Maeeshat Ke Ghair Sarkari Muhafiz
معیشت کے غیر سرکاری محافظ

گذشتہ دنوں میرا بیٹا جو طویل عرصے سے بیرون ملک آئر لینڈ میں مقیم ہے اپنی چند چھٹیاں گزارنے پاکستان آیا ہوا تھا۔ تمام تر آسائشوں کے باوجود اپنے وطن کی مٹی اور ماں باپ اور بہن بھائیوں سے محبت اسے ہمیشہ اپنی جانب کھینچتی ہے۔ کہتے ہیں کہ پردیس تو پردیس ہی ہوتا ہے اس کے اپنے ہی دکھ ہوتے ہیں اور ان پردیسیوں کی اپنی ہی قربانیاں ہوتی ہیں جن کا احساس وطن میں رہتے ہوئے کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پردیسی اور اورسیز پاکستانی صرف روزگار یا پیسہ کمانے نہیں جاتے بلکہ اپنے بے شمار خوابوں اور خواہشوں کی تکمیل اور بے شمار محرومیوں کے خاتمے کے لیے اپنوں سے دوری کو برداشت کرتے ہیں۔
بیرون ملک درختوں پر پیسے نہیں لگتے بلکہ پیسہ کمانے کے لیے دن رات وہ محنت کرنی پڑتی ہے جو اپنے ملک میں تصور بھی نہیں کی جاسکتی وہ اپنا ایک ایک لمحہ روزگار کے لیے دوڑ دھوپ میں گزارتے ہیں۔ وہاں روز وطن اور اپنے گھر کی کسی نہ کسی خبر سے ان کا دل ٹوٹتا ہے اور آنکھ نم ہو جاتی ہے۔ پردیس میں خوشی کی خبر بھی رولا دیتی ہے اور دکھ تو پھر دکھ ہی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہاں سے کوئی بھی واپس آنا نہیں چاہتا ہےبلکہ ہر نوجوان خواہش مند ہے کہ کوئی کسی بھی جائز یا ناجائزطریقے سے بیرون ملک چلا جاے۔
ایک جانب تو یہ اورسیز دنیا بھر میں پاکستان کے سفیر ہوتے ہیں تو دوسری جانب یہ ملک کی معیشت کی مضبوطی کےلیے لڑنے والے وہ مجاہد ہوتے ہیں جو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اکیلے پن کا دکھ اور مشقت کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ "اورسیز والوں کے پاس تو پیسہ بہت ہے "مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ان کے پاس وقت نہیں، آرام نہیں اور اپناپن بھی نہیں ہوتا "۔ یہ لوگ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی روزی روٹی کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کے معاشی استحکام کے لیے بھی ہجرت کا دکھ اٹھاتے ہیں۔ ان کے پسینے کے قطرے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بھر دیتے ہیں۔
اپنوں اور اپنی مٹی سے جدائی کا یہ دکھ وہ صرف پیسہ کمانے کے لیے نہیں اٹھاتے بلکہ اس کی بہت سی وجواہات اور بھی ہوتی ہیں۔ میں نے اس مرتبہ اپنے بیٹے سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا دراصل ایک اچھی زندگی گزارنے کی خواہش ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان سے بیرون ملک گئے بیشتر ڈاکٹرز، انجینیرز، وکیل اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ نوجوان بھی وہاں مزدوری کرکے بھی خوش رہتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کام کی نہیں انسان کی عزت ہوتی ہے۔ انہیں وہاں پرامن ماحول ملتا ہے وہاں ریاست کے قوانین پر مکمل عملدرآمد کی باعث جان مال کا تحفظ ملتا ہے۔
ان کی عزت اور عزت نفس کا حترام وہاں آپس میں عام لوگ ہی نہیں کرتے بلکہ سرکاری اہلکاربھی عزت سے پیش آتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہاں جھوٹ نہیں بولا جاتا اور جھوٹے کو سب سے برا سمجھا جاتا ہے۔ دبئی کی تعمیرات سے لےکر سعودی عرب کے کارخانوں تک، یورپ کے ہسپتالوں سے لےکر برطانیہ کے ٹیکسی اسٹینڈ تک یہ پاکستانی اپنی محنت سے نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ملک کا مقدر سنوارتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ہر وقت پاکستان کی جانب سے آنے والی اچھی خبروں اور ٹھنڈی ہواوں کے منتظر اور بےچین رہتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ وطن صرف ایک زمین کا ٹکڑا نہیں ہوتا یہ احساس، شناخت اور مٹی تلے دور تک پھیلی جڑوں کی خوشبو کا نام ہوتا ہے۔ مگرجب یہی خوشبو ضرورتوں کے پہاڑ تلے دبنے لگے تو ہمارے بیٹے اپنے گھروں، گلیوں اور دیس کی مٹی چھوڑ کر پردیس جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ اورسیز پاکستانی ہیں جن کے پسینے کی خوشبو آج پاکستان کی معیشت کی بنیادوں کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ہر سال اربوں ڈالرز، یورو، پونڈز، ریال اور درہم کی ترسیلات زر پاکستان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی اور گردش کرتی ہیں۔ یہی رقم ہماری ادائیگیوں کا توازان برقرار رکھتی ہے۔ یہی زرمبادلہ ملکی کرنسی کو سہارا دیتا ہے اور آج یہی دیار غیر کے مزدور پاکستان کے اقتصادی استحکام کی امید بنے ہوئے ہیں۔
ملک کی حفاظت کے لیے آج بہادر اور مضبوط فوجی قوت کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام کو ملک کے بقا کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ ایک جانب ہماری بہادر افواج زمینی، فضائی اور سمندری سرحدوں کی حفاظت کرتی ہیں تو دوسری جانب یہ اورسیز پاکستانی فرزند ہمارے معاشی استحکام کے علمبردار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے بھی اورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کے "غیر سرکاری محافظ" قرار دیتے ہیں۔ گذشتہ سال کے اعداد وشمار کے مطابق اورسیز کی جانب سے تقریباََ اٹھائیس ارب ڈالرز وطن بھیجے گئے۔ یہ رقم پاکستان کی برآمدات سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ یہی ترسیلات زر ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر، روپے کی قدر اور برآمدی توازن کو سہارا دیتی ہے۔
ان اورسیز کے دکھ بھی دوہری نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ایک جانب پردیس کی تنہائی اور جدائی کا دکھ اور دوسری جانب ہمارے رویوں کا دکھ ہوتا ہے۔ ایک بیوی جب ہزاروں میل دور سے شوہر کی آواز سن کر مطمین ہوجاتی ہے تو اس کے صبر کی کوئی معیشتی قدر نہیں لگائی جاسکتی۔ وہ ماں جس نے بیٹے کو روزگار کے لیے دعاوں اور آنسوں کے ساتھ باہر بھیجا ہے وہ ہر فون کال پر دعا کرتی ہے کہ "بیٹا سلامت رہے" اور یہی سوچتی رہتی ہے کہ اس نے کیا کھایا ہوگا؟ یا کھایا بھی ہوگا یا نہیں؟ مگر وہ شاید یہ نہیں جانتی کہ بیٹا وہاں صرف مشقت نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے وطن کے قرض اتارنے میں معاونت کا فرض بھی ادا کر رہا ہے۔
وہ وطن کا وہ "معاشی مجاہد"ہے جو چپ چاپ اپنا قومی فریضہ ادا کررہا ہے۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا "نان ٹیکس ریونیو سورس" یہی ترسیلات ہی ہوتی ہیں۔ وطن کے یہ خاموش اور گمنام مجاہد ہماری معاشی سرحدوں کی حفاظت کرتے کرتے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات اور اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیتے ہیں اور بڑی خاموشی سے کسی تابوت میں بند واپس وطن کی مٹی میں دفن ہونا پسند کرتے ہیں۔ اکثر اپنے پیاروں کا آخری دیدار بھی ان کے نصیب میں نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہےکہ کیا ان محنت کشوں کو کبھی ٹیکس دینے والوں جیسا یا وطن کی خدمت کرنے والوں جیسا احترام ملا؟ کیا ان کے لیے کوئی باعزت سرمایہ کاری، رہائش یا واپسی پر زندگی گزارنے کا کوئی منصوبہ تشکیل دیا گیا؟ کیوں ہم نے ان سے زر اور کام تو لیا مگر وہ قدر نہ دی جس کے یہ حقدار ہیں؟ یقیناََ وی وی آئی پی پروٹوکول کے مستحق یہی اورسیز پاکستانی جب وطن لوٹتے ہیں تو ان کے لیےائیر پورٹ کی بھیڑ، کاغذی اذیتیں اور تحقیر آمیز رویے ان کا استقبال کیوں کرتے ہیں؟ وطن کی محبت میں واپس آنے والوں کو ذہنی کرب سے کیوں گزرنا پڑتا ہے؟ کچھ حقیقتیں تلخ ضرور ہوتی مگر ان کی نشاندہی ہی ان کے ازلے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہمیں ان کی مشکلات اور تکلیفوں کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں انہیں وہ محبتیں دینی ہوں گی جس کے یہ حقدار ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ ریاست اور عوام دونوں اورسیز پاکستانیوں کو صرف زرمبادلہ کا منبع نہیں بلکہ قومی سرمائے کے طور پر تسلیم کرئے بلکہ ان کے احساس وابستگی کی بھی قدر کرے اور ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو ملک میں خصوصی عزت و احترام کا حقدار قرار دئے۔ تاکہ وہ اپنے وطن کو صرف پیسہ ہی نہیں اپنا تجربہ اور وژن بھی دیں۔ ان کے لیے شفاف سرمایہ کاری کی اسکیمیں، قانونی تحفظ اور سفارت خانوں میں موثر خدمت کے نظام قائم کئے جائیں کیونکہ اگر ان کے دکھ بڑھ گئے تو وہ رشتہ جو آج پاکستان کی معیشت کے ساتھ مضبوطی سے کندھا جوڑے کھڑا ہے کل کو کمزور بھی پڑ سکتا ہے۔
پردیس میں رہنے والا ہر پاکستانی دراصل ایک سفیر ہے اپنے وطن کی امیدوں کا، اپنے والدین اور خاندانوں کے خوابوں کا اور اپنی زمیں کی مٹی کے مستقبل کا۔۔ انہیں احساس فخر دیجیے احساس بوجھ نہیں۔ یہ فخر تب ہی برقرار رہ سکتا ہے جب وطن بھی اپنے ان بیٹوں کو عزت واحترام سے یاد کرے ٔ۔ پاکستان کی ترقی کا خواب تب ہی پورا ہوسکتا ہے کہ جب اورسیز پاکستانیوں کے دکھوں کا مداوا کیا جائے ان کے لیے عزت، آسانیاں اور مواقع پیدا کئے جائیں اور یہی وہ دن ہوگا جب بیرون ملک رہنے والا ہر پاکستانی کہے گا "میں پردیس میں بھی پاکستان کے لیے زندہ ہوں" پاکستان میرا فخر ہے۔

