Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Tawaquat Ka Barhta Rujhan, Muasharti Almiya

Tawaquat Ka Barhta Rujhan, Muasharti Almiya

توقعات کا بڑھتا رجحان، معاشرتی المیہ

گذشتہ روز ایک انگریزی کہانی کا ترجمہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جو بڑا اچھا لگا جس میں ایک دوکاندار بتا رہا ہے کہ "ایک رات وہ دکاندار اپنی دکان بند کرنے ہی والا تھا کہ کسی کا ایک پالتو کتا دکان میں گھس آیا۔ اس کے منہ میں ایک تھیلا دبا ہوا تھا۔ اس نے وہ تھیلا دکاندار کی جانب بڑھایا۔ دکاندار سمجھ گیا کہ وہ اسے کیا سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دکاندار نے تھیلا کھولا تو تھیلے میں خریدی جانی والی اشیاء کی فہرست اور رقم موجود تھی۔ دکاندار نے پیسے لیے اور مطلوبہ سامان تھیلے میں رکھ دیا۔ کتے نےفوراً سامان کا تھیلا اٹھایا اور چلا گیا۔ وہ دکاندار کتے کے افعال و حرکات سے بہت حیران ہوا اور یہ جاننے کے لیے کہ اس کا مالک کون ہے اس نے کتے کا پیچھا کرنے کی ٹھانی۔

کتا بس اسٹاپ پر پہنچا اور بس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد ایک بس آئی اور کتا بس میں چڑھ گیا۔ جیسے ہی کنڈکٹر نزدیک آیا، وہ اپنی گردن کا پٹہ دکھانے کے لیے آگے بڑھا جس میں کرایہ اور پتا دونوں ہی موجود تھے۔ کنڈکٹر نے پیسے لیے اور ٹکٹ دوبارہ گلے میں بندھے پٹے میں ڈال دیا۔ جب وہ منزل پر پہنچا تو کتا سامنے کے دروازے کی طرف گیا اور اپنی دم ہلا کر اشارہ کیا کہ وہ نیچے اترنا چاہتا ہے۔ بس جیسے ہی رکی، وہ نیچے اتر گیا۔ دکاندار ابھی تک اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ کتے نے ٹانگوں سے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس کا مالک باہر نکلا اور اسے لاٹھی سے بری طرح مارنے لگا۔

حیران و پریشاں ہو کر دکاندار نے اس سے پوچھا کہ "تم کتے کو کیوں مار رہے ہو؟ جس پر مالک نے جواب دیا، "اس نے میری نیند میں خلل ڈالا، یہ نالائق گھر کی چابیاں اپنے ساتھ بھی تو لے جا سکتا تھا؟ جی ہاں، آج یہی زندگی کی سچائی ہے۔ لوگوں کی آپ سے توقعات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ جس لمحے آپ غلط ہوتے ہیں، وہ آپ کی غلطیاں گنوانے لگتے ہیں۔ ماضی میں کیے گئے تمام اچھے کام بھول جاتے ہیں۔ اک ذرا سی غلطی یکایک بڑھ کر رائی سے پہاڑ بن جاتی ہے۔ شاید یہی اس مادی دنیا کی فطرت ہے۔ انسان ہو یا جانور سب توقعات کی جنگ میں شامل ہوکر اپنی اپنی جگہ اس دوڑ کو جیتنا چاہتے ہیں۔ آج کے انسان نے ہر رشتے پر ایک بند سا باندھ دیا ہے۔ محبت کےاس دریا میں جگہ جگہ بڑی بڑی توقعات کی رکاوٹیں کھڑی ہیں اسی لیے محبتوں کے دریا تیزی سے سوکھتے چلے جارہے ہیں۔

انسانی تعلقات کی خوبصورتی اخلاص، ایثار اور باہمی احترام کے رشتوں سے جڑی ہوتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں یہ خوبصورتی دن بدن ماند پڑتی جا رہی ہے کیونکہ تعلقات خواہ خونی ہوں یا دوستانہ یہ زیادہ تر توقعات کی زنجیروں میں جکڑے نظر آتے ہیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ دوسرا اس کی خواہش کے مطابق چلے اس کے معیار پر پورا اترے اور اس کی ہر ضرورت وطلب کو سمجھے اور پورا کرے۔ یوں یہ حد درجہ توقعات بوجھ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ توقعات محبتوں کو مشروط کردیتی ہیں، دوستی کو ناپ تول کے ترازو میں تولتی ہیں اور رشتوں کو زندگی کے سودوزیاں کے کھاتے میں ڈال دیتی ہیں۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ذرا سی کمی یا کوتاہی بھی دل آزاری کا سبب بنتی ہے، باہمی رشتے کمزور ہوتے ہیں اور نفرت، بے زاری یا بےاعتمادی جنم لیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کے دل میں محبت کا سب سے حسین رنگ تب جھلکتا ہے جب وہ دوسرے کو کچھ دینے کا جذبہ رکھے مگر آج کے دور میں ہر تعلق کی الماری پر ایک "حساب کتاب کا رجسٹر" رکھا ہوا ہے جس میں درج ہوتا ہے کہ میں نے یہ کیا اور اب تمہیں یہ کرنا ہوگا۔ ہر تعلق میں محبت سے زیادہ توقعات کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ والدین اولاد کی کامیابی دیکھ کر کہتے ہیں کہ "یہ تو ہمارا حق تھا ہم نے اتنی محنت کی ہے" دوسری جانب بچے سے توقع رکھتے ہیں کہ بچہ "ڈاکٹر بھی بنے، انجینئر بھی بنے، سرکاری افسر بھی بنے اور ساتھ ساتھ حافظ قرآن بھی ہو " اور بچہ غریب سوچتا ہے کہ "اباجی مجھے انسان رہنے دو روبوٹ نہ بناو " بےشک بچوں پر بچوں جتنا ہی بوجھ ڈالنا ہوتا ہے۔

بیوی خاوند سے اور خاوند بیوی سے ایسی توقعات باندھ لیتا ہے جو ممکن ہی نہ ہوں۔ دوستوں سے بڑی بڑی توقعات باندھ کر ہم اکثر انہیں کھو بھی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دن کھانا کھلا کر فوراََ ہی اس پر دعوت فرض کر دیتے ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ توقعات اگر چھوٹی ہوں تو رشتے سنوار دیتی ہیں مگر جب یہ بڑھ جائٰیں تو نوکیلے کانٹے بن کر چبھنے لگ جاتی ہیں۔ کسی سیانے نے خوب کہا تھا کہ "جب امیدیں اور توقعات پہاڑوں جتنی بلند ہوں تو ٹوٹنے کی آواز دھرتی ہلا دیتی ہے"۔

ہماری توقعات کی جڑیں ہمارے سماج میں بڑی گہری ہوتی ہیں۔ ہم دوسروں کی قربانیوں کو معمولی اور اپنی خواہشات کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ہم دینا بھول گئے ہیں اور لینا اپنا حق سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کے گھروں میں سکون کم اور شکوے زیادہ ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے معاشرہ آئینے کے سامنے کھڑا ہے اور ہر شخص دوسرے کو بدلنے کی توقع کر رہا ہے۔ مگر یہ بھول گیا ہے کہ آئینہ کبھی پہلے خود کو نہیں بدلتا بدلنے والا ہمیشہ چہرہ ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ رشتے لمبے چلیں اور تعلقات کے پھولوں میں خوشبومہکتی رہے۔ تو ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ دوسروں سے صرف محبت کی امید رکھنی چاہیے کسی فائدے کی ہرگز نہیں۔ ایک دوسرے کو آسانی دینے والا رویہ اپنایا جائے۔ شکر گزاری کا مادہ پیدا ہوتاکہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی قربانیاں بھی بڑی لگیں۔ اپنا دیا ہی یاد نہیں رکھنا بلکہ دوسروں کے احسانات بھی یاد رکھنے ہوتے ہیں۔ کسی کا احسان یاد رکھنا دراصل ہماری اپنی ہی بڑائی ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں حد درجہ توقعات کا بڑھتا رجحان بڑی تیزی سے وبا یا بیماری کی طرح پھیل رہا ہے۔ جس کے مریض عام طور پر ہر گھر، گلی، محلے، شہر اور دفتر وں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بیماری جتنی چھپ کر لگتی ہے اتنی ہی کھل کر نقصان دیتی ہے۔ دوسروں سے وہی توقعات رکھیں جو آپ خود پوری کر سکتے ہوں۔ روزمرہ زندگی میں"شکریہ" اور ماشااللہ" کہنا توقعات سے زیادہ تعلقات اور محبت کو مضبوط کرتا ہے۔ یاد رکھیں کہ بےتحاشا توقعات کا بوجھ انسان کی کمر توڑ دیتا ہے۔ ہمیں محبتوں کے راستے سے توقعات کی یہ روکاوٹیں ہٹانا ہونگیں تب ہی یہ معاشرہ خوشی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی توقعات کم سے کم رکھنا ہوں گی۔۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali