Social Media Izhar Ka Waseela Ya Maqbooliat Ka Maidan
سوشل میڈیا "اظہار کا وسیلہ یا مقبولیت کا میدان"

گذشتہ روز اپنے پوتے ڈاکٹر امیر حمزہ جو ابھی دو سال قبل ہی فزیوتھراپسٹ بنے ہیں کے کلینک کے لیے جگہ لینے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں جانا پڑا تو وہاں موجود میرے بڑے ہی قابل احترام اور بہت ہی سینئر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے بڑے فخر سے اپنے پوتے کا تعارف کرایا اسکی ڈگریاں اور تجربہ بتایا اور ان سے اس بچے کی سرپرستی کی درخواست گزاری۔ وہ فرمانے لگے کہ اسے اس شعبہ میں اپنا نام بنانے میں بڑا وقت اور محنت درکار ہوگی۔ پھر کہنے لگے اچھا یہ بتاو کہ یہ بچہ صرف ڈاکٹر اور فزیو تھراپسٹ ہی ہے یا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ میں بھی دلچسپی رکھتا ہے؟
میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سوشل میڈیا کا بھلا ڈاکٹر اور اس کی پریکٹس سے کیا تعلق ہے؟ تو کہنے لگے بھائی آج کل ڈاکٹر کے علم اور مہارت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی اہمیت بہت بڑھ گئی۔ اب اچھی پریکٹس اور جلد شہرت کا حصول پیشہ ورانہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا آج علم و خدمت اور شہرت کا معیار بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا عصر حاضر کا عالم، دانشور اور طبیب بن چکا ہے۔ اس ڈیجیٹل عہد میں عالم، دانشور اور طبیب کی پہچان سوشل میڈیا سے ہو رہی ہے۔ اس لیے بچے سے کہو کہ اپنی پروفیشنل پریکٹس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے متعارف ہو تو بہت جلد مشہور بھی ہو جائےگا اور مریضوں کی رخ بھی اس کی جانب ہو جائے گا۔
مجھے ڈاکٹر صاحب کی بات بڑی اچھی لگی کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ فیس بک پوری کی پوری ڈاکٹروں، ہسپتالوں، ادویات، طریقہ علاج اور دوسری جانب مذہبی بیانات، تقاریر، درس، خطبات اور عملیات سے بھری پڑی ہے۔ یہاں کوئی فاتح ذیابیطس ہے تو کوئی فاتح کینسر اور کوئی آنکھوں کا چشمہ ہمیشہ کے لیے اتارنے کا ماہر ہونے کا دعویٰ کرتا دکھائی دیتا ہے تو کوئی عملیات کے ذریعے علاج کے طریقے بتاتا ہے۔ ڈاکٹر "آن لائن" کا تصور بڑھ رہا ہے جبکہ مذہبی تقاریر اور موٹیویشنل اسپیکرز کے لیے بھی یہ فورم اب سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔
سوشل میڈیا اور ڈاکٹر آن لائن کے تصور کو "کرونا وائرس"کے دنوں میں بڑی پذیرائی ملی تھی اور تب جہاں سب کچھ آن لائن ہوتا تھا وہیں لوگ ڈاکٹروں اور سکالرز کو اب سوشل میڈیا کے ذریعے جاننے اور پہچاننے لگے ہیں۔ یہی صورتحال ہماری مذہبی تعلیمات کی ہے کہ جو بات پہلے مسجد کے منبر یا مذہبی سیمیناروں سے سنائی دیتی تھی سوشل میڈیا دیکھ کر یہ لگتا کہ ہمارے ملک کا ہر فرد شاید ہر شعبہ زندگی کا ماہر بن گیا ہے۔
اب سوشل میڈیا کے ذریعے ہر شعبہ زندگی کی سب معلومات گھر گھر اور فرد فرد لمحہ لمحہ پہنچ رہی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ دور تشہیر کا زیادہ اور تاثیر کا شاید بہت کم ہو چکا ہے۔ آج شاید ہر ڈاکٹر اپنا سوشل میڈیا پر چینل بنانا اتنا ہی ضروری سمجھتا ہے جتنا کہ اپنے کلینک پر سائن بورڈ لگانا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی بڑے بڑے مشہور اور نامور ڈاکٹرز ہوا کرتے تھے اب میں سوچتا ہوں کہ جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو وہ ڈاکٹرز کیسے مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچ جاتے تھے؟
زمانہ بدل گیا ہے کبھی علم، تجربہ اور کردار کسی شخص کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ مگر اب شاید اس کی جگہ فالوورز، لائکس اور ویوز نے لے لی ہے۔ یہ تبدیلی اتنی خاموشی سے آئی ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ کب علم کے میناروں پر سوشل میڈیا کے بینرز لگ گئے اور کب اخلاق و خدمت کے مدرسے میں اس طرح مقبولیت کا شور گونجنے لگا۔ دوسری جانب مریض اب کلینک سے زیادہ یوٹیوب چینل اور فیس بک پر زیادہ نظر آتے ہیں۔ ہر بیماری کا علاج ذاتی مشورے کی بجائے "ویڈیو تھمب نیل" سے ہوتا ہے کبھی طبیب یا ڈاکٹر کی پہچان اس کے تجربے، اخلاق اور شفا دینے کے ہنر سے ہوتی تھی مگر اب اگر کسی ڈاکٹر کے انسٹا گرام پر لاکھوں فالوورز نہیں تو وہ خود کو ادھورا محسوس کرتا ہے۔
سوشل میڈیا نے ان کی "پریکٹس" اور مقبولیت کو واقعی چار چاند لگا دئے ہیں۔ یہ روشنی کتنی حقیقی ہے اس کا اندازہ تو علاج کے بعد ہوتا ہے۔ مقبولیت کے جنون میں سوشل میڈیا نے ہر شخص کو ایک "برانڈ" میں بدل دیا ہے جہاں علم اب کاروبار اور طب ایک مارکیٹنگ کی صنف بن کر رہ گئی ہے۔ عوام کی نفسیات بھی بدل گئی ہےاور اب وہ عالم، دانشور، ڈاکٹر یا طبیب کو اس کے علم یا شفا سے نہیں بلکہ اس کے "سبسکرائبرز" کی گنتی سے تولتی ہے۔ جو زیادہ وائرل ہے وہ ہی زیادہ معتبر اور قابل سمجھا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا نے ہر شخص کو اپنا اشتہار بنادیا ہے۔ علم، دانشوری، حکمت اور صحت مارکیٹ کی جنس سی بنتی جارہی ہے۔ عوام آج کے عالم اور ڈاکٹر کو علم سے یا خدمت سے نہیں بلکہ فالوورز کی تعداد سے مرعوب ہو تے ہیں۔ ڈاکٹر یا کسی دانشور کی پریکٹس اور شہرت لائکس کے لیے چلے تو اس کا اصل مقصد تقسیم ہو جاتا ہے یہ علم اور خدمت کی بجائے شہرت اور دولت کا کھیل بن جاتا ہے۔ ایسے میں نہ روح کی پیاس بجھتی ہے اور نہ ہی معاشرہ سکون پاتا ہے۔ ایسے میں بہت سے ناتجربہ کار اتائی اور غیر مستند لوگ بھی اس شہرت کی دوڑ میں شامل ہوکر معصوم لوگوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک نئی معاشرتی بیماری کو جنم دے رہا ہے۔ جب ڈاکٹر شہرت کے لیے بولتا ہے اور نیت ویوز حاصل کرنا بن جاتی ہے تو مریض ایک عدد میں بدل جاتا ہے۔ میں دیکھتا رہتا ہوں کہ بہت سے ڈاکٹرز علاج معالجے سے زیادہ وقت سوشل میڈیا یا اپنے یوٹیوب چینلز کو دے رہے ہیں۔ بلکہ کچھ ڈاکٹرز نے تو سوشل میڈیا کی وجہ سے ڈاکٹری ہی چھوڑ دی ہے یا بہت کم کردی ہے۔ وہ ہسپتال یا کلینک سے زیادہ اسکرین پر دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ڈاکٹر، سکالرز اور موٹییویشنل اسپیکرز نے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے فیس بک کو ہی اپنا کلینک یا فورم بنا لیا ہے اور ہر ایک اپنی اپنی بات اپنے اپنے طریقے سے کرتا دکھائی دیتا ہے۔
مختلف ڈاکٹرز کی جانب سے ایک ہی بیماری کے بارے میں مختلف اور جدا جدا خیالات اور تبصرے لوگوں کو کنفوژ کر دیتے ہیں۔ آج سوشل میڈیا اور ویڈیو کی اسکرین ایک نیا کلینک بن چکا ہے۔ اب مریض کم اور ناظرین زیادہ ہوتے ہیں۔ کلینک کی دیواروں سے زیادہ "چینل" کے "تھمب نیل" میں دلکشی ڈھونڈی جاتی ہے۔ کبھی طبیب یا ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا تھی نبض سے تشخیص ہوتی تھی اب کیمرہ اور مائیک ان کے اوزار ہیں۔ یہ سب برا ہرگز نہیں لیکن جب نیت خدمت سے ہٹ کر شہرت پر آجائے تو دوا بھی محض تشہیر بن جاتی ہے۔ سوشل میڈیا نے انسان کو ایسا آئینہ تھما دیا ہے جس میں شہرت تو بڑی دکھائی دیتی ہے مگر حقیقت بہت دور اور چھوٹی ہوگئی ہے۔
ایک سوال اور بھی باقی ہے کہ کیا سوشل میڈیا کے بغیر ہم واقعی ادھورے ہیں؟ کیا ڈگری اور تجربے کے باوجود سوشل میڈیا کی ضرورت اہم ہو چکی ہے؟ کیا انسان کی پہچان اب سچائی اور خدمت نہیں بلکہ مقبولیت اور شہرت ہے؟ یہ وقت ہی بتائے گا یقیناََ وہ زمانہ قریب ہے جب سوشل میڈیا کے بے پناہ شور کے بعد علم کی قدر دوبارہ خاموشی میں لوٹے گی اور خدمت کی مہک اور خوشبو دوبارہ شور سے آزاد ہوگی۔ تاثیر کی ضرورت تشہیر سے بڑھے گی۔ سوشل میڈیا کا یہ عارضی سہارا شاید زیادہ دیر تک نہ چل سکے گا۔ مقبولیت کا پیمانہ خدمت اور مہارت ہی ہوگی۔

