Naya Zamana Nayi Riwayat
نیا زمانہ نئی روایات

مجھے آج سے چالیس سال پہلے کی ایک شادی یاد ہے۔ جب عین نکاح کے وقت دولہن کے باپ نے شرط رکھ دی کہ نکاح میں لکھا جائے کہ لڑکی شادی کے بعد اپنی مرضی سے میکے آیا جایا کرئے گی اسے کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہ ہوگی۔ یہ شرط سن کر دولہا سمیت سب پریشان ہو گئے کہ یہ کیسی شرط ہے؟ نکاح روک دیا گیا کیونکہ یہ شرط دولہا والوں کو منظور نہ تھی جبکہ لڑکی کا باپ اس شرط پر بضد تھا۔ سب لڑکی کے باپ کو سمجھا رہے تھے کہ ایسی شرط نکاح نامہ میں نہ لکھو او۔ البتہ زبانی طور پر سسرال والوں سے یہ وعدہ لے لو کی لڑکی کے میکہ آنے جانے پر کوئی روک ٹوک نہ ہوگی۔ مگر لڑکی کا باپ ماننے کو تیار نہ تھا۔
پوری برادری اور سب رشتہ داروں نے سمجھایا کہ شادی کے بعد عورت کا اصل گھر سسرال ہوتا ہے اور میکے آنا جانا لڑکی کا حق ضرور ہے مگر یہ سب باہمی رضامندی سے ہوتا ہے۔ بڑی مشکل سے اسے راضی کرکے نکاح پڑھوایا گیا البتہ زبانی طور پر وعدہ کیا گیا کہ بیٹی جب چاہے میکہ آتی جاتی رہے گی۔ شادی میں شریک لوگوں نے اس شرط کو بڑا برا محسوس کیا کیونکہ اس وقت یہ عام روایت تھی کہ لڑکی سسرال کی اجازت سے ہی میکے جاسکتی تھی اور اس کی میکے سے واپسی بھی میکے کی اجازت سے ممکن ہوتی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ بیٹیوں کا سسرال دور ہی بھلا ہوتا ہے۔ بلکہ والدین یہ نصیحت کرتے تھے کہ ہمارے گھر سے ڈولی جائے تو سسرال سے جنازہ ہی آئے۔
ہمارے بزرگ بیٹیوں کو کہتے تھےکہ خوشی سے جب چاہے میکے آو لیکن جھگڑے کی صورت میں نہ آنا اور تمہارا اصل گھر تو سسرال ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ عرصے بعد ہی یہ بیوی اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ اپنے میکے کے شہر منتقل ہوگئی اور آج تک ان کا گھر سسرال سے جڑا ہوا ہے۔ لڑکے کے ماں باپ پر کیا بیتی یہ بھی ایک دکھ بھری کہانی ہے۔ اس خاندان کے سارے بیٹے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنے اپنے سسرال کے شہروں میں جابسے اور ماں باپ کا ان کے لیے بنوایا ہوا چھوٹا سا گھر ویرانہ بن گیا اور تقسیم در تقسیم ہوکر کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ کسی بیٹے کو بھی اس میں رہنا نصیب نہ ہو سکا۔
آج کل عجیب بدقسمت اولاد ہوتی ہے جو باپ کی جائداد پر تو لڑتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں لیکن سسرال کی جانب سے وارثتی حق تلفی پر چپ رہتے ہیں۔ ایسے ہی ان کے میکے والے ہوتے ہیں جو اپنی جائداد تو مختلف حربوں سے اپنے بیٹوں میں بانٹ چکے ہیں البتہ ان سے سسرال سے ملنے والی جائداد پر مقدمہ بازی پر مجبور کرتے ہیں۔ وارثتی حق تلفی کی ایسی ہی بےشمار کہانیاں آج کل عام سننے اور دیکھنے میں آرہی ہیں۔
آج چالیس سال بعد ایک نیا معاشرتی اور سماجی رواج یہ بنتا جارہا ہے کہ بیٹیاں شادی کے بعد بھی میکے کے آس پاس رہنے کو ترجیح دیتی ہیں اور شاید والدین بھی بیٹی کو قریب رکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اس رواج کے اندر کئی نفسیاتی اور سماجی پہلو چھپے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ شاید والدین کی یہ بڑھتی جذباتی وابستگی ایک اہم وجہ ہو۔ لیکن نفسیاتی طور پر نئی نسل کی لڑکیاں خود مختیاری کے ساتھ تحفظ بھی چاہتی ہیں۔ میکے کے قریب رہنا انہیں ذہنی آسودگی دیتا ہے۔ تحفظ کا یہ احساس اور یہ ذہنی آسودگی اکثر شوہر اور سسرال کے لیے احساس بے اعتمادی کا باعث بن جاتی ہے۔
سماجی طور پر آج کے والدین بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت تو ضرور کرتے ہیں مگر گھر سے جانے نہیں دیتے۔ روز دیکھنا، ملنا، بات کرنا اور خصوصی طور آجکل موبائل فون پر گھنٹوں گھنٹوں ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ پل پل کی سسرال کی خبریں دینا معمول ہوتا ہے۔ روائتی طور پر پرانی نسل کے نزدیک بیٹی کا "سسرال میں رس بس جانا" ہی کامیاب ازدواجی زندگی کی علامت ہوتا تھا۔ جبکہ آج کی نسل کے نزدیک "اپنی حدود میں آزادی" اصل کامیابی ہے۔ یہ فرق دراصل دو ادوار کی سوچ کا تصادم ہے۔ یوں والدین خود ہی ایسی فضا اور حالات بنادیتے ہیں کہ روز کی بدمزگی سے بچنے کے لیے بیٹی اور داماد بھی میکے کے قریب رہنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ان کی یہ محبت فطری ہو سکتی ہے لیکن اکثر بیٹے کے والدین کے لیے ناانصافی بن جاتی ہے۔
پہلے دور میں بیٹے کا گھر ماں باپ کے زیر سایہ ہوتا تھا اور بہو کو اسی گھر میں آنا ہوتا تھا مگر اب سسرال سے الگ رہنے اور وہ بھی میکے کے قریب رہنے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ بیٹے کے ماں باپ اکثر "غیر ضروری بوجھ" سمجھے جانے لگے ہیں۔ بیٹے کے لیے ایک طرف ماں باپ ہیں تو دوسری جانب بیوی جذبات اور بچوں کا پیار اور وہ اکثر درمیان میں پس کر رہ جاتا ہے۔ لڑکی کے ماں باپ گھر داماد بھی رکھنا نہیں چاہتے اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ بیٹی اتنی قریب ہو کہ ہر روز ملتی رہے۔ ہماری معاشرتی سوچ یہ ہے کہ اپنا بیٹا اور بہو تو اپنے ماں باپ کی بجائےان کے ساتھ ہی رہے جبکہ ان کی بیٹی بھی خاوند سمیت ان کے نزدیک تر رہے۔ اسے بیٹی کی سہولت پسندی یا سسرال سے عدم مطابقت بھی کہہ سکتے ہیں۔
بعض بیٹیاں اپنے سسرال کے ماحول، مزاج یا ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے میکے کے قریب رہنے کا بہانہ بناتی ہیں یوں وہ آہستہ آہست دوگھروں کی زندگی گزارتی ہیں۔ وہ نہ تو مکمل بیوی بنتی ہیں اورنہ ہی بیٹی کے رشتے سے آزاد ہو پاتی ہیں۔ یہ طرز زندگی ازدواجی تعلق کو کمزور کرکے اس میں فاصلہ پیدا کرتا ہے۔ آج پڑھی لکھی ہونے کے باوجود ایسی خواتین اپنے بچوں کے ذہن میں خاوند کے باپ کی وراثت کی بات تو ڈال دیتی ہیں لیکن اپنے میکے سے وراثتی حق تلفی پر خاموش رہتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور اس میں اصل قصور وار کون ہے؟ اور اس کی سزا کسے اور کیسے ملتی ہے؟ یہ سوال اور ان کے جواب سب جانتے ہیں۔ عورت کا سسرال اصل گھر کی بجائے ایک فریق بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شوہر اور بیوی کے درمیان اعتماد کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ والدین اور سسرالی رشتہ دار وں کے درمیان مسابقتی رویہ جنم لیتا ہے۔ اولاد کی تربیت بھی دو خاندانوں کے اثرات کے بیچ الجھ کر رہ جاتی ہے۔
یہ وہ المیہ ہے جسے آج کا معاشرہ نظر انداز کر رہا ہے کہ ہمارا خاندانی نظام ایک وقت میں مضبوط بنیادوں پر قائم تھا۔ بیٹیاں رخصتی کے بعد شوہر اور سسرال کو ہی اپنانیا گھر مانتی تھیں اور میکہ صرف محبت اور یادوں کا حوالہ رہ جاتا تھا۔ مگر ان منظر نامہ بدل چکا ہے۔ نئی نسل کی شادیاں زیادہ تر اس اصول پر طے پاتی ہیں کہ سسرال سے الگ مگر میکے کے قریب ہو۔ یہ رجحان محض جغرافیائی نہیں بلکہ معاشرتی، نفسیاتی اور خاندانی توازن میں تبدیلی کا مظہر ہے۔ بیٹے کی شادی کے بعد اس کے والدین اکثر اکیلے، بوجھ، یا باسی یاد بن جاتے ہیں۔ بیٹا مجبوراََ بیوی کے ساتھ رہتا ہے جبکہ بہو ان کی خدمت تو دور کی بات ہے ساتھ رہنا بھی قبول نہیں کرتی۔ یوں وہی والدین جو کل اپنی اولاد کے لیے سب کچھ قربان کرتے ہیں آج "اضافی فرد " بن جاتے ہیں۔
یہی عورت بطور بہو اپنی اولاد کے لیے سسرال سے وراثت کا تو مکمل حصہ لینا چاہتی ہے لیکن میکے کی جانب سے اپنی جائز وراثت بھی بھائی یا باپ پر نچھاور کرکے اپنا اور اپنی اولاد کا حق مارتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ رجحان دراصل اعتماد، تربیت اور ترجیحات کے بگاڑ کانتیجہ ہوتا ہے۔ جب والدین اپنی بیٹی کو "ہمیشہ اپنا" اور بیٹے کو کو "بیوی کا ہوگیا" سمجھنے لگیں تو معاشرت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
شادی صرف دو افراد نہیں بلکہ دو خاندانوں کے رشتے کا نام ہے۔ اگر ایک خاندان بڑھتا اور بنتا ہے تو دوسرا اجڑنا نہیں چاہیے۔ ہمیں بطور والدین بیٹیوں کو شادی کے بعد سسرال سے مضبوط رشتہ قائم کرنے کی ہدایت ضرور کرنی چاہیے۔ یہ نیا زمانہ ہے اور نئی روایات ہیں۔ جہاں اکثر لوگ بیٹیوں سے محبت تو کرتے ہیں مگر مختلف طریقوں سے ان کی وارثتی حق تلفی کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟

