Sadiq Garh Palace Ka Syren
صادق گڑھ پیلس کا سائرن

نئی نسل نہیں جانتی کہ صادق گڑھ پیلس میں دن کا آغاز ایک سائرن سے ہوتا تھا جسے یہاں کے مقامی لوگ "گھوگھو " بھی کہتے تھے۔ اس سائرن کے بجتے ہی پورے شہر میں زندگی کی چہل پہل کا آغاز ہو جاتا۔ لوگ اپنی اپنی وردیوں اور ریاستی مونو گرام سے سجی روائتی ترکی کی سرخ یا خاکی ٹوپیاں پہنے جوق درجوق پیدل یا سایکلوں پر سوار اس محل کی عمارت میں ایک جانب تو اپنی اپنی ڈیوٹی کے لیے داخل ہو رہے ہوتے تو دوسری جانب رات کی ڈیوٹی کے بعد گھروں کو لوٹ رہے ہوتے تھے تو سڑکوں پر ہجوم دکھائی دیتا۔ اس چھوٹے سے خوبصورت شہر میں یہ سائرن انسانی زندگی اور مصروفیت کے ساتھ ساتھ امن اور خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔
دن میں کئی بار بجنے والے اس سائرن کی آواز میں ایک ایسا جادو تھا جو لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھنچ لیتا تھا۔ ہر عام وخاص کے لیے یہ کام کے اختتام اور ابتدا کا اعلان ہوتا تھا۔ اسی سائرن کی آواز پر بچے اسکول کا رخ کرتے اور چھٹی کے لیے دوسرے سائرن کا انتظار کرتے تھے۔ یہی سائرن رمضان المبارک میں سحری وافطاری کا اعلان کرتا اور عید کے چاند کی نوید سناتا تھا اور یہی سائرن عید پر نواب صاحب کی عید گاہ آمد اور نماز کا اعلان کرتا تھا وہ یہی سائرن تھا جو جنگ کے دوران خطرے سے آگاہی اور خطرہ ٹلنے کا اعلان کرتا تھا۔
صبح سویرئے صادق گڑھ پیلس پر پورے احترام سے جھنڈا لہرانے سے دن کا آغاز ہوتا اور دن ڈھلتے ہی یہ پرچم اتار لیا جاتا۔ صادق گڑھ پیلس کے اونچے اور بلند سفید گنبد (چٹی کوٹھی) پر یہ عباسی سیاہ پرچم پورے دن لہراتا رہتا۔ جب بھی اسے لہرتے یا اسے اتارا جاتا تو اس کارندے کو اتنی بلندی پر آتے جاتے پورا شہر حیرت سے دیکھتا تھا۔ اس زمانے میں ٹائم دیکھنے کے لیے گھڑیاں بہت کم ہوتی تھیں اس لیے صادق گڑھ پیلس کے شاہی دروازے پر موجود گھنٹہ چوبیس گھنٹے بج بج کر وقت بتاتا تھا۔ ہر ہفتے خوبصورت اور دیدہ زیب چمچماتی سرخ وسفید وردیوں میں ملبوس سرکاری افواج کا ایک دستہ اپنے سرکاری اور بین الااقومی معیار کے تاریخی بینڈ کے ہمراہ دھنیں بجاتا اپنی یونٹ سے شاہی دروازے تک آتا اورروائتی طریقے پر نواب صاحب کو سلامی پیش کرتا تھا۔
نواب صاحب خود بارہ دری کے چبوترے پر تشریف لاکر سلامی لیتے۔ یہ شاہی گارڈز کی ڈیوٹی کی تبدیلی کا عمل بھی ہوتا تھا۔ نیا دستہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچتا تو پچھلا دستہ اسی بینڈ کے ساتھ انہیں روائتی دھنوں کے ساتھ واپس آتا تھا۔ یہ منظر دیکھنے کے لیے ہم بچے پورا ہفتہ انتظار کرتے رہتے تھے۔ خاص خاص تہواروں اور تاریخی دنوں میں توپوں کے دھماکوں سے نواب صاحب کو سلامی پیش کی جاتی تھی۔ صادق گڑھ پیلس کی عظمت اور شان وشوکت سے جڑی یہ بچپن کی یادیں ہیں جو آج بھی کسی فلم کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔
کہتے ہیں کہ کبھی کبھی تاریخ کے صفحے صرف ماضی کی کہانی نہیں سناتے بلکہ احساسات کے وہ بند دروازے بھی کھول دیتے ہیں جن کے پیچھے خوشبو، وفا اور خودداری کے نقش محفوظ ہوتے ہیں۔ ریاست بہاولپور اور یہاں کے صادق گڑھ پیلس کی یاد بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ایک عہد جو گزر گیا مگر اپنے عروج، اخلاق شرافت اور فطری سادگی کے نقوش آج بھی دلوں میں تازہ ہیں۔ ڈیرہ نواب صاحب میں موجود نواب آف بہاولپور کا مسکن صادق گڑھ پیلس ایک تاریخی شہر جہاں زندگی کا بہاؤ نرم اور شائستہ، گلیاں صاف، بازار پرامن، لوگ باادب، دربار کے دروازے بند نہیں بلکہ ہمیشہ کھلے رہتے۔
وہاں انصاف کے فیصلے تحریروں میں نہیں عمل میں دکھائے جاتے تھے۔ نواب صاحب خود دربار میں جلوہ فرما ہوتے سائل کی فریاد سنتے اور انصاف کے چراغ جلاتے تھے۔ علم وادب کی روشنی بھی یہاں خوب پھوٹی اور ریاست میں موجود تعلیمی اداروں نے خود کو تہذیبی روایت کا محافظ بنائے رکھا جس کی باعث بہاولپور ایک خطہ نہیں بلکہ ایک فکر بن گیا تھا اور پھر ایک دن وہ وقت آیا جب یہ ریاست پاکستان میں ضم ہوگئی اور کہتے ہیں کہ نواب آف بہاولپور نے فرمایا تھا "ہم اپنی شناخت قربان کرسکتے ہیں مگر اپنے ملک کو تنہا نہیں چھوڑیں گے " یہ جملہ تاریخ کے سنہری لفظوں میں لکھا گیا کیونکہ یہاں وفا کوئی رواج نہیں ایمان تھی۔ آج جب بہاولپور کے لوگ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں صرف اپنے ماضی کا ایک فخر جھلکتا ہے وہ ٖجو کسی اقتدار یا دولت سے نہیں بلکہ ایک سنہری کردار سے جنم لیتا ہے۔
یہ محل صادق گڑھ پیلس نواب امیر آف بہاولپور چہارم نے تقریباََ دو سو سال پہلے تعمیر کرایا تھا اور اس کی تعمیر میں اطالوی انجینئرز اور مقامی کاریگر شامل تھے۔ تقریباََ ایک سو پچیس ایکڑ پر قائم اس محل کی طرز تعمیر میں ترکی، مغل اور یورپی اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کی طویل اور بلند چاردیواری اور چاروں کناروں پر بنے برج فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔ اس کے اندر ایک سو بیس کمرئے تھے جن میں زیر زمیں کمروں، شاہی دربار، مہمان خانے، یورپی فرنیچر، آئینے جدید لفٹیں اور دیگر آسانیاں فراہم کی گئی تھیں۔ بلاشبہ یہ صادق گڑھ پیلس برصغیر کا "وائٹ ہاوس "سمجھا جاتا تھا۔ اس کا شاہی دروازہ بےشک تاریخ کا ایک نایاب باب ہے۔ جس کے دونوں اطراف دو باوردی گھوڑا سوار تلواریں لیے کھڑے ہوتے تھے اور جس کی سڑکوں پر خوبصورت فٹ پاتھ اور پھولواریاں آنکھوں کو تازگی دیتی تھیں۔
جی ہاں اب اس محل سے سائرن کی آواز نہیں گونجتی، کسی گھنٹے کے کا کھڑاک نہیں ہوتا کوئی گولہ نہیں چلتا۔ ہر جانب ایک اداسی، ویرانی اور خاموشی کا راج ہے۔ صادق گڑھ پیلس کے اس شاہی جاہ جلال سے آج کی ویرانی تک کا یہ دردناک سفر اس بات کی گواہی ہے کہ دنیا میں کسی شے کو ثبات نہیں ہے اور ہر عروج کو زوال ضرور ہے۔ بدقسمتی سے تاریخی اور عروج کی بلندیوں کو چھونے والا یہ شاہکار آج خستہ حالی کا شکار ہو چکا ہے۔ سونے چاندی کی کراکری، نایاب فرنیچر، قیمتی کتب، تزئینی اشیاء اور قیمتی نودارات اکثر یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا پھر سرقہ کی نذر ہوگئی ہیں۔ یہ محل بھی یہاں کے دوسرے کئی محلات کی طرح اندھیروں اور ویرانیوں کا عجب منظر پیش کر رہا ہے۔ اس کی ٹوٹی بیرونی راہداریوں، اجڑے باغات اور سرسبز خوبصورت لان میں پھیلی بربادی دیکھ کربڑا دکھ ہوتا ہے۔
مخدوش عمارات اور ویران بارہ دریاں اس کے ماضی کی گواہ تو ضرور ہیں لیکن بربادی کی داستان بنتی جا رہی ہیں۔ یہاں کے اسلحہ خانہ کی بلند وبالا چمنی بڑی دور سے اس محل کی نشاندہی تو کرتی ہے مگر اپنے اندر اس کی بربادی کادکھ لیے خاموش کھڑی ہے۔ مخدوش شاہی مسجد نمازیوں کے لیے بےتاب ہے۔ لمبے چوڑے موٹر خانے میں تباہ شدہ چند شاہی کاروں سے اس ریاست کی شان وشوکت کا اندازہ لگانا مشکل تو نہیں ہے۔ لیکن ان کی تاریخی حیثیت کا تعین کون کرے گا؟ صادق گڑھ پیلس ایک محل یا قلعہ نہیں بلکہ اس میں پوری ایک دنیا آباد تھی اور دنیا بھر کے سربراہوں، بادشاہوں اور نوابوں کے قدموں کے نشان جہاں کی ہر ہر اینٹ پر ثبت ہوئے۔ آج بھی مجھے کبھی کبھی یہاں کے درودیوار سے فوجی بینڈ کا ریاستی ترانہ خیالوں میں رس گھولتا سنائی ضرور دیتا ہے۔
کھڑی ڈیندی ہاں سنیڑے اناں لوکاں کوں
اللہ آن وساوے ساڈیاں جھوکاں کوں
ریاست بہاولپور کی یاد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ترقی صرف جاگیروں، عمارتوں اور باغات سے نہیں ہوتی بلکہ کردار، علم اور عدل و محبت سے ہوتی ہے۔ ریاست ختم ہوکر پاکستان کا حصہ بن گئی مگر ریاست کے حکمرانوں کی سوچ، ان کا وقار اور ان کی محبت آج بھی اس دھرتی کی فضا اور لوگوں کےدلوں میں موجود ہے۔ بہاولپور کے ریگزاروں میں چلتی ہواوں سے آج بھی صادق گڑھ پیلس کے اس مخصوص سائرن کی آواز دلوں کو محسوس ہوتی ہے۔ ریاستی بینڈ کی دھنیں آج بھی خیالوں میں گونجتی ہیں اور گھڑیال کی ٹن ٹن کبھی کبھی تنہائی میں اچانک ابھر آتی ہے۔
شاید ان یادوں کے امین ہم وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے اس محل کی عظمت بھی دیکھی اور اس کی بربادی اور ویرانی کا دکھ بھی جھیلا ہے۔ ٓاج بھی یہ محل نہ صرف ایک قدیم شاہی دور کی یاد گار ہے بلکہ فن تعمیر اور تاریخی جاہ وحشمت کی علامت بھی ہے۔ اس کی بنیادیں اور ساخت ابھی بھی قابل دید ہیں مگر آنے والی نسلوں کے لیے اس انمول ورثہ کی حفاظت ناگزیر ہے۔ اگر مناسب توجہ اور بحالی کی جائے تو یہ محل علاقائی اور قومی سطح پر سیاحتی اور تعلیمی مقام بن سکتا ہے۔

