Nawab Bahadur Yar Jung Aur Tehreek Azadi e Pakistan
نواب بہادر یار جنگ اور تحریک آزادی پاکستان
14 اگست 1947ء کو وجود میں آنے والا پاکستان دنیا کے نقشہ پر صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا نام نہیں، یہ نام ہے اس نظریے کا اس سوچ کا جس کا آغاز تو ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ کرچکے تھے مگر اس تحریک آزادی کا باقاعدہ آغاز 1857ءکی جنگ آزادی سے ہوتا ہے۔ یہ داستان ہے ان بےشمار لوگوں کی جن کی جانیں اور عزتیں چھن گیں جن کے بچے، بزرگ اور عورتیں اس تحریک کو اپنے لہو سے سنچتے ہوے یہاں تک پہنچے۔
وہ کیا سوچ اور نظریہ تھا اور ہر مسلمان تک کیسے پہنچا یہ بھی ایک لمبی داستان ہے۔ وہ تھا دو قومی نظریہ اور برصغیر میں ہر ہر مسلمان تک اس پیغام کو پہنچانے میں ہمارے بےشمار سیاستدانون، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور مقرروں کی پوری پوری زندگیاں صرف ہوگیں ان کی یہ جدوجہد کئی نسلوں پر محیط ہے۔ شاید دنیا کا مشکل ترین کام کسی قوم کی سوچ بدلنا اور اس کے حصول کے لیے ان کو یکجا کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام ہمارے اکابرین آزادی نے جیسے کیا اسکی مثال دنیا کی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ یوم پاکستان دراصل ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے جنہوں نے اپنی پوری پوری زندگی اس سوچ اور نظریے کو پروان چڑھا نے کے لیے قربان کردی۔
مسلم لیگ کے ستائیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ 1940ء کو تحریک آزادی و حصول پاکستان میں ایک بے پناہ اہمیت حاصل ہے اس تاریخی اجلاس میں مولوی فضل الحق نے قرار داد پاکستان پیش کی جو منظور ہوگئی۔ اسی تاریخی اجلاس میں ایک مرد مومن نے ایسی سحر انگیز تقریر فرمائی کہ پورے مجمع کو مسحور کر دیا جب ان کا یہ خطاب ختم ہوا تو لوگوں پر سکوت طاری ہو چکا تھا۔
ہمارے عظیم قائد نے صرف ایک تاریخی جملے میں کچھ اس طرح انہیں خراج تحسین پیش کیا "بہادر یار جنگ کے بعد کسی اور کا تقریر کرنا غلطی ہوگی" جی ہاں یہ تاریخ ساز مقرر اور خطیب تحریک آزادی پاکستان نواب بہادر یار جنگ ہی تھے۔ گو اس دور میں بےشمار اور ممتاز خطیب اور مقرر موجود تھے لیکن لیکن جو ایک بار آپ کی تقریر سن لیتا وہ آپ کے فن خطابت کا معترف ہو کر ہ جاتا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ اکثر فرماتے تھے کہ "اس جوان نے اگر کسی سے عشق کیا ہے تو وہ ایک بوڑھے (قائد اعظم محمد علی جناح) سے کیا ہے"۔
نواب بہادر یار جنگ جب باقاعدہ طور پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو قائد اعظم نے تاریخی جملہ کہا تھا "مسلم لیگ تاحال بے زبان تھی اب اسے زبان مل گئی ہے" ایک اور مرتبہ فرمایا "نواب بہادر یار جنگ بڑے نازک مواقع پر میرے لیے رہبر اور مشیر ثابت ہوئے خدا انہیں عمر دراز عطا کرے"۔ نواب بہادر یار جنگ کو قائد اعظم کی انگریزی تقاریر کا اردو ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا اسی لیے قائد اعظم نے انہیں اپنا ترجمان ہونے کا اعزاز بھی بخشا تھا جو ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔
ہمارے والد صاحب ہر سال یوم بہادر یار جنگ مناتے تھے انہیں نواب بہادر یار جنگ کے ہمراہ کام کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا تھا وہ فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کی آزادی کی تحریک کا سب سے اہم ستون نواب بہادر یار جنگ تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اور اپنا تن من دھن حصول پاکستان کی جدوجہد پر وار دیا۔ وہ ایک سچے عاشق رسول ﷺ ہونے کے ساتھ علامہ اقبالؒ کے بڑے شیدائی اور قائد اعظم کے معتمد خاص اور دست راست تھے جنہوں نے قائد اعطم کی قیادت میں ان کے شانہ بشانہ حصول پاکستانی کی جنگ لڑی اور شاید یہ انکی تقاریر ہی تھیں جن کی بدولت برصغیر کے مسلمانوں میں جذبہ آزادی بیدار ہوا اور مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔
دوسری جانب انکی اور انکی تحریک کی وجہ سے برصغیر کے تقریباََ ایک لاکھ غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا جن میں سے پانچ ہزار لوگ ان کے ہاتھوں پر بیعت کرکے حلقہ اسلام میں داخل ہوے جو ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ وہ فرماتے تھے اسلام گفتار کا نہیں کرادار کا مذہب ہے لوگ ہماری باتوں سے نہیں ہمارے کردار سے متاثر ہوتے ہیں کسی کو اسلام کی دعوت دینے سے پہلے اسے اپنے آپ نافذ کرکے دکھانا چاہیے۔
کہتے ہیں آزادی کی تحریک قربانی کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی طویل جدوجہد بھی مانگتی ہے۔ تحریک آزادی پاکستان کے دوران جہاں دانشوروں، صحافیوں، شاعروں، ادیبوں، عورتوں، بچوں، بزرگوں، نے سیاستدانوں اور قائد اعظم کا ساتھ دیا وہیں برصغیر کے مقررین نے اپنی شعلہ بیانی سے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں آزادی کی شمع کو روشن کیا ان میں نواب بہادر یار جنگ کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے اور انہیں خطیب تحریک آزادی پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے نوجوانی کے عالم میں میلاد، عید میلاد النبی کی محفلوں سے اپنی تقریروں کا آغاز کیا اور مساجد میں وعظ کے زریعے اپنی تحریک کی ابتدا کی وہ مولانا رومیؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار اور سوچ سے بے متاثر تھےاور سیاست میں ان کے ہیرو قائد اعظم تھے جس کی وجہ وہ ان کی اصول پرستی، بے باکی، صاف گوئی کو قرار دیتے تھے۔
نواب بہادر یا جنگ کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی خطابت تھی قدرت نے انہیں یہ نعمت اور صلاحیت بطور خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انہوں نے ہر موقع اور محل پر بہترین انداز میں کیا وہ بغیر کسی تیاری کے کسی بھی موضوع پر بے تکان بولتے تھے الفاظ کا چناو اور انتخاب، فقروں کی بندش اظہار خیال کی ندرت اور آواز کا اتار چڑھاو اس قدر متوازن ہوتا کہ مجموعی طور پر ان کی تقریر ایک شہ پارہ بن جاتی تھی۔ ان کی ہر تقریر سننے والوں کو پچھلی تقریر سے بہتر معلوم ہوتی اس لیے بڑے ذوق وشوق سے سنی جاتی تھی۔ انہوں نے تحریک آزادی پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دہی سے حصہ لیا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے شیدائی، سچے عاشق رسول اور مولانا رومی اور علامہ اقبال کے پیروکار تھے بلاشبہ ان کی زندگی میں ہمارے لیے ایک ایسا قابل تقلید نمونہ موجود ہے جسے علامہ اقبال کے "مرد مومن" سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
نواب بہادر یار جنگ تحریک پاکستان میں مسلمانوں کے ایک بڑے رہنماء تھےجو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوے نسلاََ وہ نور زئی پٹھان تھے۔ ان کے والد نواب نصیر یار جنگ ایک بڑے جاگیردار تھے بےشمار دولت کے باوجود وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے بہت کم گفتار مگر بہتریں مقرر تھے۔ بیس بائس سال کی عمر میں سماجی بہبود کے کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ مسلم ممالک اور مسلمانوں کے حالات سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ اسلامی ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ برطانوی اقتدار کے مخالف تھے۔ حیدرآباد کے جاگیردار ان کے اس رویے سے بہت نالاں تھے لیکن ان کی مخالفت نے ان کے اس عزم کو اور پختہ کردیا اور وہ برصغیر کے مسلمانوں کی بہتری کے لیے آخری دم تک کوشاں رہے۔
آپ نے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد ڈالی آپ کی اس جماعت نے حیدرآباد دکن کی ریاست اور اس ریاست کے باہر مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے بڑا کام کیا۔ آپ کا شمار برصغیر پاک وہند کے چوٹی کے مقررین میں ہوتا تھا۔ وہ نہایت پرامن اور حالات اور مصلحت کے تحت اپنی تحریک چلاتے رہے۔ وہ آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ کے بانی اور صدر بھی تھے۔ ان پر والئی ریاست کی جانب سے ان کی ان سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے پابندیاں بھی لگیں نظر بندی اور قید کی صعوبت بھی برداشت کی اور نے آپ نے اپنا ٹائٹل اور منصب چھوڑکر اپنی جاگیر سے بھی دست کش ہو نا قبول کر لیا لیکن اپنے مقصد اور نظریات سے پیچھے نہ ہٹے۔
ہماری بدقسمتی کہ صرف چالیس سال کی عمر میں ہی ایک لاکھ لوگوں کو مسلمان کرنے والی یہ عظیم ہستی اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھنے سے پہلے 1944ء میں موت کے بے رحم ہاتھوں ہم سے جدا ہوگئی اور انکی آواز کا دبدبہ اور جوش خطابت ہم سے روٹھ گیا مگر ہمیں پاکستان کی صورت میں ایک عظیم تحفہ دے گئی۔