Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Munafiqat Ki Barhti Waba Aur Nayi Naslein

Munafiqat Ki Barhti Waba Aur Nayi Naslein

منافقت کی بڑھتی وبا اور نئی نسلیں

گذشتہ دنوں ایک عزیز کے ہاں چند رشتےداروں کے ہمراہ گپ شپ ہورہی تھی وہاں نا موجود دوسروں لوگوں کے بارے میں تنقید مرد و خواتین کا موضوع سخن تھا گھر کے بچے بھی ساتھ ہی بیٹھے ساری گفتگو سن رہے تھے۔ مہمانوں نے اجازت چاہی اور ان کے جانے کے بعد ایک چھوٹے سے بچے نے معصومیت سے کہا امی جان اب مہمان چلے گئے ہیں اب انہیں بھی "دھو" دیں یعنی اب ان کی غیبت یا برائیاں شروع کر دیں۔

میرے لیے یہ بڑی حیران کن بات تھی کہ چھوٹی عمر کے بچے بھی اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنا ہماری عادت اور ضرورت بن چکی ہے۔ غیبت ایک ایسی عادت کا روپ دھار چکی ہے جو ہمارے معاشرے میں رواج سا بن گیا ہے۔ جسے ہماری نئی نسل بڑے غور سے دیکھ بھی رہی ہے۔ ان کے محسوس کرنے اور کاپی کرنے کی صلاحیت بڑوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس لیے وہ ہر عادت کو جلد اپنا لیتی ہے۔ یہ غیر محسوس وبا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں چہروں پر مسکراہٹ مگر دلوں میں کینہ اور مفاد کی کھچڑی پک رہی ہوتی ہے۔ نئی نسل یہ منظر دیکھتی ہے تو وہ بھی سچائی اور اصولوں کے بجاے وقت کے ساتھ چلنے کی راہ اختیار کر لیتی ہے۔

آج ہم نے ریاکاری کو کامیابی کا لباس پہنا دیا ہے۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا اور اسکرین نے نکال دی ہے جسے چھوٹے بچے فوری قبول کر تے ہیں۔ کسی بھی شخص کی پس پشت وہ بات کہنا جو اگر اس کے سامنے کہی جاے تو اسے ناگوار گزرے چاہے وہ بات حقیقت ہی کیوں نہ ہو اگر وہ بات جھوٹ ہے تو بہتان ہے اور غیبت سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہی بری عادتیں معاشرے میں منافقت کو جنم دیتی ہیں۔ فرمان رسول ﷺ ہے "تم میں سے سب سے برا شخص وہ ہے جو دوچہرے ولا ہے۔ جو ایک جماعت کے پاس ایک چہرہ لے کر آتا ہے اور دوسری جماعت کے پاس دوسرا چہرہ لے کر جاتا ہے" (بخاری) دو چہرے والوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ سامنے تعریف اور پیچھے تنقید کرتا ہے۔ ہر محفل میں اپنی بات محفل کے مطابق بدل لیتا ہے اور اپنے وقتی فائدے کے لیے اصول قربان کر دیتا ہے۔ سچائی اور دیانت سے محروم ہوتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر اعتماد متزلزل اور رشتے بے وزن ہو جاتے ہیں۔

اچھے انسانی معاشروں کی بنیاد ہمیشہ سچائی اخلاص اور اعتماد پر قائم رہی ہے۔ یہ وہ ستون ہیں جن پر تہذیبیں کھڑی ہوتی ہیں اور جن کی مضبوطی سے ہی آنے والی نسلیں مضبوط رہتی ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے عہد کی سب سے بڑی وبا "منافقت" بن چکی ہے۔ یہ وہ خاموش زہر ہے جو ہماری رگوں میں سریت کرکے ہمارے اخلاقی وجود کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ منافقت ایک رویے کا نام ہے اور اس کو بنی نوع انسان کے ہر دور میں انتہائی نفرت انگیز سمجھا گیا اور اب بھی سمجھا جارہا ہے۔ وہ لوگ بھی منافقت سے نفرت کرتے ہیں جو خود بھی نفاق یا منافقت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ منافق معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔

کوئی اچھا انسان ہو تو اس کو اچھا کہا جاتا ہے اور کوئی برا ہو تو اسے برا لیکن دنیا میں ایسے انسانوں کی کمی نہیں جن کے رویے کا رجحان برائی کی طرف تو ہوتا ہی ہے لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتے اور بظاہر دوسرا انسان ایسا محسوس کرتا ہے کہ مقابل فرد اچھے رویے یا اچھی سوچ کا حامل ہے اور اس میں برائیاں نہیں ہیں۔ جبکہ وہ برائیوں سے لتھڑا ہوتا ہے اور ایسا شخص معاشرے کے لیے زہر کی حیثیت رکھتا ہے یعنی "بغل میں چھری اور منہ میں رام رام" ایسا شخص پیٹھ پیچھے وار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ اسلام منافقت اور دوغلے پن کو ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔

حدیث مبارکہ ہے کہ "جو شخص دنیا میں دوغلا ہوگا تو قیامت میں اس کی زبان آگ کی ہوگی" منافقت ایک ایسی خاموش وبا ہے جو ہوا کی مانند دکھائی تو نہیں دیتی مگر سانسوں میں گھل کر روح کو بیمار کردیتی ہے۔ بظاہر اخلاق اور مسکراہٹ میں لپٹی ہوتی ہے لیکن اندر سے خلوص اور محبت کے خیمے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ اس کے اثرات شور نہیں مچاتے لیکن جب تک انسان کو ہوش آتا ہے وہ اپنے اصل وجو د اور شخصیت کو کھو چکا ہوتا ہے۔

ہماری تہذیب آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں سچ اور جھوٹ کے درمیان کی لکیر مٹتی جارہی ہے۔ پہلے منافقت کو برائی اور گناہ سمجھا جاتا تھا۔ لوگ اس بدنما داغ میں مبتلا بھی ہوتے تو کم ازکم شرمندگی ضرور محسوس کرتے تھے۔ لیکن آج یہ رویہ ایک مہارت اور سماجی ہنر بن چکا ہے۔ سیاست ہو یا مذہب، تجارت ہویا تعلیم۔ ہر شعبے میں دوغلا پن ہی کامیابی کی ضمانت سمجھ جانے لگا ہے۔ آج معاشرہ ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے جہاں منافقت کو نہ صرف برداشت کیا جارہا ہے بلکہ اسے کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہےبلکہ اس پر فخر بھی کیاجاتا ہے۔ یہ وبا خاندانوں اور رشتوں کے درمیان دیمک کی طرح اندر ہی اندر فاصلے اور بدگمانیاں پیدا کررہی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاے؟ تمہیں تو یہ سخت ناگوار ہے"۔

یہی رویہ ہماری آنے والی نسلوں کو سب سے بڑا تحفہ دیا جارہا ہے۔ بچے اپنے ارد گرد دیکھتے اور سنتے ہیں کہ استاد سچائی کا درس دیتا ہے مگر خود جھوٹ بول کر عمل میں کمزور دکھائی دیتا ہے۔ والدین نیکی کی تلقین کرتے ہیں مگر خود جھوٹ، سود اور حرص میں الجھے نظر آتے ہیں۔ ہمارے رہنما اور لیڈر شرافت اور دیانت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر کرپشن اور اقتدار کی ہوس ان کی اصل پہچان ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی نسل سچائی کو ایک کمزوری کا ہتھیار سمجھنے لگتی ہے اور منافقت کو زندگی کا بہترین ہنر سمجھتی ہے۔

روزمرہ زندگی میں بھلا خود سگریٹ یا شراب پینے والا کیسے دوسرے کو اس برائی سے روک سکتا ہے؟ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ جھوٹ کا نقاب لوگوں سے بےشک زیادہ دیر تک اصل چہرہ چھپا سکتا ہے مگر ضمیر کے سامنے نہیں۔۔ جھوٹ سچائی کا لبادہ اوڑھ سکتا ہے مگر خلوص کی خوشبو کبھی نقل نہیں کی جا سکتی۔ وہی بات کریں جو حقیقت اور دل کی نیت سے ہو اور اپنی رائے اور اصولوں پر ڈٹ جائیں چاہے وقتی نقصان ہی کیوں نہ ہو رہا ہو۔ اپنے قول وفعل میں یک رنگی اور حقیقت کو تسلیم کرنے کی جرات پیدا کریں۔ یا رہے کہ۔ جو ہم کر رہے ہیں وہی آگے منتقل ہو رہا ہے ہماری نئی نسل ہمیں دیکھ کر ہی نقل کرتی ہے۔

یہی شاید وہ نئی تہذیب ہے۔۔ جہاں کردار سے زیادہ ظاہر اہم ہے، نیت سے زیادہ نعرہ معتبر ہے اور اخلاق سے زیادہ مفاد پرستی کو فوقیت حاصل ہے۔ ہم نے نئی نسلوں کو یہ سبق دیا ہے کہ اپنے اصل چہرے کو چھپاو، سماجی نقاب پہنے رہو اور جھوٹ کو اتنی بار دہراو کہ وہ سچ لگنے لگے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تہذیب پائیدار ہو سکتی ہے؟ کیا ہماری آنے والی نسلیں محض "دوغلے پن" کے سہارے اپنی شناخت قائم کر سکیں گی؟

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جھوٹ وقتی سہارا تو دیتا ہے مگر بنیاد کبھی نہیں بن سکتا۔ جب نئی نسل حقیقت کو پرکھنے لگے گی تو وہ اپنے بڑوں کو قصور وار ٹھہراےگی کہ انہیں کردار کی بجاے منافقت ورثے میں دی گئی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں اخلاقی طور پر زندہ اور فکری طور پر آزاد ہوں تو ہمیں ابھی سے اپنے قوم وفعل میں یکسانیت پیدا کرنا ہوگی۔ ورنہ یہ جھوٹ، غیبت اور بہتان سے تعمیر ہونے والی منافقت کی نئی تہذیب ہماری اصل تہذیب کو نگل جاے گی اور ہم صرف تاریخ کے اوراق میں ایک ناکام معاشرہ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ اس وبا کا علاج دوا میں نہیں بلکہ ہمارے کردار کی سچائی، قول وفعل کی یکسانیت اور اخلاقی جرات میں پوشیدہ ہے۔

نئی نسل کو سمجھنا ہوگا کہ اصل کامیابی نقاب میں چھپنے میں نہیں بلکہ اپنا چہرہ صاف رکھنے میں ہوتی ہے۔ جو معاشرہ اپنی نئی نسل کو آئینے سے دوستی کرنا سکھا دے وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتا۔ کیونکہ معاشرے کا زوال تلوار کی کاٹ سے نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے تو ہماری منافقت ہی کافی ہے۔ اگر ہم نے وقت پر اس بیماری کا علاج نہ کیا تو آنے والے دنوں میں ہماری آئندہ نسلیں خوشبو کے بغیر پھول اور ساے کے بغیر درخت بن کر رہ جائیں گیں اور یاد رکھیں جب معاشرہ خوشبو اور سایہ کھو دیتا ہے تو اس کا وجود دیر پا نہیں رہتا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan