کے بغیر"۔ ہمارے بزرگ کہتے تھے سچ سے برکت آتی ہے اور جھوٹ سے نفرت اور بے برکتی پیدا ہوتی ہے۔
آج ہماری تجارت میں مندرجہ بالا تمام برائیوں کی بھر مار ہے اسلام اور ہمارے نبی پاک کے طرز تجارت سے دوری نے ہماری معیشت تباہ کرکے رکھ دی ہے۔ حضرت امام غزالیؒ کے بتاے گئے زریں اصولوں سے انحراف نے ہماری تجارت کی شکل بگاڑ دی ہے۔ ہیرا پھیری، ملاوٹ، ناپ تول، جھوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو کارباری بددیانتی کی بجاے اپنی کاروبای ہنر مندی اور مہارت سمجھا جاتا ہے اور ملاوٹ کا تو اعتراف بھی دیدہ دلیری سے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مال کی کثرت کے باوجود ہماری زندگی سے خیر وبرکت اُٹھ چکی ہے پورا معاشرہ حقیقی سکون اور قلبی طمانیت سے محروم ہے۔
افسوس تو یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک نے ہماری ان خوبیوں کو اپنا کر اپنی تجارت کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بھی مستحکم کر لیا ہے اور ہمارے تاجر اپنی مصنوعات اپنے ہی ملک میں بیچنے سے قاصر ہیں کونکہ ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق تجارتی بد دیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں جو دنیا میں ہماری مصنوعات کی ناکامی کا باعث بن چکی ہے۔ ہمیں عبادات کے ساتھ ساتھ اپنے روزمرہ کے تجارتی معاملات پر بھی توجہ دینی ہوگی جس کے بغیر ملک کی تجارتی تعمیر نو ممکن ہی نہیں ہے۔