Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Sona Kyun Mehanga Ho Raha Hai

Sona Kyun Mehanga Ho Raha Hai

سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے

کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں تجارت کی ابتدا بارٹر سسٹم کے تحت ہوتی تھی۔ لوگ اناج کے بدلے میں جنگی سازوسامان اور جانوروں کے بدلے میں جانور لیتے دیتے تھے۔ پھر سونے اور چاندی کے سکے لین دین کا ذریعہ بنے اور دنیا نے پہلی بار " قدر "کو حقیقی شکل میں محسوس کیا اور دیکھا کیونکہ اس دھات کو زنگ نہیں لگتا۔ یہ ہمیشہ چمکدار رہتی ہے۔ اس کی شناخت پرکھی جاسکتی ہے۔ چھوٹی مقدار کی بڑی مالیت ہونے کی وجہ سے ذخیرہ کرنا یا منتقل کرنا بہت آسان ہے لیکن۔ وقت اور بڑھتی ضرورت کے ساتھ ساتھ پیپر کرنسی وجود میں آئی جس نے سہولت تو دی مگر حقیقت کو اعتماد کے پردے میں چھپا دیا اور دنیا پر ڈالر کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔

جب امریکہ نے ڈالر کے پیچھے سے سونے کی گارنٹی ختم کردی تو نوٹ چھاپنے کا لامحدود دروازہ کھل گیا اور مصنوعی مالیاتی توازن کی باعث ترقی یافتہ ممالک میں بھی عام آدمی آج مہنگائی اور معاشی عدم تحفظ کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ آج ڈیجیٹل دورجدید میں جب ہر چیز ڈیجیٹل ہونے جارہی ہے بٹ کوئین منظر عام پر آیا تو اسے ڈیجیٹل گولڈ بھی کہا گیا۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق خیال اور اندازہ یہی ہے کہ چند سالوں تک مستقبل کا نظام شاید مکمل ڈیجیٹل ہو جائے گا اور لوگوں کے ہاتھوں سےفزیکل کرنسی یا نقدی نکل جائے گی۔ اگر چہ دنیا نے اسے مکمل طور پر قبول نہیں کیا مگر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ دنیا موجودہ مرکزی مالیاتی نظام سے بیزار ہوتی جارہی ہے۔

پھر امریکہ نے جب روس کے زرمبادلہ کے ذخائر فریز کئے تو دنیا کو احساس ہوا کہ ڈالر صرف کرنسی نہیں بلکہ ایک سیاسی و معاشی ہتھیار بھی بن چکا ہے۔ شاید یہی وہ لمحہ تھا جب دنیا بھر کے بینکوں نےسونا خریدنا شروع کردیا۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق صرف اسی سال 2022ء میں تقریبا" ایک ہزار بیاسی ٹن سونا خریدا گیا اگلے سال تقریبا" ایک ہزار سنتیس ٹن اور پچھلے سال حیرت انگیز طور پر دس ہزار ایک سواسی ٹن سونا دنیا کے مرکزی بینکوں کے ذخائر میں شامل ہوا جبکہ دنیا بھر سے سالانہ تین ہزار ٹن سونا مائن کیا جاتا ہے۔ اسی تیزی سے بڑھتی خریداری کی دوڑ نے سونے کی قیمتیں آسمان پر پہنچا دیں اور آج سونا عام آدمی کی دسترس سے بہت باہر نکل چکا ہے۔ آج دنیا میں سونا ایک بار پھر ایک خاموش معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ اسی لیے چین، روس، ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک تجارت میں مقامی کرنسی اور سونے کے استعمال کو فرغ دے رہے ہیں۔

سونا ہماری شادیوں کے لیے ضروری چیز سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کی کوئی شادی سونے کے زیورات کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ سونے کے زیور کو عورت کی کمزوری سمجھاجاتا ہے شاید ہی کوئی عورت ہو جس کے پاس سونے کا کوئی زیور موجود نہ ہو بلکہ ہمارے ملک کےبینک لاکرز تو ہوتے ہی شاید گھریلو زیورات کے لیے ہیں۔ ہمارے ملک کی ہر عورت ایک آدھا سونے کا زیور کان، ناک یا ہاتھوں میں ضرور پہنتی ہے۔ ہمارے علاقے میں شادی سے قبل پہلا سوال یہی کیا جاتا ہے کہ سونے کا زیور کتنا دیا جائے گا؟ یوں سونے کے زیورات کی شکل میں ناجانے کتنے ہی ٹن سونا ہمارے گھروں اور لاکروں میں پڑا ہوتا ہے۔ کیونکہ سونے کو مشکل وقت کے لیے سہارا بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو کسی وقت بھی بازار میں بک جاتی ہے اور جس کی قیمت ہمیشہ بڑھتی ہی رہتی ہے ورنہ برقرار تو ضرور رہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سونے کے کاروبار کو ہماری سوسائٹی میں بڑی اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ ہمارے سنار اور جیولرز ہماری اس کمزوری کا کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں یہ الگ ایک دردناک داستان ہے۔ موجودہ سونے کی قیمت اور حالات میں ہر شخص پریشان اور ہر زبان پر ایک سوال ہے کہ سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے؟ آسان سا جواب تو یہی ہے کہ سونا کی رسد کم ہے جبکہ اس کی طلب بڑھ گئی ہے۔ سونے کی بڑھتی سرمایہ کاری اور عوام اور مرکزی بینکوں کا اسے ذخیرہ کرنے کا بڑھتا رجحان اور صنعتی استعمال میں اضافہ اس کی قیمت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ یاد رہے کہبعض اوقات اس طرح کے سونے کے ذخائر سونے کی غیر معمولی قیمت کم ہونے سے نقصان بھی اٹھاسکتے ہیں بہرحال سونے کی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا بہت ضروری ہے۔

ماضی میں سونا کسی بھی ملک کی کرنسی جاری کرنے کے لیے لازمی بھی سمجھا جاتا تھا۔ اس نظام کو گولڈ اسٹینڈرڈ کہا جاتا تھا جس کے مطابق اس ملک کی کرنسی اتنی ہی چھاپی جاتی تھی جتنی سونے کی ملکیت اس ملک کے پاس موجود ہوتی تھی۔ اس سے کرنسی کی قیمت مستحکم بھی رہتی تھی کیونکہ ہر نوٹ کے پیچھے "حقیقی سونا موجود ہوتا تھا۔ ایک وقت میں امریکہ کے پینتیس ڈالر کے بدلے ایک اونس سونا دیا جاتا تھا یعنی امریکی ڈالر بھی "سونے سے بندھا "ہوا کرتا تھا۔

اب دنیا کا کوئی ملک سونے کو کرنسی کا معیار نہیں بناتا۔ اس نظام کو ٖ"فیئٹ کرنسی "کہتے ہیں۔ یہ وہ کرنسی یا پیسہ ہے جس کی قدر حکومت کے اعتماد پر قائم ہوتی ہے نہ کہ کسی دھات پر، اس کی پشت پر سونا نہیں ہوتا بلکہ ریاست کا معاشی استحکام، ٹیکس آمدن اور مرکزی بینک کا کنٹرول ہوتا ہے۔ حکومت جب چاہے نوٹ چھاپ سکتی ہے لیکن زیادہ نوٹ چھاپنے سے افراط زر (مہنگائی) بڑھتی ہے۔ کرنسی کی قدر اب سونے سے نہیں بلکہ مارکیٹ، سود کی شرح، رزمبادلہ اور معاشی اعتماد سے جڑی ہوتی ہے۔ مگر سونا اب بھی معاشی استحکام، سرمایہ کاری اور کرنسی کے اعتماد کا ایک غیر رسمی پیمانہ ضرور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی بینک آج بھی سونا بطور "ذخیرۂ قدر "رکھتے ہیں۔ عام طور پر سونے کی قیمتیں زیادہ تیزی سے بڑھتی یا گھٹتی نہیں ہیں لیکن کچھ عرصہ سے سونے کی قیمتوں میں بڑی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے چند عام عوامل یہ سامنے آتے ہیں۔

دنیا میں اقتصادی عدم استحکام اور "محفوظ پناہ گاہ " کی طلب بڑھ رہی ہے۔ جب معاشی، سیاسی یا جغرافیائی کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو سرمایہ کار اکثر ایسے اثاثوں کی طرف رجوع کرتے ہیں جنہیں محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے اور سونا ان میں سے ایک ہے۔ جب دنیا بھر میں بینکوں سمیت سب ہی سونے کی خریداری کرتے ہیں تو اس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور قیمت بڑھنے لگتی ہے۔ چونکہ سونا عالمی سطح پر امریکی ڈالر میں قیمت طے کرتا ہے۔ ڈالر کی قدر کم ہو تو سونا غیر امریکی سرمایہ کاروں کے لیے نسبتا" سستا ہو جاتا ہے اور ان کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ دوسری جانب اگر شرح سود کم یانیچے جانے کا امکان ہو تو سونا نسبتا" زیادہ پرکشش ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سونا خود تو کوئی منافع نہیں دیتا لیکن مواقع کم ہو جانے پر اس کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ جب افراط زر زیادہ ہو تو کاغذی کرنسی کی قدر کم ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں لوگ ایسے اثاثے ذخیرہ کرنا چاہتے ہیں جن کی قیمت وقت کے ساتھ ساتھ کم نہ ہو اور سونا اس لحاظ سے پسندیدہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں سونے کی ذخائر کی تلاش اور حصول کی دوڑ جاری ہے۔

کئی ممالک کے مرکزی بینک اپنے ذخائر میں سونے کا حصہ بڑھا رہے ہیں۔ تاکہ زرمبادلہ یا دیگر مالیاتی خطرات سے تحفظ ملے۔ اس سے سونے کی طلب اور قیمت بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب جنگیں، تجارتی جنگ، معاشی پابندیاں بھی سونے کی قیمت کو اٹھاتے ہیں کیونکہ لوگ غیر یقینی صورتحال میں سونا خرید کر رکھنا شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں جہاں روپے کی قدر وقتا" فوقتا" کم ہوتی رہتی ہے سونے کی قیمت بیں الاقوامی سطح کی تبدیلی اور ملکی کرنسی کی تبدیلی دونوں کا باعث بنتی ہے۔ عالمی سونے کی قیمت میں اضافہ، امپورٹ لاگت میں اضافے کا باعث بنتا ہےجو فی اونس یا فی گرام سونے کی قیمت کو اٹھا دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں شادی بیاہ یا زیورات کےلیے سونا خریدنے والے صارفین کے لیے یہ مہنگائی براہ راست محسوس کی جاتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں دو متوازی نظام جنم لے سکتے ہیں ایک ڈیجیٹل و کنٹرولڈ نظام اور دوسرا حقیقی و خود مختار اثاثوں پر مبنی نظام ہو سکتا ہے۔ فیصلہ اب دنیا کے مرکزی بینکوں کی ہاتھوں کی بجائے عالمی شعور کے پاس ہوگا کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اسلام سونے کی ذخیرہ اندوزی اور اسے مردوں کے پہننے کو ناجائز قرار دیتا ہے اور ایک محدود مقدار سے زیادہ گھروں میں موجود یا زیورات کی شکل میں رکھے گئے سونے اور چاندی پر زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیتا۔ تاکہ دولت معاشرے میں گردش کرئے اور معاشی توازن برقرار رہے۔ اگر ذخائر میں اضافے کا رجحان اور طلب اور رسد کا توازن ایسا ہی رہا تو سونے کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے۔ ہم اپنی رسومات اور زیورات سے سونے کو باہر کرکے ہی اس کی مہنگائی کے مضر اثرات سے بچ سکتے ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan