Mukammal Log Aur Hamari Adhoori Sochein
مکمل لوگ اور ہماری ادھوری سوچیں

عام طور پر کہتے ہیں کہ انسانی خاندان بچوں یا اولاد کے بغیر مکمل نہیں ہوتے؟ جبکہ بے اولادی، بانجھ پن کے باعث پیدا ہونے والا یہ المیہ صرف طبی یا جسمانی مسئلہ نہیں رہتا بلکہ رفتہ رفتہ ایک سماجی، نفسیاتی اور روحانی سانحہ بن جاتا ہے خصوصاََ ہمارے دقیانوسی معاشرئے میں جہاں اولاد کو نعمت خداوندی کے ساتھ ساتھ "عزت" اور "تکمیل ازدواج" کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اولاد کو اپنے خاندان اور اپنی نسل کی بقاکی ضمانت تصور کیا جاتا ہے۔ اولاد نہ ہو تو انسانی زندگی ادھوری نہیں ہوتی مگر یہ معاشرہ بار بار اس کا احساس دلا کر اسے مکمل نہیں ہونے دیتا۔
ایسا ہی میرے بڑے ہی پیارے دوست مظفر خان مرحوم کے ساتھ ہوا جو دنیاوی تمام تر آسائشیں اور ضروریات رکھنے کے کے باوجود اولاد کی نعمت سے محروم رہے۔ ان کی پھولوں، پھلوں، بیلوں اور سبزوں سے ڈھکی کوٹھی دو بہتی نہروں کے درمیان سڑک کنارے بہاولپور کے نوابوں کے بعد سب سے خوبصورت اور دیدہ زیب کوٹھی شمار ہوا کرتی تھی کہ گزرنے والے لوگ رشک کیا کرتے تھے۔ مگر بچوں کی آوازوں سے محروم اس وسیع وعریض کوٹھی کی چہل پہل بہت ہی محدود رہتی۔ البتہ شام کو ہم دوستوں کی کوٹھی کے لان میں بیٹھک اور تاش کی طویل بازی کے ساتھ ساتھ گونجتے قہقہے چند لمحوں کو خوشگوار بنا دیتے تھے اور پھر یہ بڑا سا گھر خاموشیوں میں ڈوب جاتا۔
مظفر بھائی کی بیگم ان سے بھی زیادہ ذہینِ پروقار اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ ان کی جانب سے تواضع کا اپنا ایک الگ اور مخصوص معیار ہوا کرتا تھا۔ اولاد سے محروم یہ خوبصورت اور پروقار مثالی جوڑا ہر لمحہ خوش و خرم دکھائی دیتا۔ اپنی مسکراہٹوں اور قہقہوں میں بےاولادی کا دکھ اور تنہائی کا درد چھپائے رکھنا ان کا کمال تھا۔ ان کے رہن سہن، جائداد اور مال و دولت کو رشک سے دیکھتے ہوئے ایک دفعہ تو ان کی بےاولادی کا دکھ ہر فرد محسوس کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ میرے ہاں جب کسی بچے کی ولادت ہوتی یہ دونوں میاں بیوی سب سے پہلے مبارکباد کے لیے پہنچتے اور ہم بھی اپنا بچہ ان کی گود میں ڈال دیتے کہ ڈاکٹر صاحب اگر آپ گود لینا چاہیں تو لے جائیں مگر وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال جاتے تھے۔ لیکن میرے ان بچوں سے محبت ہمیشہ بہت کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد جو ان کی جائداد اور گھر کے ساتھ ہوا اسکا درد بھی دیکھنے اور سننے والے ہمیشہ محسوس کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ زندگی کی سب سے حسین اور بڑی خواہش اولاد کا لمس سمجھا جاتا ہے۔ مگر جب قدرت کسی جوڑے کو اس نعمت سے محروم رکھتی ہے تو یہ محرومی اکثر ان کے لیے صرف جسمانی نہیں رہتی بلکہ ذہنی اور جذباتی زخم بن جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بےاولادی کو بیماری سے زیادہ "عیب" سمجھا جاتا ہے اور یہی سوچ اس المیے کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ آج جہاں ترقی یافتہ مغربی دنیا میں بانجھ پن ایک علاج طلب طبی مسئلہ ہے وہیں ہمارے معاشروں میں یہ عیب، الزام اور طعنہ بن جاتا ہے۔ اکثر عورت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ حالانکہ طبی حقائق کے مطابق مردانہ بانجھ پن کی شرح بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ایسے جوڑے معاشرتی دباؤ، سوالات اور ترس بھری نظروں کا شکار ہوکر تنہائی اور ذہنی اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہی شاید اس مثالی جوڑا کا المیہ تھا۔
اولاد کی خواہش فطری ہے لیکن جب یہی خواہش حسرت بن جائے تو خود پر یقین متزلزل ہو جاتا ہے، رشتے کمزور پڑنے لگتے ہیں اور احساس کمتری انسان کی روح تک میں دراڑ ڈال دیتا ہے اور کچھ گھرانے تو خاموشی سے ٹوٹنے لگتے ہیں۔ مگر یہ جوڑا یقین اور اعتمادی کی بلندیوں پر تھا۔ گو پیر فقیر، ڈکٹر اور حکیم کوئی نہ چھوڑا مگر سب کی ایک ہی رائے تھی کہ سب ٹھیک ہے صرف اللہ کا حکم نہیں ہے۔ ایک مرتبہ میں نے ہمت کرکے اس بارئے میں بات کی اور مشورہ دیا کہ بھائی اب تو شادی کو کئی دھائیاں گزر چکیں اولاد کے لیے دوسری شادی ہی کرکے دیکھ لو تو مظفر خان نے ہنس کر کہا ضرور مگر اس کی کیا گارنٹی ہے کہ دوسری بیوی سے بچہ ضرور ہوگا؟ میں لاجواب ہوگیا۔ پھر کہنے لگے خداکی رضا میں راضی رہنا بھی کسی عبادت سے کم نہیں ہوتا۔
اولاد زندگی کا حسن اور نعمت ضرور ہے مگر زندگی کی قیمت ہرگز نہیں۔ میری بیوی نے مجھے وہ سب کچھ دیا ہے جو ایک بیوی کا حق ہوتا ہے محبت، احساس، خیال، توجہ، دل و دماغ، ہر لمحہ ساتھ، ایک پرسکون گھر سوائے اولاد جو اس کے بس میں نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہو سکتی ہے۔ بےاولادی کوئی ناکامی نہیں بلکہ ایک امتحان ہے۔ اگر معاشرہ اس امتحان میں انسان کا ساتھ دئے تو یہ المیہ نہیں رہتا بلکہ تقدیر کی قبولیت کا پرسکون اظہار بن جاتا ہے۔ رب کی جانب سے چنے جانے والے اور اس امتحان اور آزمائش پر پورا اترنے والے بدقسمت نہیں بلکہ خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جن پر ان کے رب کی خاص نظر ہوتی ہے۔
ایسے ہی میرے ایک چچا جان نے بھی تمام عمر اپنے بھائیوں بہنوں کے بچے گود لے کر پالے اور خاندانی دباؤ کے باوجود کبھی اولاد کے لیے دوسری شادی کی خواہش یا کوشش نہیں کی۔ وہ کہتے تھے کہ بات تو فقط احساس کی ہوتی ہے ورنہ کچھ لوگ زمین کے اندر جاکر بھی زندہ رہتے ہیں اور کچھ زمیں پر زندہ موجود رہ کر بھی مر جاتے ہیں۔ ہم سب تو ادھورے ہوتے ہیں مکمل تو یہی لوگ ہیں جو رب کی رضا میں راضی رہ کر خود کو امر کر لیتے ہیں۔
دنیا میں ناجانے کتنے ہی لوگ اس محرومی اور کرب کے المیے سے گزر رہے ہیں۔ کتنے ہی لوگ اولاد پاکر بھی بیماریوں اور حادثات کی باعث انہیں گنو ابیٹھتے ہیں؟ اور کتنے کو یہ دکھ یہ کہ ان کے ہاں نرینہ اولاد کیوں نہیں ہے؟ ذرا سوچئے اولاد نہ ہونے کا دکھ بڑا ہے یا پھر اولاد حاصل کرکے گنوا دینا اذیت ناک ہے؟ قرآن پاک فرماتا ہے کہ "وہ جسے چاہے بیٹیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹے اور جسے چاہتا ہے دونوں سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے بےاولاد رکھتا ہے" (سورۃ الشوری)، گویا اولاد کا ہونا یا نہ ہونا اللہ کے امرکن پر موقوف ہے انسان کی خطا یا کسی کمی پر نہیں ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بانجھ پن کو اللہ کی دین اور طبی مسئلہ ہی سمجھیں۔ اخلاقی جرم یا سماجی داغ نہیں بلکہ ایسے جوڑوں کو نفسیاتی سہارا دیا جائے اور انہیں گود لینے، سماجی خدمات یا روحانی تسکین کے دیگر ذرائع کی طرف راغب کیا جائے۔ دنیا میں بہت سی ایسی عظیم ہستیاں گزری ہیں جو اولاد سے محروم تھیں مگر انسانیت کی خدمت میں ان کے نام ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ ایسے بھی خوش قسمت گزرے ہیں جو اولاد نرینہ سے تو محروم رہے لیکن عظمت کی بلندیاں ان کا مقدر بنیں۔ خدارا بےاولادی یا بانجھ پن کو جرم نہ بنائیں اور اس کی سزا ان معصوم خواتین اور جوڑوں کو نہ دیں جو بےقصور اور بےبس اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں۔
پاکستان میں جدید میڈیکل سائنس کی ترقی کے باوجود آج بھی بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بانجھ پن کو قرار دیا جاتا ہے۔ جو ہمارے موجودہ معاشرے پر ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔ مگر ہم سمجھداری، صبر، علاج اور باہمی اعتماد سے کام لیں تو بےاولادی کے باوجود کامیاب ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں۔ اولاد کی خواہش کو رشتوں کی آزمائش اور شکست میں نہیں بدلنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی سوچ کے دھارے بدلنا ہوں گے اور اس بارئے میں جدید میڈیکل سائنس کا شعور اجاگر کرنے کے لیے ہر سطح پر کام کرنا ہوگا۔ ایسے میں شعوری بیداری کے لیے خصوصاََ میڈیا اور سوشل میڈیا کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔

