Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Selab e Bala Aur Azm e Tameer e Nao

Selab e Bala Aur Azm e Tameer e Nao

سیلاب بلا اور عزم تعمیر نو

دریا مہربان اسقدر ہیں کہ ان کا اور ان سے نکلنے والی نہروں کا جال پاکستان کی زمین میں رگوں کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ یہ دریا خون کی طرح پانی، زرخیزی اور زندگی پہنچانے کا ذریعہ ہیں اور اس زمین اور دھرتی کی زندگی قائم رکھتے ہیں۔ دریاوں کے کنارے آبادیاں انسان اور دریاوں کی قدیم محبتوں کی علامت ہیں۔ یہ سب کو یکساں فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہ انسانی چہروں پر رونق، درخت اور فصلوں پر ہریالی اور مہک لاتے ہیں۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور آبی حیات کی سرمستی ان کے پانی کے دم سے قائم رہتی ہے۔

دریا مسافر کی طرح ہر وقت سفر میں رہتے ہیں اور اپنی فیاضی بکھیرتے چلے جاتے ہیں لیکن کبھی کبھی یہ ناراض ہوکر غصے میں آجاتے ہیں جب ان کی روانی میں روکاوٹ آجائے، ان کا راستہ تنگ کر دیا جائے یا کوئی ان کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کی کوشش کرئے اور پھر یہ غصے اور جوش کے عالم میں بےقابو ہو جاتے ہیں اور ان کی محبت ناراضگی میں بدلنے لگتی ہے۔ جب ہم درخت کاٹ دیتے ہیں، جب ان کی جانب آنے والے برساتی نالوں اور ندیوں پر قبضہ کرلیتے ہیں، جب ہم ان کے اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے والے چھوٹے چھوٹے تالابوں اور جھیلوں پر پلازے اور گھر بنا لیتے ہیں۔ یہ دریا اور ان کا پانی فطرت کا حصہ ہوتے ہیں اور یہ فطرت کے خلاف کچھ بھی برداشت نہیں کرتے۔ ان دریاوں کے راستے بند نہ کریں یہ اپنے راستوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پانیوں کا سفر لمبا اور منزل دور ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم فطرت کے خلاف ہو جاتی ہے تو فطرت اس کے خلاف کھڑی ہو جاتی ہے۔

ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ طاقت اور پانی اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ ان کا راستہ نہ تو روکا ہی جاسکتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے موڑا جاسکتا ہے۔ پھر دریا تو بادشاہ ہوتے ہیں وہ اپنے راستوں کو کبھی بھولتے ہی نہیں کئی کئی دہائیوں کے بعد بھی اپنی ملکیت ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ دریا کو اپنے پتھروں اور ریت کے ذروں سے بھی اتنا لگاو ہوتا ہے کہ وہ انہیں گلے لگانےکہیں بھی پہنچ جاتے ہیں اور اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو بہہ لے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ دریاوں کے منہ زور پانی نے نہ تو پہاڑ دیکھے، نہ میدان۔ ان کی بے قابو لہروں نے جہاں سامنے آنے والے بڑے بڑے درختوں اور پتھروں کو روئی کے گالوں کی طرح راستے سے ہٹا دیا وہیں میدانی علاقوں میں اپنا راستہ تلاش کرتے ہوئے بھی کچھ نہیں دیکھا۔ اس کے راستے میں جو کچھ بھی سامنے آیا بہہ گیا۔

اس پانی کے سیلاب نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کے راستے میں آنے والا درخت یا پتھر یا انسان کتنابڑا ہے؟ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ جوان ہے، بچہ ہے، بوڑھا ہے یا عورت ہے۔ دریا کو اس سے کیا کہ کوئی مریض ہے یا معذور یا حاملہ ہے؟ دریا کب سوچتے ہیں کہ بہتا اور ڈوبتا ہوا کوئی کسی کا اکلوتا بیٹا ہے یا کسی کی بوڑھی ماں ہے؟ اور نہ یہ دیکھا کہ راستے میں آنے والا گھر، سوسائٹی، جھونپڑی، چھپر یا پلازہ کس کا ہے؟

"سیلاب بلا"نے نہ غریب کی جھونپڑی ہی چھوڑی اور نہ کسی امیر کا بنگلا ہی چھوڑا۔ دریا تو اندھے ہوتے ہیں جتنے مہربان اتنے ہی ظالم بھی ہوتے ہیں۔ دریاوں کے یہ بدمست پانی کسی پر رحم نہیں کھاتے انہیں اس سے بھلا کیا غرض کہ کوئی گھر کسی نے اپنی بیوی کا زیور بیچ کر بنایا تھا یا قرض لیکر کھڑا کیا تھا۔ کسی کے بڑوں نے پائی پائی اکھٹی کرکے کوئی پلاٹ یا زمین خریدی تھی یا پورے خاندان نے خود مزدوریاں کرکے ان گھروں کی دیواریں کھڑی کیں تھیں۔ دریا کو اس سے کیا غرض کہ انسان کو اپنی اولاد کی طرح اپنے پالتو جانور اور مویشی کتنے عزیز ہوتے ہیں اور کتنی مشقت سے خریدے اور کتنی محبت سے پالے جاتے ہیں؟

دریا کو کیا معلوم کہ بہہ جانے والی جھونپڑی میں ٹرنک میں پڑا کسی کسان کی بیٹی کا جہیز کتنے ہی بڑے عرصےمیں بن پایا تھا اس کی تیاری میں کتنے پاپڑ بیلے اور کتنے ہل چلائے تھے؟ دریا کی موجیں کب سوچتی ہیں کہ کسی کی چھت گرنے سے کتنے ارمان اور خواہشیں بھی دب کر رہ جاتی ہیں؟ دریا نہیں جانتے کہ یہ فصلیں کسان کے خون پسینے سے کیسے تیار ہوئیں تھیں اور ان کی آمدنی سے کتنے ہی لوگوں کے خواب شرمندہ تعبیر ہونے جارہے تھے؟

یہ دریائی آفات انسانی جان، جانور، مال ودولت اور جائداد سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہی کرتی ہیں۔ دریا کے پانیوں کو کیا پتہ کہ ان کی روانی روکنے اور ان کے گھر میں گھسنے کی غلطی ان غریبوں نے نہیں کی جن کے گھروں میں گھس کر وہ انہیں تباہ کر رہا ہے۔ کاش کوئی اس دریا کو بتائے کہ دریا کے اندر بستیاں بسانے والے اور اس کا راستہ روکنے والے کوئی اور ہیں اور رہنے والے یہ غریب کوئی اور ہیں؟ اے میرے ملک کے مہربان دوست دریاوں ہمیں اپنی غلطیوں اور کوہتایوں کا احساس ہو چکا ہے۔ بس اب اپنا غصہ روک لو، ناراضگی چھوڑ دو، ہم تمہارا اور فطرت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ان دریاوں کے پانیوں کو کیا خبر کہ یہ تو گزر ہی جائیں گے کیونکہ یہ دریا قبضہ کرنے نہیں اپنا قبضہ واپس لینے آے تھے لیکن جہاں سے یہ گزرے ہیں وہاں پانی اترنے کے بعدوہاں کے غریب لوگوں پر کیا گزرے گی؟ اس سیلاب کے بعد مہنگائی کے سیلاب کا ان دریاوں کے پانیوں کو کیا پتہ ہے؟ کاش کوئی ان دریاوں کے پانیوں کو بتائے کہ جو فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اور جو اجناس کے ذخائر ضائع ہو چکے ہیں، جو سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں، جو گھر گر چکے ہیں، جو جانور مر یا بہہ چکے ہیں ان کی وجہ سے کیسے کیسے بحران آنے والے ہیں؟

چیزوں کی قیمتیں آسمان کو چھونے والی ہیں، مرغی، گوشت، مچھلی، گندم، سبزیاں، چارہ اور دیگر اشیاء کم ہونے کی وجہ سے مہنگی ہو جاتی ہیں۔ سپلائی اور ڈیمانڈ کا توازن بگڑ جائے گا۔ یہ ٹوٹی سڑکیں پھر سے کب بن پائیں گیں؟ جن سوسائٹی اور آبادیوں میں تباہی ہوئی ہے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی کیسے واپس لوٹے گی؟ لوگ اس سیلابی پانی کے تعفن اور اس سے پھیلنے والی بیماریوں سے کیسے بچیں گے؟ اس سے سب سے زیادہ عام اور غریب شہری ہی متاثر ہوگا۔ ان دریاوں کو کوئی یہ خبر بھی دئے کہ تمہارا تھوڑا سا یہ غصہ اس ملک کی معیشت کے لیے کتنا بڑا نقصان دہ ہے جو ملک پہلے ہی غربت اور مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔

بہر حال نقصان بہت بڑا ہے اور ہمارے وسائل بہت کم ہیں اس لیے یہ وقت بحث یا سوچ و بچار کا نہیں ہے۔ یہ وقت عملی مدد اور قربانی کا ہے۔ اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے کروڑوں متاثر بھائیوں کی مدد کا سوچیں کیونکہ یہ اخوت اور بھائی چارے کا امتحان ہے۔ دل میں دوسروں کا درد محسوس کریں اور ان کی مدد کے لیے ہر سطح پر ہاتھ بڑھائیں۔ ان سیلاب زدگان کی مدد ہم پر فرض ہے۔ سیاست اور نمبر گیم بعد میں بھی کی جاسکتی ہے۔ تنقید اور مشورے بعد میں بھی دئیے جاسکتے ہیں۔ ان تمام چیلنجز کا مقابلہ قومی یکجہاتی اور باہمی اشتراک سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ آج ریسکیو، ریلیف اور بحالی ہمارا مشن ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ فوری طبی امداد، بنیادی ضروریات اور خوراک کی فراہمی، نفسیاتی مدد، بنیادی ڈھانچے کی بحالی، معاشی مدد کے ذریعے ہی ان متاثرین کی پریشانیوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ہر کام صرف حکومت نے نہیں کرنا ہمیں بھی اپنافرض نبھانا ہے۔ آئیں یک جان ہو کر بطور قوم ان متاثریں کی بحالی اور تعمیر نو کا عزم کریں۔

ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے خطرات کی وجہ سے وقت آگیا ہے کہ اب اس بارے میں انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر سوچا جائے، قومی سطح پر طویل مدتی منصوبہ بندی کی جائے اور آئندہ کے لیے ایسا فوری اور جدید لائحہ عمل بنایا جائے جو سیلاب سے موثر تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ جس کے لیے پانی کے قدرتی اور قانونی راستوں کو صاف رکھا جائے۔ ان پر سے تجاوزات ختم کی جائیں اور مربوط و مستقل بنیادوں پر نظام آب کا بہتر انتظام کیا جائے تاکہ پانی کا بہاو بغیر رکاوٹ جاری رہے اور انسانی جان و مال محفوظ رہے۔

سیلاب کا حل صرف کوئی بڑا ڈیم بنانا ہی نہیں ہے۔ بلکہ ڈیم کے ساتھ ساتھ نہری نظام کی بہتری، جھیلوں اور چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر کرنا ہوگی۔ ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج درختوں کی حفاظت اور شجر کاری ہونا چاہیے۔ یہ بارش یا سیلاب نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا امتحان اور یادہانی ہے کہ اگر ہم نے سبق نہ سیکھا تو آنے والے برسوں میں ہر سیلاب ہماری زمین و جائیداد سے زیادہ ہماری امید اور آرزوں کو بہا کر لے جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری قوم کو اس آزمائش میں سرخرو فرمائے آمین!

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali