Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Saalgirah, Khushi Ya Fazool Kharchi?

Saalgirah, Khushi Ya Fazool Kharchi?

سالگرہ، خوشی یا فضول خرچی؟

کچھ دن قبل ایک اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ وجہ پوچھنے پر پتہ چلا کہ نوجوان محدود وسائل کا مالک تھا۔ جبکہ اس کی سسرال والے نئے نئے امیر ہوئے تھے جبکہ سسرال والوں کا خاندان بھی بہت بڑا تھا۔ ہر ہفتے کسی نہ کسی کی سالگرہ کا دن آجاتا کبھی کسی کی منگنی کبھی شادی، کبھی کسی کے ہاں بچے کی پیدائش کا فنکشن اور کبھی کسی کا پہلا روزہ رکھنا یا امتحان میں پاس ہونے کی مبارکباد اور بیوی ناصرف اس میں شرکت کرنے کے لیے کئی سو میل کا سفر کرتی بلکہ مہنگے مہنگے تحائف بھی دئیے جاتے کچھ عرصہ تو وہ نوجوان برداشت کرتا رہا لیکن رفتہ رفتہ اس کا حوصلہ اور وسائل جواب دینے لگے۔

بیوی کو سمجھانے کی بڑی کوشش کی مگر بیویاں اپنے میکے کے بارے میں بڑی جذباتی ہوتی ہیں اور اپنے ان بھائیوں سے محبت بھی بہت کرتی ہیں جو بعد میں ان کی اور ان کی اولاد کی وراثت تک اکثر ہڑپ کر جاتے ہیں۔ یوں یہ بار بار کی مہنگی تقریبات وجہ تنازع بن گئیں جو دوسرے معاملات کے ساتھ بڑھتے بڑھتے طلاق کی نوبت تک جا پہنچی۔ یہ المیہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ درحقیقت سالگرہ اس جیسی جیسی تقریبات پر بےپناہ اخراجات اس مہنگائی کے دور میں ایک متوسط طبقہ کے فرد کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔

ہر ہفتے یا ہر مہینے کسی نہ کسی تقریب میں شرکت اور قیمتی قیمتی تحائف کے اخراجات بھی اب عوام کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔ ہر تقریب میں مہنگا تحفہ لانا اب ایک غیر اعلانیہ معاشرتی قانون بنتا جارہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ لوگ دلی خوشی کی بجائے مالی مجبوری کے ساتھ شریک تو ہوتے ہیں لیکن اندر ہی اندر پیچ وتاب کھاتے رہتے ہیں اور ایسے مالی مشکلات کے حالات میں بسا اوقات ایسا ہی کوئی بڑا نقصان یا فیصلہ کر بیٹھتے ہیں۔

میرا ایک بھانجا اکثر ایسی تقریبات کی فوٹو گرافی کرتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایسی تقریبات پر کئی کئی لاکھ روپے صرف فوٹو شوٹس پر خرچ کر دئیے جاتے ہیں۔ قوالی نائٹ اور موسیقی میں جھومنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جہاں نوٹوں کی بارش کی جاتی ہے۔ دکھ یہ ہے کہ ان تقریبات کو منانے والے زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہیں جنکی دیکھا دیکھی غریب لوگ بھی اس دوڑ میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔ دولت مندوں کی یہ فضول خرچی غریبوں کے لیے قرض اور مالی مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ ان کے والدین جنہوں نے پچھلی کئی صدیوں سے اپنی سالگرہ کبھی نہیں منائی ہوتی۔ اب اولاد انہیں بھی اپنے ہمراہ اس دوڑ میں گھسیٹ رہی ہے۔ یہ اتنے بڑے بڑے اخراجات بظاہر کسی جائز آمدنی میں تو ممکن ہوتے نظر نہیں آتےکوئی مجھے سمجھائے کہ ایک پچاس یا ساٹھ ہزار بلکہ ایک لاکھ تک کی ماہانہ آمدنی والا بندہ یہ خرچ کیسے برداشت کر سکتا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ جب دنیا بھر میں بڑے بڑے دولت مند لوگ سالگرہ کو منانے میں سادگی کی طرف لوٹ رہے ہیں تو یہاں کے نو دولتے، متوسط اور غریب طبقہ کے لوگ اخراجات بڑھاتےکیوں جارہے ہیں؟ خیال رہے کہ یہ ایک گھریلو تقریب ہے اسے نمود نمائش کا ذریعہ بنانا کہیں دوسروں کو ان کی غربت کا احساس دلانا نہ بن جائے؟ کہتے ہیں کہ خوشی زحمت بن جائے تو وہ خوشی نہیں رہتی دکھ بن جاتی ہے۔

زندگی کا ہر نیا سال بلاشبہ ایک نعمت ہوتا ہے۔ انسان کے لیے یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ پچھلے سال کا محاسبہ کرئے اور آنے والے دنوں کے لیے بہتر ارادے باندھے۔ مگر افسوس کہ آج سالگرہ کی تقریب ایک روحانی و اخلاقی احساس کی بجائے نمائش، دکھاوے اور فیشن کا رنگ اختیار کر چکی ہے۔ زندگی کے سفر میں ایک سال کا گزر جانا دراصل ایک عطیہ الہی ہے۔ شکر گزاری کے یہ لمحات آج سماجی فیشن اور مالی دباو کی علامت بنتا جارہا ہے۔

پہلے زمانے مین سالگرہ کا مطلب محض اتنا ہوتا تھا کہ والدین اور بزرگ شکرکے ساتھ ساتھ دعائیں دیتے تھے، چند عزیز رشتہ دار جمع ہوتے یا کسی مستحق کو کھانا کھلا دیا جاتا، صدقہ و خیرات کر دی جاتی جسے خوشی اور شکر کا اظہار سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج کے مادی دور میں یہ موقعہ مہنگے کیک، ہوٹل بکنگ، سجاوٹ، گفٹ پیکنگ، نئے کپڑے اور فوٹو شوٹس کی دوڑ میں تبدیل ہو چکا ہے۔

ایک جانب ہم مہنگائی اور تنگدستی کا رونا روتے ہیں تو دوسری جانب قرضہ لیکر بھی ایسی تقریبات مناتے ہیں۔ مزید افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ ثقافتی دباو اب بچوں کی نفسیات اور جذبات کا حصہ بنتا جارہا ہے، چھوٹے بچے اپنی سالگرہ پر مہنگے تحفے اور سجاوٹ کی توقع اور مطالبہ کرتے ہیں اور والدین ان خوشیوں کے پیچھے قرض یا قربانی کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ وقت اور پیسے کا ضیاع ہے بلکہ گھر کے بجٹ پر بوجھ اور نفسیاتی پریشانیوںکا باعث بن رہا ہے۔ اسلام ہمیں سادگی، شکرگزاری اور اعتدال کا سبق دیتا ہے۔

سالگرہ کے نام پر ہزاروں روپے مخض دکھاوےکے لیے اڑا دینا، کیک کی تصاویر، تحائف کی نمائش اور مہنگے لباس یہ سب اسراف کی وہ صورتیں ہیں جن سے قرآن اور سنت دونوں منع کرتے ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آج ایسی ہر تقریب میں شرکت ایک مالی مجبوری اور رواج سا بن گئی ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں ہر ماہ یا ہر سال کسی نہ کسی دوست یا رشتہ دار کی سالگرہ پر تحفہ دینا یا شرکت کرنا بجٹ کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔ یوں معاشرتی دباؤ کے باعث خوشی کا یہ موقعہ اکثر لوگوں کے لیے ذہنی اذیت اور بوجھ بن جاتا ہے۔

حدیث مبارکہ ہے کہ "بہترین کام وہ ہیں جو اعتدال پر مبنی ہوں" یہی وہ اصول ہے جو ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ خوشی منانا منع نہیں ہے مگر خوشی میں نمائش، اسراف اور برتری کا جذبہ شامل ہوجائے تو برکت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر سالگرہ کو ہم شکر، محبت اور اصلاح کا ذریعہ بنا لیں تو یہ تقریب ہمارے ایمان اور تعلقات دونون کو مضبوط کر سکتی ہے۔ اصل خوشی وہ ہےجو دلوں کو قریب کردے نہ کہ جیبوں کو خالی اور ذہنوں کو پریشان کردے۔ سالگرہ اگر شکر کا لمحہ بن جائے تو رحمت ہے اور اگر دکھاوئے اور نمائش کا میدان بن جاے تو زحمت بن جاتی ہے۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ نو بھائی بہنوں، بےشمار بھانجوں، بھتیجوں، سالے سالیوں اور قریبی رشتے داروں کے علاوہ میرے اپنے سات بچے ہیں سات ہی داماد اور بہوویں ہیں۔ چار پوتے، تین نواسے اور پھر ان کے سسرال والوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ہر ماہ ان میں سے کئی کئی کی سالگرہ کادن ہوتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ غیر ضروری اخراجات اور فضول خرچی کا یہ بوجھ اٹھایا جاسکے؟

وقت آگیا ہے کہ ہم سوچیں کہ کیا خوشی کا مطلب صرف خرچ کرنا رہ گیا ہے؟ کیا سادگی، خلوص اور تعلق کی اہمیت ہمارے معاشرے سے ختم ہو چکی ہے؟ یاد رہے کہ سالگرہ کوسادہ مگر بامقصد انداز میں منانا نہ صرف بجٹ کو بچاتا ہے بلکہ تعلقات کو بھی مضبوط اور خالص کرتا ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی تقریبات کو معاشرتی برابری کا خیال رکھتے ہوئے منانا موجودہ معاشرے میں سماجی ہمواری پیدا کرنے میں اہم کردار ثابت ہو سکتا ہے۔ اصل اور دلی خوشی وہ ہوتی ہے جو سب کے ساتھ منائی جائے اور کسی پر بوجھ بھی نہ بنے۔

اسلام میں ایسی رسومات کی اجازت دکھائی نہیں دیتا جو دوسروں کے لیے آزار کا باعث بنتی ہوں۔ یاد رہے کہ سالگرہ کی ایسی تقریبات انگریز ی روایات اور کلچر سے ہم تک پہنچی ہیں ہماری تہذیب کا ہرگز حصہ نہیں ہیں۔ پھر بھی اسے منانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بشرط کہ اسے سادگی اور اپنے وسائل میں رہتے ہوئے منائیں۔ آئیں اس بارئے میں سوچیں اور صرف اپنا نہیں سب کا سوچیں اور انفرادی واجتماعی طور پر ایسے اخراجات سے بچیں جو رفتہ رفتہ مالی مشکلات اور باہمی تعلقات میں دوری کا باعث بنتے ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan