Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Safaid Poshi Ka Bharam

Safaid Poshi Ka Bharam

سفید پوشی کا بھرم

کہتے ہیں کہ دنیا میں دوطبقے ہمیشہ بڑے اطمینان اور سکوں سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ دنیا میں مہنگائی بڑھے یا ملک میں مشکل فیصلے کرنے پڑیں ان کی روزمرہ زندگی پر کچھ بھی اثر انداز نہیں ہوتا یہ ہوتے ہیں" بہت ہی غریب اور بے حد امیر "کیونکہ غریب مہنگائی اور مشکل فیصلوں سے بے نیاز ہوتا ہے وہ پہلے ہی اتنا غریب ہوتا ہے کہ مزید غریب ہونے کی گنجائش ہی نہیں بنتی اور بہت امیر اور سرمایہ دار تو خود اس مہنگائی اور مشکل فیصلوں کا حصہ ہوتا ہے اگر اس پر کوئی فرق پڑنا ہو تو یہ مشکل فیصلے لینا ہی نہ پڑیں۔ دو طبقے ہمارے ہاں توجہ کے مستحق بھی کہلاتے ہیں امیر اور سرمایہ دار اپنے بے پناہ پیسے اور دولت کی فراوانی کی وجہ سے اور غریب قابل رحم اس لیے ہے کہ اس کے پاس پیسہ اور دولت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں؟ جو وہ کھا سکےیا گنوا سکے؟

گویا ہمارے معاشرے میں ہر وہ بندہ آرام میں ہے جس کے پاس بے تحاشا پیسہ ہے اور وہ تمام آسائشوں کے ساتھ ایر کنڈیشنڈ کمروں میں محو خرام ہے یا پھر وہ جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور وہ پہلے ہی فٹ پاتھ پر سوتا ہے اور مانگ کر بھی پیٹ بھر لیتا ہے۔ جو میسر ہو پہنتا ہے دنیا دکھاوے سے آزاد ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کا بجٹ انہی دو طبقات کے حالات کو مدنظر رکھ کر بنایا جاتا ہے۔ اس میں صرف غریب اور امیر کی بات کی جاتی ہے سفید پوش کا نام ہی نہیں لیا جاتا۔ حالانکہ ملک کی معیشت بچانے کے حکومتی مشکل اور تلخ فیصلوں سے یہی طبقہ متاثر ہوتا ہے۔ مہنگائی کا ہر طوفان اسے ہی تباہ کرتا ہے وہ اپنی خودداری اور اناء کو قائم رکھنے کی کوشش میں پوری زندگی ایک طویل جد وجہد میں گزار دیتا ہے۔

امیر اور غریب کے درمیان یہ ایک ایسا طبقہ ہے جسے سفید پوش، مڈل کلاس، وضعدار کہتے ہیں جو سینڈوچ بنتا ہے اور عجیب بات ہے کہ امیر لوگ اسے غریب سمجھتے ہیں اور غریب لوگوں کی نظر میں یہ امیر ہوتے ہیں۔ امیر اور غریب کے ساتھ ساتھ یہ سفید پوش خود بھی نہیں جانتے کہ سفید پوش اور مڈل کلاس کون ہوتا ہے؟ کچھ اپنے آپ کو غریب اور کچھ امیر ظاہر کرتے ہیں۔ آئیں ایک نظر ان سفید پوش اور مڈل کلاس طبقہ کی زندگی کے تلخ حقائق پر ڈالیں اور ان کے اندر کی پوشیدہ مشکلات اور دکھوں کو محسوس کرنے کی کوشش کریں۔

ہمارے ملک میں غریبوں اور امیروں کی نسبت ان سفید پوش لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر ان کے لیے الگ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہر بجٹ، مہنگائی اور مشکل فیصلوں کا رگڑا انہیں کو لگتا ہے کیونکہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ گزارے لائق ہی ہوتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی کسی بھی ایوان اقتدار میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اگر ہو بھی تو اتنی کمزور کہ کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہیں ! اس لیے ان کے لیے کوئی بجٹ یا پروگرام نہیں رکھا جاتا جو ان کی مشکلات میں کمی لا سکے۔ میں کیونکہ خود ایک سفید پوش ہوں اسلیے اپنے حقائق بیان کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا۔ اپنی چادر سے اپنا پیر ڈھانپوں یا اپنا سر ایک ہی ممکن ہے؟ یہ سوال ہر سفید پوش اور مڈل کلاس کا ہے۔

سفید پوش طبقہ دراصل وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو غریبوں سے بہتر خیال کرتا ہے اور اپنے کم وسائل کے باوجود امیروں کی سی زندگی جینےکی خواہش رکھتا ہے یا امیروں جیسا نظر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ زیادہ تر کم آمدنی، تنخواہ دار اور ملازم پیشہ یا پھر مزدور طبقہ ہوتا ہے جو معاشرے اپنی سفید پوشی اور وضع داری کا بھرم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی پہچان ان کے چہروں سے تب ہوتی ہے جب بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کے آخری دن قریب آجاتے ہیں۔

ہم جیسا سفید پوش شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس امیروں والی اشیا ضرورت تو ہوتی ہیں لیکن یہ تمام سکینڈ ہینڈ اور سستی کوالٹی کی بدولت اکثر قابل استعمال نہیں ہوتیں۔ ان کی قیمت خرید سے زیادہ ان کی روزمرہ مرمت کے اخراجات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ اسی پر خوش ہیں کہ یہ نعمتیں انہیں بھی میسر ہیں۔

ہم سفید پوشوں کے پاس ایک مناسب گھر تو ہوتا ہے مگر اپنا نہیں بلکہ کراےُ پر ہوتا ہے ماہانہ کراےُ کے ساتھ ہی مکان کا بھی اسے اپنے سے زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے اور ہر سال کرایہ بڑھنے کا خوف علیحدہ پریشان رکھتا ہے۔ جی ہاں سواری کے لیے ایک گاڑی یا موٹر سایکل بھی ہوتی ہے مگر اتنا پرانہ ماڈل جو چلانے کے لیے کم اور دکھانے کے لیے زیادہ ہوتی اور اگر اسٹارٹ ہو تو ایک لیٹر پیٹرول کھا جاتی ہے جبکہ پیٹرول 300 روپے لیٹر ہو چکا ہے جس نے اسکی گاڑی چلانے کی خواہش بھی ختم کر دی ہے۔ اس کی گاڑی کا اے سی صرف سردی میں خوب کام کرتا ہے۔ گھر میں بھی ایک پرانے ماڈل کا اےسی تو لگا ہوا نمائیاں نظر آتا ہے مگر مگر بجلی کے بل کے خوف سے گزارہ روم کولر یا پنکھوں سے کرنے کی کوشش کرتا ہے یو پی ایس بھی دکھاوے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ ہم سفید پوش لوگ ہمیشہ کپڑے صاف ستھرے پہنتے ہیں مگر کئی کئی سال پرانے ہوتے ہیں اس لیے ہی یہ وائٹ کالر کلاس بھی کہلاتے ہیں۔

ہم سفید پوش لوگوں کے پاس ایک موبائل فون بھی ضرور ہوتا ہے۔ لیکن بہت پرانہ اور عام طور پر استعمال شدہ مگر اکثر بیلنس کی سہولت سے محروم ہوتا ہے۔ ہمارے گھر میں دن میں ایک مرتبہ بمشکل کھانا بنتا ہے جو وہ تین وقت کھایا جاتا ہے اور ہفتے میں ایک مرتبہ مرغی یا گوشت کی لذت حاصل ہوتی ہے جس میں گوشت اور مرغی کم اور شوربہ زیادہ ہوتا ہے ورنہ سبزی ڈال کر اسے بڑھا لیا جاتا ہے۔

ہماری جیب میں اے ٹی ایم کارڈز تو کئی ہوتے ہیں مگر ان میں بیلنس نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی پانچ سو یا ہزار روپے نکال کر دل کو تسلی ضرور دیتے ہیں کہ اکاونٹ ابھی بند یا ڈارمنٹ نہیں ہوا۔ کے ایف سی یا میکڈولڈ یا کسی فوڈ پوئنٹ اور بڑی بیکری کے سامنے سے بیوی بچوں کے ساتھ گزرتے ہوے اپنا منہ اور توجہ دوسری جانب کر لیتے ہیں۔ اگر بچے زیادہ ضد کریں تو دو برگر لیکر کاٹ کر چار حصے کر لیتے ہیں اور بیوی بچوں کا دل نہیں توڑتے اور خود نہیں کھاتے کیونکہ اسے مضر صحت اور ملک دشمن برانڈ کہتے ہیں۔

بچوں کو اچھے سکول بھیجنا چاہتے ہیں مگر فیس کی ادائیگی اور ان کی آمد ورفت ہمارے بس سے باہر ہوتی ہے۔ اسلیے سکول بس کی بجاے اپنا موٹر سایکل یا سایکل استعمال کرتے ہیں۔ اگر سکول نزدیک ہو تو یہ فرض ہماری بیوی پیدل ہی لے جاکر انجام دیتی ہے۔ ہم سفید پوش کی بیوی بجلی کے بل کے خوف سے سارے دن گھر کی فالتو لائٹس اور پنکھے بند کرتی رہتی ہے لیکن پھر بھی بل کم نہیں ہو پاتا۔

سفید پوش اور مڈل کلاس طبقے کا المیہ یہ ہے کہ اسکے گھر کا ماہانہ بجٹ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے اور یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے ہماری ناکافی، کم اور محدود آمدنی ہوتی ہے جو کسی طرح بھی بڑھ نہیں سکتی اور بھاری گھریلو اخرجات ہوتے ہیں جن میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے خاص طور پر بجلی اور گیس کے بڑھتے بل ہمارا بجٹ ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے ہم سفید پوش ساری عمر کمیٹیاں ڈال کر گزارتے ہیں اور پہلی کمیٹی لیکر پھر سال بھر اسے بھگتاتے رہتے ہیں اور ساری ساری رات کمیٹی کی رقم سے کوئی ایسا بزنس کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں جو ان کی پہلی کمیٹی کی رقم سے چلے اور کمیٹی کی قسط بھی ادا کرے۔

عید الضحیٰ پر حیثیت اور فرصت نہ ہونے کے باوجود دنیا دکھاو اور بچوں کی خوشی کے لیے قربانی کا بکرا دو دن تک گھر کے باہر ضرور باندھتے ہیں ورنہ قربانی میں حصہ تو ہوتا ہی ہے گھر میں بڑے فرج نہیں ہوتے اس لیے گوشت جلد تقسیم کر دیتے ہیں۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر سفید پوش لوگ سب سے زیادہ خوف خدا رکھتے ہیں سب سے زیادہ خیرات اور صدقہ دیتے ہیں۔ مسجد میں زیادہ چندہ بھی یہی لوگ دیتے ہیں اور ہر فلاحی کام میں آگے آگے نظر آتے ہیں۔

جی ہاں یہ سب مذاق نہیں ہے بڑے تلخ حقائق ہیں کیونکہ میں خود ایک سفیدپوش اور مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور ایسی ہی زندگی گزار رہا ہوں۔ پاکستان میں امیروں اور غریبوں سے کہیں زیادہ تعداد ہم مڈل کلاس سفید پوشوں کی ہوتی ہے لیکن یہ کسی کھاتے یا شمار میں نہیں آتے۔ ان کا بجٹ کون بناےُ گا؟ جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے کسی سے سوال نہیں کرتے کسی کو اپنا درد نہیں سناتے ہیں۔ ہاں البتہ ان کے اندر کا درد ان کے چہروں سے عیاں ہوتا ہے۔

آج کی قیامت خیز مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر یہی طبقہ ہے۔ خیال رکھنا ہوگا کہ مہنگائی کے اس طوفان میں ان کا یہ بھرم کہیں ٹوٹ نہ جاے اور یہ اس طوفان کی لہروں میں بہہ کر مڈل کلاس سے غریب طبقے کا حصہ نہ بن جائیں۔

Check Also

Technology Bhagwan Hai Sahib

By Mubashir Ali Zaidi