Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Pesha Ya Promotion

Pesha Ya Promotion

پیشہ یا پرموشن

میرے ایک دیرینہ دوست استاد منیر خان کہا کرتے تھے کہ ہمارے ملک کے لوگوں کی ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ کچھ بھی ہوں مگر ان کے اندر ایک ڈاکٹر، ایک وکیل، ایک استاد، کھلاڑی، صحافی، دانشور، شاعر، الیکٹریشن، انجینیر اور ہر شعبہ زندگی کا ایک ماہر چھپا ہوتا ہے۔ جو کسی بھی ضرورت کے موقعہ پر باہر نکل آنا اور مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ مریض کی عیادت پر جانے والا ہر شخص بیمار کو اپنی دوائی اور تجربہ استعمال کرنے کی تجویذ ضرور دیتا ہے۔ ہر پریشان شخص کو قانونی مشورہ اور ہر غریب کو پیسہ کمانے کا راز دینا بھی اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہے۔ مکان کی تعمیر پر اپنے اپنے تجربات کا نچوڑ دینا فرض سمجھتا ہے۔

استاد جی ہمارے بچپن کے دوست گو چٹے ان پڑھ ہیں مگر ڈاکٹروں، حکیموں، وکیلوں اور سیانوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی باعث ان سب کے علوم پر اپنی دسترس کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں۔ مجھے وہ بینکنگ کے گر بتاتے تو دوسرے دوست کو نبض دیکھنے کے فن سے آگاہ کرتے تھے۔ مذہبی امور پر تو وہ ہر ایک کو اپنی معلومات اور علم سے نوازتے ہی رہتے تھے جبکہ سیاست پر ان گہری نظر ہوا کرتی تھی سیاستدانوں کے لیے ان کے مشورئے مفت ہوتے تھے۔

مجھے ایک مرتبہ انہوں نے فٹ بال کھیلنے کے لیے کچھ گر سمجھائے تو میں نے پوچھا استاد جی! کبھی فٹ بال کھیلی ہے؟ تو کہنے لگے فٹ بال تو کبھی نہیں کھیلی مگر فٹ بال کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تو ضرور ہیں۔ انہوں نے ڈرائیونگ تو کبھی نہیں کی مگر ہمیں ڈرائیونگ کا طریقہ اور اصول ہمیشہ سمجھاتے۔ ہم سب دوست ان سے مشورہ ضرور کرتے تھے اور درحقیقت ان کی بات میں ایک پرلطف سا وزن بھی ہوتا تھا۔ ایسے لوگ کسی انسایکلو پیڈیا سے کم نہ ہوا کرتے تھے۔ کوئی بات سمجھ نہ آتی تو کہتے کہ اچھا کسی سے مشورہ کرکے بتاوں گا۔ یہ پرانا دور تھا تب ایسے سیانوں کی قدر ہوا کرتی تھی۔

ہماری امی جان بھی جب کوئی بات پوچھنی یا سمجھنی ہوتی تو ہمیشہ اماں بچل مائی یا ماسی حمیدہ سے مشورہ کرتیں جو اپنے تجربے کی بنیاد پر دنیا کے کسی بھی مسئلے کا حل نکال لیتی تھیں۔ لیکن اب استاد منیر اور اماں بچل مائی کی جگہ سوشل میڈیا پر موجود بےشمار لوگوں نے لے لی ہے۔ جہاں مجھے بےشمار ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو ہر شعبہ زندگی کے بارئے میں اپنے قیمتی مشورے مفت بانٹ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا آج کل ایک ایسا میدان بن چکا ہے جہاں ہر کوئی اپنی مہارت کا پرچم تھامے پھرتا ہے بس فرق اتنا ہے کہ پہلے لوگ علم اور تجربہ بانٹتے تھے اب اپنا اپنا "لنک" بانٹتے ہیں۔ ہاں البتہ اب ایسے دانشوروں اور سیانوں کے پاس چل کر جانا نہیں پڑتا ہمارے موبائل نے گھر بیٹھے یہ سہولت مہیا کردی ہے۔

کچھ دن قبل ایک شادی کی تقریب میں شریک ایک اجنبی شخص سے گفتگو ہو رہی تھی۔ موضوح تھا "اسلامی بینکنگ" وہ کامیاب بینکاری کے متعلق ایک طویل لیکچر دے چکا تو میں پوچھا کہ "آپ کیا کام کرتے ہیں؟" تو جواب آیا کہ میں تو لکڑی کا بزنس کرتا ہوں۔ پھر اس نے بھی پوچھ ہی لیا کہ آپ کیا کرتے ہیں؟ تو مجبواََ مجھے بتانا پڑا کہ میں پچاس سال تک بینک ملازمت کرکے رئٹائرڈ ہو چکا ہوں جس میں سے دس سال اسلامی بینکنگ کی ہے تو اس نے مجھے یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو کہ "پہلے کیوں نہیں بتایا"؟ اور چپکے سے میرے پاس سے اٹھ کر چلا گیا۔

کہتے ہیں گو کہ سوشل میڈیا نے علم، رائے اور شعور کے دروازے عام انسان تک کھول دئیے ہیں۔ مگر اسی کھلے دروازئے سے آج مفاد، نمود ونمائش اور تشہیر کا طوفان بھی اندر داخل ہو چکا ہے۔ آج زندگی کا ہر شعبہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ ہر فرد ہر شعبہ زندگی کے بارے7 میں اپنی ماہرانہ رائے دینا فرض سمجھتا ہے۔ مگر سب سے زیادہ خطرناک وہ منظر ہے جہاں ڈاکٹر امراض اور ادویات کی بجائے تعلیمی لیکچر دیتے اور کتابوں کا تعارف اور مختلف اشیاء کی پرموشن کرتے نظر آتے ہیں اور صحافی ادویات اور علاج کی پرموشن کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر اور انجینیرز ادب اور دانشوری پر لیکچر دیتے ہیں تو ہمارے شاعر اور ادیب ادویات تجویذ کرتے ہیں۔ بنی سنوری خواتین خوبصورت کچن اور قیمتی کراکری میں کھانا پکانا سکھاتی ہیں تو جدید ملبوسات پہنے ماہر خواتین میک آپ کے ٹپس دیتی ہیں اور طلاق یافتہ اور کئی کئی شادیاں کرنے والی خواتین اچھی ازدواجی زندگی گزارنے کے طریقے بتاتی ہیں۔ ہر ایک نے اپنا اپنا الگ یوٹیوب چینل بنالیا ہے اور بےشمار فالورز اکھٹے کر لیے ہیں۔ ڈاکٹر مریضوں سے زیادہ فالوورز کی تعداد سے پہچانے جاتے ہیں۔ پہلے کلینک پر مریض قطار میں ہوتے تھے اب وہ کمنٹس سیکشن میں فالورز بن کر کھڑے ہیں۔

ایک صاحب تو کہتے ہیں کہ "یہ شربت پینے سے جسم کی طاقت دوگنی ہو جاتی ہے"۔ مگر یہ نہیں بتاتے کہ طاقت ان کی دوگنی ہوتی ہے یا شربت پینے والے مریض کی؟ ایسا لگتا ہے کہ پیشے بدل گئے ہیں بس نام وہی رہ گئے ہیں۔ جبکہ اخبارات، ٹی وی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بہت سے صحافی اب داوں، کلینکس یا ہیلتھ پروڈکٹس کی تشہیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ ڈاکٹر یا صحافی سوشل میڈیا پر کیوں ہیں بلکہ سوال یہ ہےکہ وہ وہاں کیا کررہے ہیں؟ کیا ڈاکٹر علاج بتا رہا ہے یاصحا فی علم اور خبر دئے رہا ہے؟ کیا وہ شعور پیدا کررہے ہیں یا اپنے فالورز میں اضافے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

کسی زمانے میں اخبارات کے اشتہار اور شہر کی دیواروں پر لکھے اشتہارات "کالا جادو اور بنگالی بابے" اور "محبوب آپکے قدموں میں" کو مشتہر کرتےتھے اور ساری مخصوص بیماریوں کا علاج اور بے اولادی کا حل ان دیواروں پر لکھا نظر آتا تھا۔ جنات، جادو، تعویذ، موکل، ہر طرح کے روحانی مسائل کا حل جو کل تک اشتہارات اور پمفلٹ میں دکھائی دیتا تھا، اب یہ سب سوشل میڈیا کی زینت بن چکا ہے۔ کئی ڈاکٹر ز کی طویل اور لمبی لمبی تحریریں پڑھ کر میں سوچتاہوں کہ یہ ڈاکٹر اپنے مریض کس وقت دیکھتے ہوں گے؟ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ لکھنا بھی ایک وقت طلب کام ہے۔ جہاں لکھنے سے زیادہ پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک ہی مقصد دکھائی دیتا ہے کہ "جو جتنا وائرل، وہ اتنا ہی معتبر" ٹھہرتا ہے۔

آج کل ہر چینل اور ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کوئی نہ کوئی موٹیویشنل اسپیکر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ چہرے پر اعتماد، آواز میں جوش اور الفاظ میں چمک خود روزگار کی تلاش میں دربدر مگر دوسروں کو سکھاتے ہیں کہ "اپنا بزنس شروع کرو "یہی کامیابی کا راستہ ہے یہ نہیں بتاتے کہ وہ خود کیا کرتے ہیں؟ اپنی سی وی اب تک "پینڈنگ" ہے مگر سامعین کو سمجھا رہے ہیں کہ "سیلف برانڈنگ ہی کامیابی ہے" ایسا لگتا ہے کہ موٹیویشن ایک نئی انڈسٹری بن گئی ہے۔ جہاں تجربہ نہیں بلکہ مایوسی کا مقابلہ کرنے کی ادکاری چلتی ہے۔ اب ہر دوسرا نوجوان "موٹیویشن" کے نام پر ویڈیو بنا رہا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اصل موٹیویشن وہ ہے جو عمل سے آئے نہ کہ مائیک کی طاقت سے دی جائے۔

بیرون ملک جانے والوں کی رہنمائی کے لیے ملکی اور غیر ملکی سطح پر ٹک ٹاک اور ویڈیوز کی بھر مار ہے جو لوگوں کو بڑی آسانی سے تعلیمی ویزہ، ورک پرمٹ بڑا سستا دلانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ اسی طرح آن لائن کام اور بزنس کی دعوت عام ہو چکی ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اگر تم لوگوں کو باہر بھجوا سکتے ہو تو خود کیوں نہیں چلے جاتے؟ گھریلو ٹوٹکے اور اور نسخے ہر فرد بتانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت، تعلیمی ادارے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم مل کر ان اشتہارات کے ضابطے ترتیب دیں جہاں صرف وہی بات کرئے جو اس شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari