Mitti Se Mitti Tak
مٹی سے مٹی تک
نہیں خبر انہیں مٹی میں اپنے ملنے کی
زمیں میں گاڑ کے بیٹھے ہیں جو دفینوں کو
بظاہر زمین کی بالائی تہہ، وہ مادہ جو زمین پر بچھا ہوا ہے مٹی کہلاتا ہے۔ ایک واقعہ پڑھا تھا کہ "بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی کا انتقال ہوگیا۔۔ اس کے دو بیٹے تھے ان دونوں کے مابین ایک دیوار کی تقسیم کے سلسلے میں جھگڑا ہوگیا۔۔ جب دونوں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو انہوں نے دیوار سے ایک غیبی آواز سنی کہ تم دونوں جھگڑا مت کرو کیونکہ میری حقیقت یہ ہے کہ میں مٹی ہوں گو ایک مدت تک اس دنیا میں بادشاہ اور مملکت رہا۔۔ پھر میرا انتقال ہوگیا اور میرے بدن کے اجزائے مٹی کے ساتھ مل گئے۔۔ پھر اس مٹی سے کمہار نے مجھے گھڑے کی ٹھیکری بنا دیا۔۔
ایک طویل مدت تک ٹھیکری کی صورت میں رہنے کے بعد مجھے توڑ دیا گیا۔۔ پھر ایک لمبی مدت تک ٹکڑوں کی صورت میں رہنے کے بعد میں مٹی اور ریت کی صورت میں تبدیل ہوگیا۔۔ پھر کچھ مدت کے بعد لوگوں نے میرے اجزائے بدن سے اینٹیں بنا ڈالیں اور یہ دیوار چن دی۔۔ اور آج تم مجھے اس دیوار میں اینٹوں کی شکل میں دیکھ رہے ہو لہٰذا تم ایسی مذموم وقبیح دنیا پر کیوں جھگڑتے ہو۔ آہ! آہ! یہ دنیا بڑی فریب دہندہ ہے فانی ہونے کے باوجود لوگوں کی محبوب بنی ہوئی ہے۔۔ یہ اپنی ظاہری رنگینی اور رعنائی سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے آخرت سے غافل کر دیتی ہے۔ " پنجابی کے مشہور صوفی شاعر اور بزرگ حضرت بابا بلھے شاہؒ فرماتے ہیں
نہ کر بندیا میری میری نہ تیری نہ میری
چار دناں دا میلہ دنیا فیر مٹی دی ڈھیری
کہتے ہیں انسانی بدن مٹی سے بنا تو اس کی خوراک بھی اللہ تعالیٰ نے مٹی سے ہی عطا فرما ئی ہے۔ روح کیونکہ اللہ تعالیٰ کے امر سے بنی ہے تو اس کی خوراک آسمانی (وحی) اور ذکر اللہ ہی ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے تخلیق فرمایا تو ابلیس کو یہ تکبر تھا کہ وہ آگ سے بنا ہے۔ اس لیے وہ افضل ہے وہ سمجھتا تھا کہ آگ کے شعلے میں رعونت ہے، بھڑک ہے، ہیبت ہے جو سب پر خوف وہراس طاری کر دیتی ہے۔
کہاں انسان کی تخلیق کے لیے استعمال ہونے والی گارے والی کھنکھاتی مٹی جس میں نہ بھڑک ہے نہ چنگاری یہی غرور اس کے سجدے سے انکار کا باعث بنا اور وہ سزاوار خداوندی قرار پایا۔ شاید یہ کائنات میں پہلا حسد بھی تھا۔ جو آگ کی شدت نے لیپ دار مٹی کی نرمی سے کیا اور شیطان تاقیامت ایک ایسے راستے پر چل پڑا جو گمراہی کا راستہ ہے اور وہ مٹی کے بنے انسان کو اللہ کی راہ اور راستے سے ہٹانے کے لیے ان میں آگ کی خصوصیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا چلا آرہا ہے۔
انسان میں یہ حسد یہ تکبر یہ رعونت شیطان ہی کا کیا دھرا ہی تو ہے؟ مٹی کا تو خمیر ہی یہ ہے کہ اس بیچاری کو جس سانچے میں ڈھال دو اسی سانچے میں ڈھل جاتی ہے۔ اسی لیے کمہار مٹی سے جو چاہے بنا لیتا ہے۔ جو سب امن اور سلامتی کے لیے ہوتا ہے انسانی سہولت اور آرام کے لیے ہوتا ہے لیکن آگ سے بننے والی ہر شے جلانے اور تباہی پھیلانے کا باعث بنتی ہے۔ یہ بڑے بڑے ہتھیار، بم، میزائل تباہی، بے چینی اور موت کے علاوہ بھلا اور کیا کرتے ہیں۔
حضرت عیسیٰؑ پر نازل آسمانی کتاب بائبل ہم سب کو مٹی سے تشبیہ دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ خدا نے والدین کو اپنے بچوں کو مٹی کی طرح ڈھالنے کی اہم تفویض سونپی ہے۔ ہمارے ایک دوست کہتے تھے کہ ذرا غور کرو تو انسانی زندگی مٹی سے بنتی ہے مٹی سے زندہ رہتی ہے اور مٹی ہی میں دب کر پھر مٹی ہو جاتی ہے۔ ہمارے گھروں کے در و دیوار اسی مٹی سے ہی تو بنتے ہیں تو گویا سب کچھ مٹی ہی تو ہے۔
جنگلات کے بارے میں ایک کتاب یوں بیان کرتی ہے کہ "اگر آپ جنگل کے ایک مربع فٹ کی مٹی صرف ایک انچ تک کھودتے ہیں تو اس میں سے تین سو پچاس کیڑے مکوڑے ملیں گے جو نظر آتے ہیں۔ وہ بےشمار جراثیم الگ ہیں جو صرف خوردبین سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ سب مٹی سے جنم لیتے اور مٹی سے خوراک لیکر زندہ رہتے ہیں اور اسی مٹی کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ اگر پانی نہ میسر ہو تو مٹی انسان کو پاک بھی کردیتی ہے۔ ہمارے وضو کا سامان بن جاتی ہے۔
دنیا میں موجود ہر ذی روح، درخت، پودے پہاڑ، دریا، پانی، بادل، خوراک اور تمام اشیاء ضرورت غرض ہر ہر شے کا رشتہ مٹی سے ہی جڑا ہے۔ مٹی سے مٹی تک یہ سفر ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اور ہمارے پیارے نبی ﷺ نے مٹی اور انسان کے باہمی رشتے کے بارے میں قراں و حدیث میں بار ہا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "زمین کی اسی مٹی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں دوسری مرتبہ پھر نکالیں گے "۔ پھر فرمایا کہ "اور بے شک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو پہلے سن رسیدہ سیاہ بو دار ہو چکا تھا "۔ پھر فرمایا "بے شک ہم نے ان لوگوں کو چپکنے والے گارے سے پیدا کیا ہے"۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا "اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے حضرت آدمؑ کو پیدا کیا چنانچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے نرم مزاج و گرم مزاج بد باطن اور پاک طینت لوگ پیدا ہوے (ترمذی) جب کوئی شخص بیمار ہو جاتا اسے کوئی زخم لگ جاتا یا کچھ اور ہوتا تو نبی ﷺ پاک اپنی شہادت کی انگلی پر اپنا کچھ لعاب مبارک لگاتے اور انگلی کو مٹی پر رکھ دیتے یوں اس کے ساتھ کچھ مٹی لگ جاتی پھر آپ ﷺ اسے اس جگہ پھیر دیتے جہاں زخم یا بیماری ہوتی اور فرماتے "اللہ کے نام سے یہ ہماری زمین کی مٹی ہے۔ اس کے ساتھ ہم میں سے کسی کا لعاب لگا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے رب کی اجازت سے ہمارا مریض شفا یاب ہوگا " گویا مٹی میں انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ شفا بھی ہوتی ہے۔
جب ہم اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اپنا سر جھکا لیتے ہیں اور اسکی رضا کے لیے اپنی پیشانی زمین پر رکھ کر اپنی ذات کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں تو گویا مٹی مٹی ہو جاتے ہیں۔ تو وہ بلند ذات اسی مٹی سے ہمیں دوبارہ زندہ کرتی ہے۔ پھر وہ پاک ذات تمہارے ناہونے سے ہونے کا وسیلہ بناتی ہے۔ پھر وہ اپنے ایک حکم سے ہر وہ شے بدل دیتا ہے۔ وہ جس نے چھ دنوں میں پوری دنیا تخلیق فرمائی وہ جو آج بھی ہماری ہر گہری رات کے اندھیروں کو اجالے اور روشنی میں ڈھال دیتا ہے بے شک وہی پاک ذات ہے جو ہمیں دکھوں اور تکلیفوں سے نکال کر راحتوں اور خوشیوں میں داخل کر دیتی ہے۔
وہ تو بس اشارہ کرتا ہے تو سالوں کی بکھری چیزیں پل میں درست ہو جاتی ہیں وہ ہی تو قادر ہے کہ ہمیں مٹی سے پیدا کرے پھر مٹی کردے اور پھر اسی مٹی سے اٹھاے گا مٹی سے رزق دے کر زندہ رکھے اور مٹی کے نیچے قبر میں بھی مٹی کے سپرد کردے۔ پھر وہاں قیامت تک تمہاری رکھوالی کرے اور پھر قیامت کےدن اسی مٹی کی ڈھیری سے تمہیں کھڑا کر دے۔ تو پھر یہ آنسو کیوں؟ مایوسی کیسی؟ اس ذات پر اعتماد کیوں نہیں ہے اپنے رب کو سچے دل سے پکارو کیونکہ وہی فرماتا ہے کہ مجھ سے مانگو مجھ سے ہی مدد طلب کرو اس کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا چاہے وہ مٹی کے اوپر ہو یا مٹی کے نیچے ہو وہ دعا قبول کرنے والا بھی ہے اور محبت کرنے والا بھی ہے۔
تو بس جان لو کہ مٹی کا مقدر بھی مٹی ہی ہوتا ہے اپنے مقدر کے پیچھے مت بھاگو بلکہ مقدر بنانے والے کومنا لو وہ اپنے مٹی سے بنے انسان کو بلندی کے عظیم رتبے پر فائز کردیتا ہے۔ جہاں فرشتے بھی سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اور اللہ کی بنائی یہی مٹی انسان کو ایک دن بے نشان کر دیتی ہے ناجانے کتنے ہی مٹی کے ڈھیر ایسے ہیں جو کبھی اس دنیا کی رونق ہوا کرتے تھے اور اب وہ مٹی ہو چکے ہیں۔ ہم بھی عجیب ہیں خود مٹی ہوکر مٹی میں ملنے سے ڈرتے ہیں زندگی سوچ سمجھ کر گزارو کیونکہ جو آج مٹی کے اوپر کرو گے کل مٹی کے نیچے اس کا حساب بھی مٹی کو ہی دینا پڑے گا۔
اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے
ایک دن آے گا ہم بھی داستاں ہو جائیں گے