Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Lahori Khaba Zaiqa Jo Dil Tak Pahunche

Lahori Khaba Zaiqa Jo Dil Tak Pahunche

لاہوری "کھابہ" ذائقہ جو دل تک پہنچے

مجھے بچپن میں اپنے ننھیال لاہور جانے کا اتفاق ہوتا تو ہمارے نانا جان ارتضیٰ خان مرحوم جو لاہور کے لوہاری گیٹ کے پوسٹ ماسٹر ہوا کرتے تھے اور انارکلی بازار کے ساتھ ہی دھنی رام روڈ پر رہائش پذیر تھے۔ وہ ہماری بڑی خاطر تواضع کرتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کھانا گھروں میں پکا کر کھانا زیادہ بہتر سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ صبح کے ناشتے میں لاہوری کلچے، چنے اور کبھی کبھی سری پائے ضرور شامل کرتے۔ وہ بعض اوقات ہمیں ریلوے روڈ پر لاہور کی روائتی لسی اور حلوہ پوری بھی ضرور کھلاتے۔ اکثر شام کو دھنی رام روڈ پر کھڑے مشہور گول گپے والے سے گول گپے ضرور کھلاتے۔ ہم بڑی خواہش رکھتے تھے کہ لاہور جایا جائے اور لاہوری کھانوں سے لطف اندوز ہوا جائے۔ مگر غم روزگار سے فرصت ہی نہ ملتی۔

نانا ارتضیٰ خان بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اور ہم بھی دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گئے۔ کبھی لاہور جانا بھی ہوتا تو وہاں کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرتے جہاں بہت کچھ ہوتا مگر لاہوری روائتی کھانوں کا ذائقہ نہ ملتا۔ لاہور میں اگر فرصت کے چند لمحات ملتے تو اپنے دوست ملک وقار کے ساتھ گزرتے جو ہر دفعہ لاہور کی نئی اور جدید ڈش تلاش کرکے کھلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ دل کرتا کہ ایک مرتبہ پھر گھومتا پھرتا دھنی رام روڈ پر جاکر سٹرک پر کھڑی گول گپے کی چھابڑی نما ریڑی سے گول گپے کھاوں لیکن کئی مرتبہ پورا دھنی رام روڈ چھان مارا وہ گول گپے والا نہ مل سکا۔ لاہور میں موجود گول گپے والے تو بہت ملے مگر وہ ذائقہ نصیب نہ ہو سکا۔ البتہ "لاہوری کھابہ" کی بات سنی تو ضرور جاتی مگر سمجھ نہ آتا تھا کہ یہ "کھابہ" آخر ہوتا کیا ہے؟

میری جب ایم سی بی سے بینک کے بعد الفلاح اسلامک میں ملازمت کا آغاز ہوا تو مجھے اورینٹیشن کے لیے کچھ عرصہ کے لیے گلبرگ بلیو ایریا لاہور ہیڈآفس میں تعینات کیا گیا۔ جہاں کے سربراہ محترم اعجاز فاروق صاحب کے ساتھ کام کرنے اور ان کی بےپناہ صلاحیتوں کو دیکھنے کا اور سیکھنے کا نادر موقع ملا۔ بلاشبہ بینکنگ انڈسڑی میں میں نے ان سے زیادہ محنتی بینکار نہیں دیکھا۔ ہم دوپہر کا کھانا اکثر ساتھ کھاتے اور اس دوران بھی بینکنگ ہی ہمارا موضوع ہوا کرتا تھا۔ اسی دوران میرے مشورے پر کئی نئی برانچوں کی پر پوزل بھی منظور ہوئیں جن میں بہاولپور، کوٹ ادو، میلسی، وہاڑی بھی شامل تھیں۔

یہ وہ علاقے ہیں جہاں میں نے پہلے ایم سی بی میں کام کیا ہوا تھا۔ اس دوران ایک دن وہ مجھے کہنے لگے جاوید! مجھے تو تم نے لکڑی کے پھٹے پر بیٹھا کر رحیم یار خان کی ٹکی رام کی دال کھلائی تھی کیا تم نے لاہور کے کھابے بھی کبھی کھائے ہیں؟ کھابے کی لفظ پر مجھے پھر بڑی حیرانگی ہوئی یہ لفظ بہت مرتبہ سنا ضرور تھا لیکن "کھابہ"کھایا کبھی نہیں تھا۔ میں جواب دیا جی نہیں سر! لاہوری "کھابہ"کھانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ، لاہوری کھابے کیا ہوتے ہیں؟ انہوں نے فوراََ فون اٹھایا اور میکلوڈ روڈ برانچ کے منیجر محبوب شکیل بھٹی صاحب کو کہا کہ میں جاوید صاحب کو کچھ دنوں کے لیے آپکی برانچ میں بھیج رہا ہوں۔

انہیں ذرا لاہوری کھابوں کا تعارف کرائیں۔ میں برانچ پہنچا تو محبوب بھٹی صاحب کی خوبصورت شخصیت سے بڑا متاثر ہوا کیونکہ کسی بینکار کا ادبی ذوق رکھنا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا اور پھر وہ تو ماشااللہ بڑے اچھے شاعر نکلے۔ وہ آج کل ایم سی بی اسلامک کے ہیڈ آفس لاہور میں ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنے آپریشن منیجر فصیح سنبل صاحب کے سپرد کردیا اور ہدایت کی کہ انہیں تمام لاہوری کھابے دکھاو، کھلاو اور بتاو۔ نوجوان فصیح نہایت ہی بااخلاق اور خوش مزاج انسان ہے جو آجکل بینک آف پنجاب اسلامک میں کریڈٹ ہیڈ کے طور پر کام کر ہے ہیں۔ انہوں نے مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بڑی فراخ دلی سے خوش آمدید کہا۔

فصیح سنبل نے ملتے ہی اپنی مہمانداری کا آغاز کر دیا اور ہر روز مجھے ایک نئی ڈش منگوا کر کھلاتا۔ اس دوران میں نے تمام مشہور مشہور لاہوری کھانے کھلائے۔ ہر طرح کے لاہوری ناشتوں سے لیکر دوپہر کا کھانا اور رات کا عشائیہ سب نئی ڈشوں پر مشتمل ہوتا۔ اپنی قیام کے آخری دن میں نے فصیح سے پوچھا یار! وہ لاہوری کھابا تو رہ ہی گیا؟ تو وہ ہنسا اور کہنے لگا آج آپکو اصل کھابہ کھلاو گا اور پھر آپ کو بتاوں گا کہ لاہوری کھابے کیا ہوتے ہیں؟ اس روز انہوں نے مال روڈ پر غالباََ پیراڈائز ہوٹل سے مٹن جوڑ کی ڈش کھلائی جس کی انفرادیت کبھی نہیں بھولتی۔

میں نے پوچھا کیا یہی "کھابہ"ہے؟ تو پھر اس نے بتایا کہ کھابہ دراصل پنجابی کا لفظ ہے سادہ معنی میں"کھانے کی چیز" یا "لذیذ پکوان" لیکن لاہوری لہجے میں یہ لفظ صرف کھانے کے لیے نہیں بلکہ کھانے کے لطف، ذائقے اور سلیقے کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ کوئی عام سالن، چاول یا نان بھی جب دل سے بنایا گیا ہو اور لاہور کی مٹی کی خوشبو سے بھرا اور دوستوں کے ساتھ کھایا جائے تو وہ "کھابہ" بن جاتا ہے۔ کھابہ وہ نہیں جو پلیٹ میں ہو بلکہ کھابہ وہ ہے جو ذائقے سے دل تک پہنچے۔ لاہور کی تاریخ میں ذائقہ ہمیشہ سے ایک تہذیبی نشان رہا ہے۔

مغل دور کے شاہی دسترخوانوں سے لے کر انارکلی، لکشمی چوک، شاہ عالمی اور گوالمنڈی کی گلیوں تک یہاں کے لوگ کھانے کو "فن" کی طرح برتتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہوری کھابہ صرف پیٹ نہیں بھرتا۔ یہ محبت بانٹتا ہے، دل جوڑتا ہے اور دوستی کو مضبوط کرتا ہے۔ کھانے تو ہر جگہ ملتے ہیں لیکن یہاں کے پائے، چنے، دال چاول، نان چھولے، بابی کیو، تلی ہوئی مچھلی، بریانی، نہاری، سری پائے، لسی، فالودہ، حلوہ پوری اور کھیر ہر ذائقہ لاہور کے لہجے کی طرح کھرا اور گہرا ہوتا ہے۔ لاہوری کھابہ دراصل زندگی کی خوش ذوقی کی علامت ہوتا ہے اور سکھاتا ہے کہ زندگی کو مرچ مصالحے کے ساتھ کیسے جینا چاہیے۔

وقت کے ساتھ ذائقے بدل سکتے ہیں مگر محبت کی بھاپ ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ کھانے کی اصل لذت تب ہے جب وہ دوسروں کے ساتھ مل بانٹ کر کھایا جائے۔ ایسے کھابے صرف جسم کو غذا نہیں دیتے بلکہ روح کو آسودگی بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ شہر بتاتا ہے کہ محبت اور کھانا دونوں بانٹنے سے بڑھتے ہیں۔ لہذا اگر کبھی لاہور جانا ہو تو صرف اسکی تاریخی عمارات دیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے چکھنے، سونگھنے اور محسوس کرنے کی کوشش کریں کیونکہ کہتے ہیں کہ لاہور صرف بستا نہیں بلکہ پکتا بھی ہے۔ کیونکہ لاہور صرف اینٹوں اور عمارتوں کا شہر ہی نہیں یہ ذائقوں، خوشبووں، قہقہوں اور محفلوں کا استعارہ بھی ہے۔

یہاں ہر گلی میں کوئی نہ کوئی دیگ چڑھی ہوتی ہے، ہر کوچے میں کسی تندور سے تازہ نان اور کلچے کی خوشبو آتی ہے اور ہر چوک سے بھاپ اٹھتے پائے یا چنے کسی بھوکے دل کو دعوت دیتے ہیں۔ جی ہاں یہی تو ہیں"لاہوری کھانے" لاہور کی پہچان، لاہور کا مزاج اور لاہور کی زندگی جسے لاہوری "کھابہ" کہتے ہیں۔ یہ "لاہوری کھابہ" صرف کھا کر ہی نہیں بلکہ یہ نام سن کر ہی دل خوش اور زبان تر ہو جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا نہیں ہوا مگر میں کہتا ہوں جس نے لاہوری "کھابہ" نہیں کھایا وہ کھانے کے لطف سے آشنا ہی نہیں ہوا۔ کیونکہ کھانا ذائقہ نہیں خوشی کا وہ لمحہ ہوتا ہے جو انسانی زندگی کو خوشگوار بنادے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan