Mehangai Ke Apne Apne Pemaane
مہنگائی کے اپنے اپنے پیمانے

گذشتہ دنوں لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو گھر کے سامنے فیصل ٹاون کی ایک مارکیٹ میں ایک باربر شاپ پر کٹنگ کرانے گیا۔ پرویز نامی وہ حجام میرا پرانا جاننے والا ہے اسکے ہاتھ اور قینچی کے ساتھ ساتھ حسب روایت زبان بھی بہت چلتی ہے۔ وہ سیاست سمیت ہر موضوع پر اپنا ماہرانہ تجزیہ اور تبصرہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس مرتبہ مجھے محسوس ہوا کہ وہ خاموش خاموش سا ہے تو میں نے پوچھ لیا کہ پرویز کیا ہوا ہے کیوں پریشان لگ رہے ہو؟ تو کہنے لگا صاحب مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہوں پریشانی تو بنتی ہے۔ پھر بتانے لگا کہ پہلے کی نسبت میرے آدھے گاہک کم ہو گئے ہیں۔
میں نے پوچھا کیا وجہ ہے آبادی تو بڑھ رہی ہے؟ تو کہنے لگا صاحب! پہلے جو شخص روز شیو بنواتا تھا وہ اب دو یا تین دن بعد بنوانے لگا ہے اور جو کٹنگ ہر پندرہ دن بعد کراتا تھا اب وہ ایک ماہ بعد ادھر کا رخ کرتا ہے۔ بال رنگ کرانے تو اب بہت ہی کم لوگ آتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے گھر پر ہی رنگ لیتے ہیں۔ لوگوں نے شیو اور بال کاٹنا بھی گھروں پر ہی شروع کردیا ہے۔ میں کوئی افسر تھوڑا لگا ہوں جو ہر ماہ تنخواہ ملتی رہے۔ میں تو ایک معمولی حجام ہوں جس کی دوکان کا کرایہ بھی بڑی مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ مہنگائی کے اثرات ہر فرد پر پڑنے لگے ہیں۔ بال کٹوانے، شیو بنوانے اور بال رنگ کرانے والے موجود تو ہیں لیکن ان کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ اس کی باتیں سنکر یوں لگتا ہے جیسے مہنگائی کا کوئی ایک پیمانہ نہیں رہا بلکہ ہر انسان اپنی ضرورت، اپنی محرومی اور اپنی امید کے مطابق اسے ناپتا ہے۔
حالات نے ہمیں معاشی ہی نہیں احساسی اور اخلاقی مہنگائی کے خطرناک اور مشکل دور میں داخل کردیا ہے۔ مہنگائی آج اعداد و شمار کا کھیل نہیں رہی بلکہ یہ ہر فرد اور شخص کے احساس اور حال کے مطابق اپنا پیمانہ خود طے کر رہی ہے۔ ایسے ہی ایک فروٹ فروش قوت خرید اور پھلوں کی خریداری میں کمی اور بچ جانے والے پھلوں کے ضائع ہونے سے ہونے والے نقصان کو مہنگائی سے جوڑ رہاتھا۔ ہمارا دودھ والا کہتا ہے کہ جو لوگ پہلے دو کلو دودھ لیتے تھے اب ایک یا ڈیڑھ کلو لینے لگے ہیں۔ لازمی ضروریات زندگی کی اشیاء کے استعمال میں کمی کو وہ مہنگائی کی وجہ قرار دیتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہر پانچواں آدمی اپنا مطلوبہ کھانا نہیں کھا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا کوئی ایک رخ نہیں ہے یہ رخ بدل بدل کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ مجھے ذاتی طور مہنگائی کا احساس تب ہوتا ہے جب میں سوچتا ہوں کہ جب میری تنخواہ صرف دو سو روپے تھی تب بھی گھر کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا اور جب میری تنخواہ دو لاکھ تھی تب بھی میرے گھر کا گزارہ مشکل سے ہی ہوتا رہا ہے۔ کبھی کسی بڑی خواہش کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم جمع نہ کرسکا۔ زندگی کے ستر سالوں کے دوران قرض دو سو روپے تنخواہ میں بھی لینا پڑتا تھا اور دولاکھ کے دوران بھی لینا پڑا۔ جب تنخواہ ملتی تو لگتا کہ نوکری ٹھیک ہے لیکن ٹھیک پانچ دن بعد احساس ہوتا کہ مجھے نوکری کی بجائے کوئی کاروبار کرنا چاہیے تھا تاکہ ہر وقت ہاتھ میں پیسہ تو رہتا۔
میں یہ سوچ رہا تھا کہ مہنگائی اب وہ سادہ سا لفظ نہیں رہا جو کبھی صرف عادتاََ بولا جاتا تھا بلکہ یہ اب ایک ہمہ گیر کیفیت بنتا چلا جارہا ہے۔ جو انسان کی جیب، دل، ذہن اور جسم تک پھیل رہا ہے۔ مہنگائی ناپنے کے ہر شعبہ زندگی کے الگ الگ پیمانے ہوتے ہیں۔ مہنگائی صرف اشیاء خوردونوش یا پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں تک محدود نہیں رہی۔ یہ احساسات، اقدار، رشتوں، تعلیم، علاج اور عزت نفس تک جا پہنچی ہے۔ جہاں ایک دیہاڑی دار مزدور کے لیے روٹی مہنگی ہے وہیں ایک طالب علم کے لیے تعلیم اور ایک بیمار کے لیے ادویات اور زندگی بڑے معنی رکھتی ہے۔ غریب کے لیے دن بھر کی مزدوری کے اگر تنخواہ بجلی کے بل یا بچوں کے دودھ میں ختم ہو جائے تو مہنگائی اس کے صبر کی قیمت بن جاتی ہے۔
استاد کے لیے مہنگائی صرف تنخواہ کا مسئلہ نہیں اسکے علم کی قدر کم ہونا بھی ایک طرح کی فکری مہنگائی ہوتی ہے۔ تاجر کے لیے مہنگائی منافع کا بہانہ ہے۔ وہ چیزوں کی قیمت نہیں بڑھاتا، خواہشوں کی حد بڑھا دیتا ہے۔ مریض کے لیے دوا مہنگی، زندگی مہنگی اور ہسپتال یا کلینک کا ہر بل دل کے بوجھ کو بڑھاتا ہے۔ شاعر یا ادیب کے لیے الفاظ سستے مگر احساسات مہنگے ہو گئے ہیں کیونکہ قلم کے زخم آج بھی سستے نہیں بھرتے۔ یہ مختلف افراد کے مختلف پیمانے معاشرے میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں نمائیاں معاشی پیمانے، سماجی پیمانے، جسمانی اور صحت وعلاج کے پیمانے، تعلیم وتربیت کے پیمانے، انسانی وقار اور عزت کے پیمانے اور فکری اور اخلاقی مہنگائی کے الگ الگ پیمانے ہوتے ہیں۔ آج ایک رشوت خور بھی مہنگائی کا رونا روتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک مہنگائی سے رشوت میں کمی ہوتی ہے۔ دودھ والے کو اگر خالص دودھ اسی جعلی دودھ والی قیمت پر بیچنا پڑے تو اس کے نزدیک یہ مہنگائی ہے گویا آپکی آمدنی میں کمی بھی مہنگائی سمجھی جاتی ہے۔
ماہر معاشیات مہنگائی کو صارف قیمت اشاریہ سے ناپتے ہیں۔ یعنی بازار میں چیزوں کی قیمتوں میں عمومی اضافہ لیکن جو مزدور صبح مزدوری ڈھونڈنے نکلا اور شام کو خالی ہاتھ لوٹا وہ جانتا ہے کہ کام کا نہ ملنا بھی مہنگائی ہے۔ اس کے لیے مہنگائی کا پیمانہ یہ نہیں کہ مہنگائی کتنے فیصد بڑھی ہے بلکہ اس کے لیے مہنگائی کا مطلب یہ ہے کہ اس کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہے اور بچے بھوکے سو گئے ہیں۔ اسی طرح رشتے، تعلقات اورعزت نفس کی دنیا میں بھی مہنگائی بڑھ گئی ہے۔ اب محبت اور تعلق سچا نہیں بلکہ کامیاب ہونا ضروری ہے۔ دوستی اب خلوص نہیں بلکہ فائدہ مانگتی ہے۔ جہاں احساسات کی قدر بڑھ گئی ہے مگر ملنے والے دل کم ہو چکے ہیں۔
پہلے انسان بیماری سے ڈرتا تھا اب ہسپتال کے بل سے خوفزدہ ہے۔ زندگی کا ہر سانس مہنگا ہو چکا ہے جہاں دوائی اور علاج ایک خواب بنتا جارہا ہے۔ یہ وہ مہنگائی ہے جو دل کے اندر دھڑکنے والے خوف کی شرح سے ناپی جاتی ہے۔ ایسے ہی تعلیم کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ استاد کی عزت گھٹتی جارہی ہے تعلیمی فیسیں آسمان سے باتیں کر ہی ہیں۔ قابلیت ڈگری کے وزن سے تولی جاتی ہے۔ یہ وہ تعلیمی مہنگائی ہے جہاں علم تو سستا ہے مگر ڈگری مہنگی ہو چکی ہے۔ پہلے لوگ کم تنخواہ ہ اور کم آمدنی میں بھی گزارہ عزت سے کر لیتے تھے۔ آج بڑی تنخواہ اور بڑی آمدنی والے بھی احسا س کمتری کا شکار اور ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے وقار اور عزت کے پیمانے بدل چکے ہیں۔ ہم لوگوں کی حیثیت صرف روپے پیسے ہی نہیں بلکہ اس کے گھر، گاڑی اور موبائل سے ناپتے ہیں۔
دوسری جانب فکری اور اخلاقی طور پر بطور معاشرہ اور ہم سب انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر سطح پر مہنگائی، مایوسی اور خاموشی کا شکار ہیں۔ الفاظ بک رہے ہیں سچ بولنا مہنگا ہوگیا ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ آج کا انسان صرف قیمتوں میں نہیں بلکہ قدروں میں بھی مہنگا ئی کا قیدی بن چکا ہے۔ حکومت کے اعداد وشمار صرف بازار کا احوال بتاتے ہیں لیکن قوم کی حالت دل نہیں ناپ سکتے۔
اصل مہنگائی وہ ہے جو جیب سے زیادہ ضمیر، احساس اور سکون کو متاثر کرتی ہے اور یہ ہر شخص کے لیے ہے، کسی کے لیے روٹی، کسی کے لیے دوا، کسی کے لیے عزت کی قیمت، کسی کی تعلیم سے محرومی۔ نوجوان کے لیے مہنگائی خوابوں کی ہے جہاں نوکری، گھر اور عزت کی تلاش ایک حسین تصور سے زیادہ نہیں ہے۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ مہنگائی کے اعداد وشمار تو انسان کے جہروں پر لکھے ہوتے ہیں جو نظر تو نہیں آتے مگر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی، بےروزگاری اور غربت آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام آدمی کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔

