Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Sachay Jazbon Ke Garam Sweater

Sachay Jazbon Ke Garam Sweater

سچے جذبوں کے گرم سویٹر

گزشتہ چند دہائیوں سے ہماری تیزی سے بدلتی ہوئی ثقافت اور نئے کلچر کے باعث ہمارے موجودہ معاشرے میں ہاتھ سے بنے ہوے سویٹر، جرسیاں، مفلر اور ٹوپیاں یہاں تک کے ننھے بچوں کے اونی سوٹ نایاب ہو چکے ہیں جو پہلے ہماری گھریلو خواتین سلائیوں کے استعمال سے یہ خوبصورت سویٹر، جرسیاں، مفلر، بچوں کی جرابیں، دستانے، مردانہ و بچگانا ٹوپیاں خود تیار کرتیں تھیں۔

یہ طویل محنت اور مشقت کسی اجرت کے لیے نہیں بلکہ اپنے پیاروں کو بطور تحفہ دینے کے لیے کی جاتی تھی پرانے زمانے میں خواتین گھروں میں اسی طرح کی گرہستی میں مصروف رہتی جو مصروفیت کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی ورزش اور ذہنی سکون کا باعث بنتی تھی۔ ہمارے دیہاتوں میں یہ بھیڑ بکریوں کے بالوں سے بنی اون سے اور شہروں میں اون کے گولوں اور سلائیوں تیار کی جاتی تھیں یہ اون کے گولے اور تیار کرنے کی سلائیاں بازار سے بڑی آسانی سے مل جایا کرتیں تھیں۔

مجھے آج تک یاد ہے جب ہماری ماں ہم سے یہ اون کے گولے منگواتی تھیں تو کہتی تھیں صرف" اے بی سی " اون لانا ہیں کیونکہ کوالٹی اور رنگوں کے لحاظ سے وہ سب سے بہترین تصور کی جاتی تھی۔ بہت سی خواتین سویٹر بنانے اوران میں نت نئے نمونے اور ڈائزائین کی خصوصی مہارت رکھتی تھیں جو ایک مرتبہ سلائیوں سے وہ نمونہ ڈال کر دے دیتیں تھیں پھر باقی سویٹر خواتین خود بن لیتی تھیں اور انتہائی محبت اور دل لگی سے کوئی بھی چیز خصوصی سویٹر بنا کر اپنے پیاروں کو تحفہ میں دی جاتی تھی بعض اوقات تو بغیر بتاےُ کوئی سویٹر یا جرسی تیار کرکے کسی کو پنے پیارے کو سرپرائز دیا جاتا تھا۔ کسی کے لیے کئی کئی مہینوں کی محنت سے تیار کرکے دینا محبت کا یہ انوکھا انداز اب نایاب ہوچکا ہے۔ مائیں اپنے آنے والے بچوں کے لیے پیدائش سے بہت پہلے سے یہ اونی اور گرم کپڑے بڑی محبت سے تیار کرکے رکھتی تھیں۔

خود میری بڑی بہن نے مجھے کئی خوبصورت اور ڈائزاین دار سویٹر بنا کر دئیے جو اس زمانے میں بھائیوں سے محبت کی علامت سمجھے جاتے تھے اور فخریہ بتایا جاتا تھا کہ یہ مجھے تحفہ ملا ہے یہ میری بہن نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ نوجوان عام طور پر بغیر بازو کے سویٹر شوق سے بنواتے اور بوڑھے گلا بند (مفلر) اور گرم ٹوپیاں استعمال کرتے تھے۔ ہماری ماں تو مختلف رنگوں کی پرانی جرسیوں اور سویٹروں کو ادھیڑ کر اون کے گولے بنا کر جمع کرتی جاتیں اور پھر بچوں کی رنگ برنگ جرابیں، دستانے، ٹوپیاں اور دیگر اشیاء بڑے ڈائزاین دار بناتی کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے۔

کہتے ہیں کہ ہاتھوں کے بنے سویٹر کی نرمی اور گرمی کی بات ہی کچھ اور ہوتی تھی جس کے ایک ایک پھندے اور ایک ٹانکے میں پر خلوص انگلیوں کے پوروں کا لمس اور حرارت محسوس ہوتی تھی جیسے سچے رشتوں کا سچا پیار ہوتا ہے لیکن اب ہم لوگ سچے پیار کی نرمی وگرمی کی بجاے دکھاوے کی خوبصورتی پسند کرنے لگے ہیں اور اب ہاتھ سے بنے سویٹر آوٹ آف فیشن تصور کیے جانے لگے ہیں ہماری یہ قدیم روایت اور ثقافت اب دم توڑ چکی ہے۔ جونہی سردی کی آمد ہوتی ہے اور سویٹر پہننے کا موسم آ تا ہے مجھے سویٹر کی طلب کے ساتھ ہی یہ واقعہ بھی یاد آجاتا ہے۔

ہمارے اباجی کو بھی ہاتھ سے بنے سویٹر بہت پسند تھے وہ ہمیشہ ذرا گہرے رنگ کے سویٹر پہنتے تھے ان کے جسم پر آخری سویٹر بھی ایک موٹی اون سویٹر اور اونی ٹوپی ہوا کرتی تھی غالبا" یہ ساٹھ کی دہائی کی بات ہے ہماری امی جان نے بڑی غربت کے باوجود گھر کے اخراجات سے کچھ بچا بچا کر اس وقت کی بہترین اے بی سی اون خریدی اور پھر بڑی محنت اور محبت سے پوری گرمی کے موسم میں گھر کے بےشمار کاموں مںیں سے وقت نکال کر اور سلائیوں کی مدد سے بڑا عمدہ نمونہ ڈال کر ان کے لیے وہ سلیٹی رنگ کا خوبصورت سویٹر تیار کیا شاید وہ چاہتیں تھی کہ یہ نیا سویٹر وہ شدید سردیوں میں آنے والی عید پر انہیں تحفہ دے کر سرپرائز دیں گیں۔

ایک دن ہمارے دادا جان نے اطلاع دی کہ مرزا حنیف بیگ مرحوم المعروف (مرزا گڑبڑی)جو رشتہ دار کے ساتھ ساتھ ہمارے اباجی کے بچپن کے دوست بھی تھے اور محکمہ ڈاک میں پوسٹ مین تھے کسی منی آرڈر کی غلط ادائیگی پر سزا کے طور پر گرفتار ہو کر بہاولپور جیل میں ہیں اور سخت مشکل میں ہیں اس لیے ان سے مل کر ان کی ہر ممکن مدد کی ہدایت کرنے کو کہا۔ سخت سردی میں اباجی نے صبح ڈیرہ نواب صاحب سے پہلی گاڑی پر بہاولپور جانے کا ارادہ کیا تو میں نے بھی ساتھ جانے کی ضد کی یہ پہلی بس صبح اذان سے قبل بہاولپور کے لیے چلتی تھی امی جان نے مجھے بھی گرم کپڑے پہناے ُ اور سردی کی شدت دیکھتے ہوے ُ ناجانے کیا خیال آیا وہ نیا سویٹر نکال کر اباجی کو دیا مجھے خوب یاد ہے وہ تیز سلیٹی رنگ کا سویٹر بہت خوبصورت لگ رہا تھا اباجی نے بہت تعریف اور شکریہ ادا کیا۔

گھر سے روانہ ہو کر بہاولپور پہنچے یہاں شاہی روڈ پر اباجی کے بھتیجے عبدالوحید خان (کونتریلہ والے)ایک مٹھائی کی دوکان پر کام کرتے تھے انہیں ساتھ لیا اور مرزا صاحب کے لیے پھل، مٹھائی وغیرہ لیکر سنٹرل جیل پہنچے جو اس وقت شہر سے باہر کچھ فاصلے پر واقع تھی۔ مرزا صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ بہت تکلیف میں تھے اباجی سے مل کر رونے لگے ہم نے انہیں تسلی اور حوصلہ دیا ان کو جلد رہا کرانے کی کوشش کا وعدہ بھی کیا اور ساتھ لایا ہوا سامان خوردونوش ان کے حوالے کیا جب چلنے لگے تو اباجی نے پوچھا مرزا صاحب کوئی اور ضرورت یا کام ہو بتائیں مرزا صاحب نے کہا بھائی یہاں جیل میں سردی بہت لگتی ہے اور کوئی گرم کپڑنہیں ہے ابا جی نے چند لمحے سوچا پھر اپنا نیا سویٹر اتار کر مرزا صاحب کو دے دیا۔ وہاں سے باہر نکلے تو بھائی وحید خان کہنے لگے چچا ایاز یہ آپ نے کیا کیا؟

میں کوئی گرم کپڑا بازار سے خرید کر لا دیتا! تو اباجی نے انہیں کہا قیدی اور مسافر کا خیال رکھنا اللہ کا حکم اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے یاد رکھنا مجھے اللہ ستر گنا اجر عطا فرماے گا۔ گھر پہنچے تو امی جان نے پہلا سوال یہی کیا سویٹر کہاں ہے؟ جواب میں پوری بات بتا دی میں دیکھ رہا تھا امی جان کا چہرہ غصے، دکھ اور افسوس سے سرخ ہوگیا کیونکہ وہ سویٹر انہوں نے بڑی مشکل اور محنت سے دن رات ایک کرکے بنایا تھا اباجی ان کی ناراضگی کی وجہ سمجھ گئے اور تسلی دیتے ہوے بولے مجھ سے مرزا صاحب کی تکلیف برداشت نہ ہوسکی اللہ کی راہ میں دی گئی ہر چیز ستر گنا زیادہ واپس ملتی ہے لیکن امی جان کا موڈ بہت خراب رہا سواے افسوس کے کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا مجھے یاد ہے پوری زندگی انہیں وہ سویٹر کبھی نہیں بھولا ہمیشہ اس کا ذکر کرکے وہ آبدیدہ ہو جاتیں تھیں کیونکہ وہ صرف ایک سویٹر نہیں تھا اس میں ان کی محبت اور خلوص کا جذبہ پرویا گیا تھا۔

چند سالوں بعد میں نے دیکھا ہمارے اباجی اور امی جان کو اللہ نے اتنے ایک سے ایک اچھے اور امپورٹیڈ سویٹر اور گرم کپڑے دیے کہ وہ سب کو بانٹتی پھرتی تھیں مگر ختم نہ ہوتے تھے پورے ڈیرہ نواب صاحب کے غرباء میں اباجی گرم کپڑے اور سویٹر بانٹتے اور وہ شکر ادا کرتے ہوے امی جان سے کہتے میں نہ کہتا تھا اللہ کا وعدہ ہے ایک کے بدلے وہ ستر دےگا وہ تو ایسا بابرکت سویٹر تھا کہ یہاں تو اس ایک کے بدلے مجھے اس رب تعالیٰ نے ستر ہزار دے دیے ہیں لیکن امی جان اس سویٹر کو کبھی نہ بھول سکیں جب بھی ذکر ہوتا بہت رنجیدہ ہو جاتیں اور کہتیں اس سویٹر کا دکھ مجھے آج بھی رولا دیتا ہے۔

میں نے بڑی مشکل سے رقم جمع کرکے اور اپنی زندگی میں سب سے زیادہ محنت اور محبت سے وہ سویٹر بنایا تھا یقینا"سچے رشتوں اور سچے پیار سے بنی کسی چیز کی کوئی قیمت ہو ہی نہیں سکتی افسوس کہ یہ روایات اب معاشرے سے ختم ہو چکی ہیں۔ نہ تو وہ محبت کرنے والے ہی رہے اور نہ ہی دوسروں کے لیے قربانی کا جذبہ ہی باقی رہا ہے۔

Check Also

Ikhlaqi Aloodgi

By Khalid Mahmood Faisal