Parha Likha Pakistan Aur Berozgari
پڑھا لکھا پاکستان اور بےروزگاری
چند روز قبل پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے ایک نوجوان ٹوٹی ہوئی چپل پہن کر دوڑنے اور اول آنے پر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیاکا ہیرو بن گیا۔ یہ کارنامہ مجتبیٰ احمد نے انجام دیا جو کوٹلہ ستیاں کا رہائشی بتایا جاتا ہے۔ یہ نوجوان ایک پرانی شلوار قمیض اور ٹوٹی ہوئی چپل پہن کر اسلام آباد پولیس کی بھرتی کے لیے دوڑ میں شامل ہوا اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں مقبول ہوگیا۔ ابھی بھرتی کے کئی بڑے مرحلے باقی ہیں۔
اس دوڑ میں شریک ہزاروں خوہشمند وں میں یہ غریب دیہاتی بھی اپنے ذہن میں پولیس کی وردی کے ارمان سجائے اپنی قسمت آزمانے وہاں پہنچا تھا۔ یہ نوجوان غربت اور بے روزگاری کا بوجھ اٹھائے اتنی تیز دوڑا جیسے اس کے پاس یہ آخری آپشن ہے۔ اسکی تعلیم کے باوجود بےروزگاری نے اسے دوڑ میں اول پوزیشن حاصل کرکے ریکارڈ قائم کر دیا اور ساتھ ہی پاکستانی نوجوانوں کے موجودہ حالات کی ترجمانی بھی کر گیا اور ساتھ ہی نوجوان نسل کو یہ پیغام بھی دیا کہ طاقت اور صلاحیت کا راستہ کبھی نہیں روکا جاسکتا۔ ٹیلنٹ کبھی چھپا نہیں رہتا۔ آپ کی صلاحیت اور محنت آپکی ڈگریوں سے کہیں زیادہ وزن رکھتی ہے۔
پولیس کانسٹیبل کے لیے بھرتی کے لیے دوڑ میں شامل یہ ہجوم ملکی بے روزگاری اور غربت کی گواہی دے رہا ہے۔ خدا کرئے کہ یہ نوجوان سلیکٹ ہوکر ترقی کی منازل یونہی طے کرتا رہے۔ مجتبیٰ احمد نے ہر نوجوان کو یہ پیغام دیا ہے کہ کامیابی کے لیے کوشش ضروری ہے آپکی کوشش ہی آپکی صلاحیتوں کو سامنے لا سکتی ہے۔ کوشش کر یں اور بار بار کوشش کریں کیونکہ ناکامی کی صورت میں بھی آپ کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں ہے۔
زندگی کی دوڑ دلیری سے دوڑیں ناجانے کونسا لمحہ آپ کی کامیابی کو امر کر دے۔ آپکی کوئی بھی صلاحیت ناجانے کب دنیا کے سامنے آجائے؟ اور شہرت و عزت آپ کا مقدر بن جائے۔ شرط صرف حوصلہ نا ہارنہ اور کوشش جاری رکھنا ہی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ "ہے جذبہ جنوں تو پھر ہمت نہ ہار" کہتے ہیں کہ کامیابیوں کے دروازے شروع میں تنگ ضرور ہوتے ہیں آپکی جدوجہد جلد انہیں کشادہ کر دیتی ہے۔
صرف پولیس ہی نہیں کہیں بھی کسی محکمہ میں کوئی بھی جاب ہو تو بے روزگار درخواست گزاروں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔ جن میں ہر طرح کے ڈگری ہولڈر بھی چھوٹی چھوٹی ملازمت کے حصول کے لیے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں یونیورسٹی چوک پر بےشمار فوٹو اسٹیٹ کی شاپس صرف اس بنیاد پر چلتی ہیں کہ وہ مختلف اسامیوں کے لیے درخواست دینے کے لیے نہ صرف رہنمائی فراہم کرتے ہیں بلکہ ان بے روزگاروں سے اسناد وغیرہ کی فوٹو کرکے اپنی کمائی بھی کی جاسکے۔ ہر شاپ پر مختلف اسا میوں کے اشتہارات آویزاں ہوتے ہیں اور بےروزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد وہاں سے معلومات لے کر اپنی درخواست مکمل کرکے جمع کراتے ہیں۔
مجھے ایک دکاندار نے بتایا کہ بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ ایک جونیر کلرک کی معمولی آسامی کے لیے بھی بیچلرز، ماسٹرز اور ایم فل تک تعلیم یافتہ لوگ درخواست دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے پچھلے دنوں ایک پولیس کا ڈرائیور ملا تو پتہ چلا اس نے دوران سروس ایم فل کیا ہوا ہے۔ مگر ڈرائیوری کرنے پر مجبور ہے اور اس نوکری کو وہ بڑی نعمت اور اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے کیونکہ اس کی قابلیت کے بے شمار لوگ بے روزگار پھر رہے ہیں۔
مجھے ایک فارما سوٹیکل کمپنی کے ریجنل ہیڈ نے بتایا کہ ایک میڈیکل ریپ کے لیے صرف بی ایس سی تعلیم درکار ہوتی ہے مگر ڈاکٹر آف فارمیسی، ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی اور یہاں تک کہ بعض ڈاکٹرز تک اس جاب کے لیے کوشش کرتے ہیں بلکہ اب تو بیشتر میڈیکل ریپ ڈاکٹر آف فارمیسی تعلیم والے نوجوان ہی رکھے جاتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر آف فارمیسی میڈیکل سٹورز پر بہت کم تنخواہ پر بطور فارماسسٹ بھی کام کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ دنیا میں ان کی اہمیت ڈاکٹرز سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی حالت ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی کرنے والے بچوں کا ہے ان کو ملازمت تو دور کی بات ہے انٹرن شپ یا ہاوس جاب کرنا بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔
ہم انہیں ڈگری تو دے دیتے ہیں لیکن ڈگری کے مطابق کام اور ملازمت دینے سے قاصر ہیں۔ یہ سب ملک سے باہر جانے کی کوشش میں کبھی پاسپورٹ آفس یا پھر ویزہ کمپنیوں کے دفاتر کے چکر لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ فارن آفس کے باہر بے پناہ رش ایسے ہی بےروزگاروں کا ہوتا ہے جو کسی بھی قیمت پر ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں اور پھر کچھ تو انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی بلکہ بعض اواقات تو جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں بےروزگاری کا یہ عالم ہر جانب یکساں ہے۔
بینک ملازمت کے دوران میں نے خود بےشمار اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے بینک ڈیویلپمنٹ کی جاب کے لیے انٹرویوز کئے اور ان کو جاب بھی فراہم کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ایم بی اے اور کامرس کے ماسٹرز ہوتے ہیں۔ جو اس معمولی اور نہایت کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ بلکہ اس جاب کے حصول کے لیے بڑی بڑی سفارش بھی کراتے ہیں۔ جس سے احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کے پڑھے لکھے نوجوان کس کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں۔ میرے پاس بطور ٹی بوائے کام کرنے والا ایک نوجوان ایف اے پاس تھا اور بی اے کا امتحان دے چکا تھا۔ بچوں کی نسبت بچیوں کی تعلیمی قابلیت اور بھی زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے۔ ہر میرٹ میں وہ آگے آگے ہوتی ہیں مگر ملازمت کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔
میرے پاس بےشمار ایم بی اے، ماسٹرز، بی ایس سی ایس لڑکیاں بطور کیشیر کام کرتی رہی ہیں یہاں تک کہ بہت سے گریجویٹ اور ماسٹرز بچے ڈیلی ویجز پر بطور سارٹر بنک کے کیش ہاوس میں کام کرتے رہے ہیں۔ ایسے ملک میں جہاں پڑھے لکھے نوجوان ڈگریوں کے انبار اٹھائے ہوئے بےروزگاری کا دکھ جھیلنے پر مجبور ہیں وہیں دوران ملازمت مزید تعلیم حاصل کرنے کا شوق بھی بڑھتا جارہا ہے۔ علم کی شمع روشن کئے کئی نوجوان دوران ملازمت بڑی بڑی ڈگری حاصل کرکے اپنا نام پیدا کر رہے ہیں۔ دوران ملازمت پڑھائی بہت دشوار کام سمجھا جاتا ہے مگر حوصلے جواں ہوں تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔
ایک اور خبر جس نے مجھے حیران کر دیا ہے آجکل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے کہ لاہور کے 11 ٹریفک وارڈن پی ایچ ڈی ہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر پڑھ کر میں سوچ رہا تھا کہ پی ایچ ڈی تو سب سے بڑی ڈگری ہوتی ہے اور یہ تو اپنے آپ کو ڈاکٹر لکھتے اور کہلاتے ہیں۔ تو پھر یہ سب کیوں اور کیسے ہو رہا ہے؟ اسی خبر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اب تو لاہور کے ایک اور ٹریفک وارڈن نے بھی پی ایچ ڈی کرلی ہے جو قصور سے تعلق رکھنے والے رضوان مسعود ہے جس نے اردو کے مضمون میں یہ ڈگری حاصل کی ہے۔
اسی طرح پنجاب پولیس کے ایک اہلکار ہیڈ کانسٹیبل تنویر الاسلام کا نام بھی سننے کو ملا ہے یوں یہ وہ دوران ملازمت پی ایچ ڈی کرنے والے گیارہویں ٹریفک وارڈن ہیں۔ اس طرح لاہور سٹی ٹریفک پولیس شاید ملک کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ فورس بن گئی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق 3100 وارڈنز میں سے 150 ایم فل ڈگری اور 11 ڈاکٹریٹ ڈگری ہولڈرز ہیں، 80 فیصد وارڈنز مختلف مضامین میں ماسٹرز کئے ہوئے ہیں۔ ان میں فرانزک سائنس، مالیکیولر بیالوجی، انگلش، قانون، اکنامکس، ریاضی، کرمنالوجی، انٹرنیشنل ریلیشنز شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا یہ ٹیلنٹ اسی طرح سڑکوں اور ٹریفک کے اشاروں پر کھڑا ڈیوٹی دیتا رہے گا۔ کیا ڈگری اور ٹیلنٹ یونہی بےکار جائیں گی؟ ان کی صلاحیتوں اور قابلیت سے کب فائدہ اٹھایا جا سکے گا؟ میں دوران ملازمت پی ایچ ڈی کرنے والے باہمت لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور ان کے لیے نیک دعائیں رکھتا ہوں۔ یقیناََ ان کو دیکھ کر بےشمار علم کے دیوانوں اور پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ وہیں یہ امید بھی رکھتا ہوں کہ ہمارے یہ باہمت نوجوان اپنی ڈگریوں کی بدولت بااخلاق اور بلند مزاج بھی ثابت ہوں گے اور لوگوں کو ان کے رویےسے ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کی جھلک اور علمیت کا اظہار بھی نظر آئے گا۔
کاش کوئی ایسی پالیسی ترتیب دی جاسکے جو ہر جاب پر تعلیمی معیار کے مطابق تعیناتی ممکن بنا سکے اور ہمارے ملک کے ان پروفیشنل لوگوں کو ان کی ڈگری اور قابلیت کے مطابق جاب ملے سکے۔ پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جہاں کے ستر فیصد لوگوں کی عمر اٹھارہ سے چالیس سال کے درمیان ہے گویا پاکستان کی تقریباََ ستر فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک بڑی اکثریت روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد بہت بڑا سرمایہ اور قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ اس اثاثے کی حفاظت قومی فریضہ ہوتا ہے۔۔